عالمی یوم خواتین- ایک جائزہ

0

ایڈووکیٹ ابوبکر سباق سبحانی

خواتین کے حقوق اور برابری کے یکساں مواقع کو لے کر پوری دنیا میں8مارچ کو عالمی یوم خواتین کا انعقاد ہوتا ہے، اس دن خواتین کی سیاسی، سماجی، معاشی و ثقافتی میدان میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کی ستائش کے ساتھ ان کے حقوق کی پاسداری کی نہ صرف ترغیب دی جاتی ہے بلکہ ان کے خلاف ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کی جاتی ہے، عالمی سطح پر یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ عورت سماج میں یکساں مواقع اور مساوی حقوق کی حقدار ہے، زندگی کے مختلف مراحل پر ہونے والے تشدد کے خلاف عالمی سطح پر آواز بلند کی جاتی ہے نیز ان کے تحفظ کو لے کر بحث کی جاتی ہیں۔
یوم خواتین کی شروعات یوروپ، نیوزی لینڈ اور شمالی امریکہ میں بیسویں صدی کے شروعاتی سالوں میں اس وقت ہوتی ہے جب لیبر موومنٹ خواتین کے حقوق کو لے کر آواز اٹھاتی ہے، سب سے پہلے28فروی1909میں امریکہ کی سوشلسٹ پارٹی نے نیویارک شہر میں خواتین کے مسائل حل کرنے کے لیے ’’یوم خواتین‘‘ منایا جس کے بعد1910 میں ڈنمارک میں عالمی سوشلسٹ کانفرنس برائے خواتین کا انعقاد ہوتا ہے جس میں ہر سال مخصوص یوم خواتین منانے کی تجویز پیش کی جاتی ہے، عالمی یوم خواتین کی کوئی تاریخ مخصوص نہیں کی جاسکی لیکن اس کے بعد سال2011میں پورے یوروپ میں پہلی بار بڑے پیمانے پر خواتین کے حقوق کے لیے ریلیاں نکالی گئیں اور پروگرام کیے گئے جن میں خواتین نے ووٹ دینے کے حق کے ساتھ سرکاری دفاتر میں کام کرنے نیز روزگار کے مواقع میں جنس کی بنیاد پر ہونے والی تفریق کے خلاف احتجاج کیا اور اس طرح بڑی جدوجہد کے بعد خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جانے لگا۔ روس نے پہلی بار1913میں عالمی یوم خواتین کو تسلیم کیا، جب کہ امریکہ فروری مہینہ کے آخری اتوار کو قومی یوم خواتین کے طور پر مناتا رہا۔8مارچ1914کے دن جرمن میں پہلی بار عالمی یوم خواتین منایا گیا جس میں خواتین کو ووٹ دینے کے حق کو لے کر مہم شروع کی گئی جس کے بعد 1918میں جرمنی میں عورتوں کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہوا۔
8 مارچ1917 کے دن سوویت روس اور فروری انقلاب میں خواتین کو حاصل ہونے والی سرخ روئی کے بعد سے8مارچ کو عالمی سطح پر یوم خواتین منایا جاتا ہے، خواتین نے پہلی عالمی جنگ کے اختتام اور روٹی و امن و امان کے قیام کے مانگ کو لے کر ایک بڑی تحریک کھڑی کردی تھی، غرض شروعات میں سوشلسٹ تحریک اور کمیونسٹ ممالک میں یوم خواتین منایا جاتا تھا،1949میں چین نے جمہوری نظام حکومت کے قیام کے بعد23دسمبر1949کو یہ فیصلہ کیا کہ8مارچ کو یوم خواتین کے موقع پر چھٹی رہے گی۔ 1960کی دہائی میں حقوق نسواں کی علمبردار فیمنسٹ تحریک نے یوم خواتین میں دلچسپی دکھائی اور پھر گلوبل فیمنسٹ موومنٹ نے عالمی یوم خواتین کا جھنڈا اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ اقوام متحدہ نے1975میں عالمی یوم خواتین کو تسلیم کرتے ہوئے منانا شروع کردیا، جس کے دو سال کے بعد 1977میں اقوام متحدہ نے تمام ہی ارکان ممالک سے عالمی یوم خواتین کو تسلیم کرنے کی اپیل کی، جس کے بعدپوری دنیا کے تقریباً تمام ہی ممالک اس دن کوخواتین کی جدوجہد اور ان کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے عالمی یوم خواتین کو تسلیم کرتے ہیں، جس کے بعد تقریباً تمام ممالک میں یہ دن خواتین کے لیے بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ نے سال2000میں اپنی ملینیم سمٹ (تقریب) کے دوران جنسی مساوات اور خواتین کے امپاورمنٹ کو اپنے آٹھ ملینیم ڈیولپمنٹ مقاصد میں جگہ دی تھی، ان مقاصد کو اگلے15سالوں کے اندر یعنی2015 تک حاصل کرنا تھا، لیکن اکثر و بیشتر ممالک بشمول ہمارے ملک بھارت میں خواتین کی صورت حال افسوسناک ہے، ہمارے ملک میں خواتین بنیادی دستوری حقوق سے بھی محروم ہیں۔ ہمارے ملک میں زمانہ قدیم سے خواتین کو مردوں کے مقابل یکساں درجہ کبھی حاصل نہیں رہا ہے، مذاہب کے ساتھ ساتھ سماجی و تہذہبی بنیادوں پر بھی خواتین کے ساتھ جنس کی بنیاد پر تفریق کا سلوک ہوتا رہا ہے۔ تعلیم کا میدان ہو یا روزگار کا، خواتین کے لیے یکساں مواقع موجود نہیں تھے۔ دستور نے خواتین کو یکساں مواقع و مساوی درجہ فراہم کرنے کی غرض سے متعدد دستوری مراعات و حقوق فراہم کیے ہیں۔ پریمبل(تمہید) سے آئین کی شروعات ہوتی ہے جو یہ صاف الفاظ میں کہتا ہے کہ ’’ہم، بھارت کے عوام متانت و سنجیدگی سے عزم کرتے ہیں کہ بھارت کو ایک مقتدر سماج وادی غیر مذہبی عوامی جمہوریہ بنائیں گے اور اس کے تمام شہریوں کے لیے سماجی، معاشی اور سیاسی انصاف حاصل کریں گے، تمام ہی شہریوں کے لیے اظہار خیال، عقیدہ، دین اور عبادت کی آزادی کے ساتھ تمام شہریوں کو مساوی مواقع فراہم کئے جائیں گے۔‘‘
آئین کے ذریعے تحریر شدہ حقوق و حکومت کو دی گئی رہنمائیوں اور احکامات کی روشنی میں خواتین کے حقوق و مفادات کے تحفظ کے لیے حکومت نے متفرق قوانین و متعدد پالیسیاں اختیار کیں، مثلاً گھریلو تشدد پر روک تھام کے لیے مخصوص قانون بنایا، جہیز و ستی جیسی سماجی برائیوں کی روک تھام کے لیے خاص قانون بنائے، تعزیرات ہند(انڈین پینل کوڈ) میں خواتین کے خلاف جرائم کا الگ باب موجود ہے، ورک پلیس(کام کرنے کی جگہ) پر ہونے والے جرائم کی روک تھام کے لیے سپریم کورٹ نے وشاکھا بنام اسٹیٹ راجستھان کے تاریخی فیصلے میں رہنما اصول متعین کیے، تاہم ان تمام دستوری شقات، قوانین اور حکومتی پالیسی کے بعد خواتین کی صورت حال میں کیا تبدیلی آئی؟ اس اہم سوال پر ایک تجزیاتی مطالعہ کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
عالمی یوم خواتین اب ہر سال8مارچ کو منایا جاتا ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سماج میں خواتین کے حقوق کے تئیں سنجیدہ کوششیں بھی کی جارہی ہیں یا صرف ایک رسم ہے جس میں کسی مخصوص دن کو کسی کے نام سے مختص کرکے منالینا ہی کافی ہے، کیا خواتین کے یکساں حقوق کی عملاً ادائیگی کو یقینی بنانے کی کوئی حکمت عملی بھی تیار کی گئی ہے؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے سماج میں خواتین کو ایک ایسا ماحول دستیاب ہو جہاں ان کو تعلیم حاصل کرنے کے یکساں مواقع فراہم ہوں، ایک ایسا سماج جہاں عورت کو جہیز کے لیے ظلم و ستم کا شکار نہ بنایا جائے، اگر عورتیں کارخانوں اور دفاتر میں کام کریں تو ان کو بھی یکساں کام کے لیے یکساں اجرت دی جائے، ہمارے سماج میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے لڑکوں کے مقابلے میں سنجیدگی کا فقدان پایا جاتا ہے، گھریلو تشدد کا شکار ہونا ایک عام سی بات ہے، رحم مادر میں جنس کی تفتیش کرنا اور اس کو قتل کردینے کے واقعات آج بھی ہمارے سماج میں دیکھے جاتے ہیں جب کہ ان تمام سماجی برائیوں کی روک تھام کے لیے سخت قانون بھی موجود ہیں۔ ضروری ہے کہ ہم خواتین کے خلاف ہونے والے مظالم یا ان کے دستوری حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف سنجیدگی سے کوشش کریں تاکہ ایک ایسا سماج بنانے میں کامیاب ہوسکیں جس میں تمام شہریوں کے حقوق محفوظ ہوں، یہی خواب تھا ان خواتین کا جن کی جدوجہد اور قربانیوں کے بعدہی پوری دنیا کے تقریباً تمام ممالک8 مارچ کو عالمی یوم خواتین کو منانے کے لیے ایک ایک کرکے تیار ہونے پر مجبور ہوئے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS