خواتین کا عالمی دن اور مصری خاتون

0

ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی
دنیا ہر سال یعنی8مارچ کو خواتین کا عالمی دن منا تی ہے اور اس کا مقصد صنفی مساوات کو حاصل کرنا، مختلف شعبوں میں خواتین کو بااختیار بنانا، ان کے خوابوں ، ان کی تمنائوں اور آرزوئوں کو پورا کرنے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کرنا ، دنیا بھرکے معاشروں کو خواتین کے مضبوط اور بااثر حالات کی یاد دلانا، ان کی کامیابیوں کا جشن منانا، خواتین کے مسائل پر توجہ دے کر صنفی مساوات کی حمایت کرنا اور خواتین کے موثر کردار کو اجاگر کرنا ہے۔ ہم خواتین کی بہت سی کامیاب مثالیں دیکھتے ہیں، جنھوں نے تعصب اور تفریق کیدقیانوسی تصورات کو توڑاہے۔ تمام معاملات بالخصوص اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے انہوں نے جو جہد وجہد کی ہے، جو قابل تعریف ہے۔ کام کرنے کا حق، تعلیم، صحت، معاشی برابری جیسے شعبوں میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ان کا عزم اور ان کا کردار کمال کا ہے۔
مصر کی تاریخ مختلف شعبوں میں خواتین کے حیرت انگیزکار ناموں سے بھری پڑی ہے۔ عہدقدیم اور قرون وسطیٰ سے لے کر جدید دور تک ، مصرکے معاشرے میں بہت سی کامیاب خواتین کی زندگی ایک نمونہ ہے۔ بہت سی با صلاحیت مصری خواتین نے کئی شعبوں میں نمایاں اور باوقار کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ہم نے دیکھا ہے کہ جیسے ہی انہیں مواقع میسر آئے، انہوں نے اپنے پورے حو صلے اور نہ ختم ہونے والے عزم کے ساتھ اپنی موجودگی کا ثبوت دیا اور مقامی اور بین الاقوامی سطح تعلیم، صحافت، سیاست، ہوا بازی، سائنسی تحقیق وغیرہ شعبوں میں دھوم مچا دی۔
8مارچ کو عالمی یوم خواتین کے ساتھ ساتھ مصر میں ہر سال16 مارچ کو مصری خواتین کا دن منایا جاتا ہے۔اس تاریخ کا انتخاب خاص طور پر اس وجہ سے کیا گیا ہے کہ یہ مختلف تاریخی مراحل میں مصری خواتین کی زندگی میں اہم مقامات کی یاد رکھتی ہے، جن میں نوآبادیات کے خلاف ان کی بغاوت ، آزادی کے لئے ان کی جدوجہد اور ان کے دو اہم ترین سیاسی حقوق حاصل کرنے کی یاد ہے۔ یہ یوم شہادت ان شہدائوں کی تاریخ ہے جوتقریباً ۱۰۰ سال قبل انگریزوں کے قبضے کے خلاف لڑائی میں شہید ہوئیں۔ مصری یوم خواتین کی تاریخ۱۶ مارچ۱۹۱۹ء کو شروع ہوئی، جب خواتین نے جدید مصر کی تاریخ میں پہلی بار انگریزی قبضے کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کیا۔ اس کی شروعات حقوق پرست رہنما مسز ہدی شعراوی کی جانب سے انگریزوں کے قبضے کے خلاف خواتین کے مظاہرے کی دعوت سے ہوئی۔ انہوں نے خواتین کے ایک ایسے مظاہرے کی قیادت کی جسے اپنی نوعیت کا پہلا مظاہرہ سمجھا جاتا تھا۔ اس میں300 سے زائد مصری خواتین نے شرکت کی۔ مظاہروں کے دوران کچھ خواتین ’وطن کی شہید‘ہو گئیں، اور اس دن سے لڑائی مصری خواتین کے اپنے حقوق اور اپنے ملک کے حقوق کے دفاع کے پیغام کا حصہ بن گئی۔ اس مظاہرے کے ذریعہ انھوں نے پہلی مصری فیڈریشن برائے خواتین کے قیام ، خواتین کے تعلیمی معیار کو بہتر بنانے اور سماجی و سیاسی مساوات کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا۔ 16مارچ1923 کو ہدیٰ شعراوی نے مصر میں پہلی خواتین یونین کے قیام کا مطالبہ کیا، جس کا مقصد خواتین کو ان کے سیاسی اور معاشرتی حقوق حاصل کرنا اور مرد کے ساتھ مساوات حاصل کرنا تھا، نہ صرف یہ، بلکہ لڑکیوں کو یونیورسٹی تک تمام مراحل میں عوامی تعلیم حاصل کرنے اور شادی سے متعلق قوانین میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا۔انہوں نے اہل اقتدار سے مطالبہ کیا کہ وہ شادی، تعلیم اور سیاسی حقوق کے استعمال سے متعلق مصر کے قوانین کو تبدیل کرے۔16مارچ کا یہ واحد متاثر کن واقعہ نہیں تھا، جس کا مرکزی کردار مصری خاتون تھیں۔16 مارچ1928 کو پہلی لڑکیوں کا گروپ قاہرہ یونیورسٹی میں داخل ہوا۔ کئی خواتین نے تعلیم اور عوامی ملازمت کے حق کو یقینی بنانے کے لئے پیشہ ورانہ شعبوں میں کامیابی حاصل کی ہے۔ پہلی مصری خاتون نے لیسٹر آف رائٹس کی ڈگری حاصل کی اور پہلی مصری اور عرب وکیل کی حیثیت سے منیرہ کا نام۱۹۲۴ء میں مخلوط عدالتوں کے سامنے وکلاء کی فہرست میں درج کیا گیا۔ ہیلینا سیڈاروس نے طب کے میدان میں کامیابی حاصل کی اور پہلی مصری ڈاکٹر بن گئی۔خواتین نے سماجی انصاف پر اصرار کیا اور سائنسی طور پر اعلیٰ درجے حاصل کئے۔
16 مارچ1956 کو مصری خواتین پارلیمنٹ کی رکن بن گئیں۔ مصری آئین نے انہیں امیدوار بننے کی اجازت دی تھی اور انہیں پارلیمنٹ کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا حق بھی دیا تھا۔آج سو سال اور اس سے زیادہ عرصے کے بعد، مصری خواتین تمام شعبوں میں اپنی صلاحیت، قابلیت کی بنیاد پر حقیقی طور پر بااختیار بننے کا ثمر حاصل کر رہی ہیں۔ مصری خواتین اب ایسے اہم عہدوں پر فائز ہو رہی ہیں جو پہلے انھیں میسر نہیں تھے۔ آج کی مصری خواتین کامیابی کی علامت بن چکی ہیں، ان کی رسائی ججوں کے پلیٹ فارم تک ہو چکی ہے۔ خواتین کچھ دن قبل ہی عدلیہ کی اس مسند تک پہنچ گئیں، جو اب تک صرف مردوں کے لئے مخصوص تھی۔ مصرکی تاریخ میں پہلی بار۵ مارچ کو جج رضوی حلمی مسند عدالت پر بیٹھیں۔ مصرکی عورت کو اس کام آبی کا سہرہ’اومنیہ جاد اللہ‘ کے سر باندھا جاناچاہئے، جنہوں نے قانون میں گریجویشن کیا اور بعد میں قانون میں ماسٹر ڈگری بھی حاصل کی ہے۔انھوں نے The Platform is Her Right کی شروعات بھی کی اور انسانی حقوق کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے ، لڑکیوں کی حمایت کرنے اور مصری خواتین کی عدلیہ تک رسائی سے روکے جانے کے معاملوں کے حوالے سے امتیازی سلوک کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں بیداری پیدا کی۔ وہ خواتین کے اعلی منصب پر پہنچنے کی پرزور وکالت کرتی رہی ہیں۔ عدالتوں میں خاص طور پر اور معاشرے اور عمومی طور پر خواتین کی ترقی کے معاملوں پر وہ بے حد یقین رکھتی ہیں۔ انھوں نے خواتین کے پسماندہ رہنے اور ریاستی کونسل کے اندر ان کے حقوق دبائے جانے کے معاملات کو پوری طرح مسترد کیاہے۔ جب کونسل نے ایک خاتون کا بحیثیت جج تقرر کرنے سے انکار کیا تو امنیہ نے ریاستی کونسل میں بطور معاون مندوب مقرر ہونے کی اپنی اہلیت کے حوالے سے ایک مقدمہ دائر کیا۔جس میں ان کا دعوی تھا کہ تقرری اور ملازمت کی شرائط کے مطابق انھیں بھی ریاستی کونسل میں عدلیہ کے پوڈیم تک پہنچنے کا موقع ملنا چاہئے۔’جد اللہ‘ نے خواتین کی عدلیہ تک رسائی کے حق کے دفاع کے لیے اپنی مہم جاری رکھی، یہاں تک کہ صدر جمہوریہ نے فیصلہ جاری کر دیا اور اب ریاستی کونسل میں۹۸ خواتین جج اپنے ساتھی ججوں کے ساتھ بنچ پر بیٹھنے کی حقدار ہوگئی ہیں۔
مصر میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس وقت یہاں ایک خاتون وزیر سیاحت ہے۔ اب تک یہ عہدہ روایتی طور پر مردوں کے ماتحت اوران کی بالادستی میں رہا ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایک خاتون کی قیادت میں اس شعبہ نے بہت زیادہ کامیابیاں حاصل کی ہیں، انھوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ خواتین دنیا میں تبدیلی لانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔انھوں نے داخلی اور خارجی طور پر مصر کی بہترین نمائندگی کرکے یہ ثابت کر دیا کہ کوئی بھی چیز ناممکن نہیں ہے۔ انھوں نے تعصب کے سانچے کو توڑنے میں کامیابی حاصل کی اور اس عہدے پر کام کرکے۲۰۱۹ء￿ میں مصر کی تاریخ میں سیاحت سے ہونے والی آمدنی کے پرانے ریکارڈ توڑ دئے۔ان کے علاوہ بہت سی ایسی عظیم مصری خواتین ہیں، جو اپنی پیشہ ورانہ اور ذاتی کامیابیوں کے ذریعے ہر روز صنفی اور جنسی تعصبات کو توڑرہی ہیں۔ مصری سینیٹ(پارلیمنٹ) میں خواتین کی غیر معمولی موجودگی کے علاوہ سرکاری ملازمتوں میں خواتین کی شرح45فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ حکومت میں خاتون وزراء کا تناسب25فیصد تک پہنچ گیا۔ یعنی وزراء کا ایک چوتھائی حصہ خواتین پر مشتمل ہے۔ گزشتہ کئی برس کے دوران مختلف ریاستی اداروں میں خواتین نے کی نمائندگی میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے۔ خواتین نے پہلی بار قومی کونسل برائے انسانی حقوق کی صدارت حاصل کی ،ریاستی کونسل اور انتظامی پراسیکیوشن میں بھی ان کو اپنی کارکردگی دکھانے کا موقع ملا۔ مرکزی بینک کی پہلی ڈپٹی سربراہ، ڈپٹی گورنر،صدر جمہوریہ کی مشیر برائے قومی سلامتی اور اقتصادی عدالت کی پہلی خاتون صدر ہونے کا شرف بھی مصری خواتین کا حاصل ہو چکا ہے۔ یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ بعض سیاست دانوں نے خواتین کے ساتھ تفریق اور سوتیلے برتائو کے خلاف چل رہی خواتین کی تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ان کے حقوق کی بازیابی کی راہ ہموار کرنے میں مدد کی ہے۔ انھوں نے خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے کام کیا ہے اور مختلف شعبوں میں خواتین کی صلاحیتوں کا کھل کر اعتراف کیا۔
آ خر میں، میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ وہ تعصب اور تفریق جو عورت کی ترقی اور اس کے آگے بڑھنے کو مشکل بنا ئے اس کو مٹادینا چاہیے۔ چاہے یہ تعصب اور تفریق جان بوجھ کر ہو یا انجانے میں۔ تعصب و تفریق کو توڑنے کے لیے، معاشرے کو سب سے پہلے یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ یہ ناروا سلوک ہے۔ میرے خیال میں خواتین کے ساتھ اختیار کئے جانے والا تعصب ایک سماجی مسئلہ ہونے سے پہلے ایک خاندانی مسئلہ ہے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ خواتین کے خلاف تعصب سب سے پہلے کنبے اور خاندان سے شروع ہوتا ہے۔در اصل تعصب اور تفریق کا رواج بہت سے خاندانوں میں فطری معلوم پڑتاہے، کیونکہ اخلاقی اور روایتی لحاظ سے نسلوں کو یہ تعصب وراثت میں ملتا ہے۔ اس کو ہمارے بچوں، مردوں اور عورتوں کی طرف سے بڑھایا جاتا ہے۔ اسی بنیاد پر میں کہنا چاہوں گی کہ اس تعصب کو ختم کرنا صرف قانون سازی سے مکمل نہیں ہو سکتا، بلکہ اس کے لئے گھروں، دفتروں ، کارخانوں ، اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور ہمارے آس پاس کی جگہوں پر بیداری پیدا کرنا ہوگی ، تاکہ اس صنفی اور جنسی تفریق و تعصب کا خاتمہ ہو۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتاکہ عورت اور مرد مل کر ایک محفوظ اور مستحکم معاشرہ بناتے ہیں۔
اس بات سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ عورت معاشرے کا نصف حصہ ہے۔ وہی خوشی کا منبہ ہے۔ اپنے اردگرد رہنے والوں کے لیے طاقت اور توانائی کی بنیاد ہے۔ اپنے شوہر اور بچوں کے لیے نرمی اور محبت کا سر چشمہ ہے۔ وہ ماں ہے، بیوی ہے، بیٹی ہے اور بہن ہے۔ اسلام عورت کو ممتاز کرنے اور اسے اپنے خاندان میں ایک خاص مقام دینے کا خواہاں ہے۔ ایام جاہلیت میں بھی اسلام نے قبیلوں کے غیر انسانی رسم و رواج کو بدل کر لڑکیوں سے محبت کرنے کا حکم دیا، جومعاشرہ لڑکیوں کوحقارت کی نظر سے دیکھتا تھا اس کو رسول اللہ نے حکم دیا کہ عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی میری وصیت قبول کرو۔ اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے: ترجمہ’’میں تم میں سے عمل کرنے والوں کے عمل کو ضائع نہیں کروں گا ،وہ مرد ہو یا عورت۔تم آپس میں ایک ہی ہو۔‘‘ ایک جگہ اور ارشاد فرمایا گیا: ترجمہ، ’’جس نے نیک کام کیے خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ وہ مومن ہو تو ہم اس کو پاکیزہ زندگی کے ساتھ ضرور زندہ رکھیں گے اور ہم ان کو ان کے نیک کاموں کی ضرور جزا دیں گے۔‘‘ آخر میں ہراس خاتون کو میں سلام پیش کرتی ہوں، جس نے ہمیشہ اس بات کو ثابت کیا ہے کہ وہ ترقی اور تعمیر میں قوم کی ڈھال اور تلوار ہے۔
( مضمون نگار عین شمس یونیورسٹی، قاہرہ میں ایسو سی ایٹ پروفیسر ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS