بین الاقوامی عدالت، اسرائیل اور جنگی جرائم

0

عباس دھالیوال

گزشتہ کئی دہائیوں سے اسرائیل و فلسطین کے بیچ جو کشیدہ حالات چلے آرہے ہیں، اس بارے میں عالمی برادری بخوبی واقف ہے۔ اس کشیدہ صورتحال کی بڑی وجہ اسرائیل کی طرف سے فلسطینی علاقوں میں قبضہ جماتے ہوئے اپنی بستیاں آباد کرنا ہے۔ اس کے علاوہ آئے دن اسرائیلی افواج کی جانب سے فلسطینیوں پر جس طرح سے ظلم و تشدد ڈھائے جانے کی خبریں منظر عام پر آتی رہتی ہیں وہ بھی کسی سے اب ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کی طرف سے ہو رہی ان ظالمانہ کارروائیوں کے خلاف اکثر اوقات مختلف مواقع پر آوازیں بلند ہوتی رہتی ہیں لیکن اسرائیل کے کانوں پر کبھی جوں تک نہیں رینگتی۔
گزشتہ ماہ ’اے ایف پی‘ کی ایک رپورٹ میں عالمی فوج داری عدالت کی پراسیکیوٹر جنرل فاتوؤ بینسودا کی طرف سے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ’ پراسیکیوٹر کے دفتر نے فلسطین میں ممکنہ جنگی جرائم کی تحقیقات شروع کر دی ہیں‘5فروری کو عدالت نے کہا کہ ’ غزہ اور مغربی کنارے بشمول مشرقی یروشلم اس کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں اوران علاقوں میں ہونے والے جنگی جرائم کی تحقیقات کی جا سکتی ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل نے اس اعلان پر سخت اعتراض کیا لیکن فلسطینیوں نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا۔ اس سے قبل بینسودا نے دسمبر 2019 میں بھی کہا تھا کہ اسرائیلی فوج اور حماس جیسے مسلح فلسطینی گروہوں نے ممکنہ طور پر جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ جنگی جرائم کے یہ واقعات مغربی کنارے، مشرقی بیت المقدس اور غزہ کی پٹی میں کیے گیے ہیں۔ پراسیکیوٹر فاتوؤ بینسودا یہ بھی کہہ چکی ہیں کہ عالمی عدالت کی تحقیقات میں غزہ، مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کے اسرائیل میں ضم کیے گئے علاقوں میں 2014 کے بعد کی صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے گا۔
ان تحقیقات میں 2014 میں ہونے والی غزہ کی جنگ کو مرکزی اہمیت دی جائے گی جب کہ 2018 کے بعد احتجاج کرنے والے فلسطینیوں کی اموات کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔

فلسطینی اتھارٹی 2015بین الاقوامی فوجداری عدالت کی رکن ہے۔ وہیں اسرائیل اس عدالت کا رکن نہیں ہے۔یہاں قابل ذکر ہے کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت عالمی سطح پر وہ واحد عدالت ہے جو جنگی جرائم سے متعلق تحقیقات کر سکتی ہے۔ اس عدالت کا قیام 2002 میں عمل میں آیا تھا۔ اس کے قیام کا مقصد انسانیت کے خلاف سرزد ہونے والے ان بدترین جرائم کی تحقیقات کرنا ہے جو مقامی عدالتوں کے دائرۂ اختیار میں نہ آتے ہوں، یا ان کی استعداد نہ ہو کہ وہ ان جرائم کی تحقیقات کرا سکیں۔

فاتوؤ بینسودا کا کہنا تھا کہ 5سال کی ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ ایسے شواہد موجود ہیں کہ فریقین (اسرائیل کی فوج، غزہ پر حکمراں اسلامی گروہ حماس اور فلسطین کی دیگر مسلح تنظیموں) سے جنگی جرائم سرزد ہوئے ہیں۔یہاں قابل ذکر ہے کہ فلسطینی اتھارٹی 2015بین الاقوامی فوجداری عدالت کی رکن ہے اور اس نے عدالت کی جانب سے تحقیقات کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی نے ان تحقیقات کے التوا کی بھی مخالفت کی ہے۔غور طلب امر ہے کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت عالمی سطح پر واحد عدالت ہے جو جنگی جرائم سے متعلق تحقیقات کر سکتی ہے۔ اس عدالت کا قیام 2002 میں عمل میں آیا تھا۔ عدالت کے قیام کا مقصد انسانیت کے خلاف سرزد ہونے والے ان بدترین جرائم کی تحقیقات کرنا ہے جو مقامی عدالتوں کا دائرۂ اختیار میں نہ آتے ہوں یا ان کی استعداد نہ ہو کہ وہ ان جرائم کی تحقیقات کرا سکیں۔
ادھر حماس نے بین الاقوامی فوجداری عدالت کی تحقیقات کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اسرائیل کے خلاف اس کے حملے دفاعی نوعیت کے اقدامات ہیں۔اسرائیل کے وزیرِ اعظم نیتن یاہو پہلے ہی سے مذکورہ بین الاقوامی فوجداری عدالت کے ناقد رہے ہیں۔ اسرائیل کا سب سے اہم اتحادی ملک امریکہ بھی بین الاقوامی فوجداری عدالت کی تحقیقات پر تنقید کر چکا ہے۔
واضح رہے کہ امریکہ کے صدر جوبائیڈن نے گزشتہ ہفتے بین الاقوامی فوجداری عدالت کی پراسیکیوٹر فاتوؤ بینسودا پر ٹرمپ کے دور میں عائد پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ بین الاقوامی عدالت نے امریکی فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ امریکہ سے اشتراک کے ایک نئے دور کا آغاز ہے، جبکہ اس سے قبل سابق امریکی صدر ٹرمپ کی انتظامیہ نے فاتوؤ بینسودا پر اس وقت مالی اور ویزا پابندیاں عائد کی تھیں جب انہوں نے افغانستان میں امریکہ کی فوج کے مبینہ جنگی جرائم کی تحقیقات شروع کی تھیں۔
رائٹرز کے مطابق اگلا قدم اس بات کا تعین اور تشخیص کرنا تھا کہ اسرائیل یا فلسطینی حکام نے خود ان جرائم کی کس حد تک تحقیقات کی ہیں۔ اس ضمن میں فلسطینی اتھارٹی نے بین الاقوامی فوجداری عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم کیا تھا اور وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’ یہ دیرینہ اقدام انصاف اور احتساب کے حصول کے لیے فلسطین کی انتھک کوششوں کا ثمرہ ہے جو فلسطینی عوام کے مطالبے کا عکاس ہے۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ’فلسطینی عوام کے خلاف قابض اسرائیلی ریاست کی طرف سے کیے جانے والے مسلسل، منظم اور وسیع پیمانے پر جرائم کے ثبوت موجود ہیں۔ ادھر حماس کے ترجمان حازم قاسم نے بھی عالمی عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے فلسطینی قوم کے لیے انصاف کے حصول کی طرف اہم پیش رفت قرار دیا تھا۔عالمی عدالت کے اس اقدام کی اسرائیل نے مذمت کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا تھا۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت کے پراسیکیوٹر کے مطابق عالمی فوج داری عدالت کو فلسطین کی صورتحال اور فلسطینی اراضی میں جنگی جرائم سے متعلق کیسز کی تحقیقات شروع کر نا چاہتی ہے۔
اس تعلق سے اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو نے بین الاقوامی فوجداری عدالت کے اعلان کے بعد کہا تھا کہ’ دی ہیگ میں قائم بین الاقوامی فوجداری عدالت کا فیصلہ دشمنی پرمبنی ہے’ انہوں نے مزید کہا کہ’عالمی فوج داری عدالت نے فیصلہ کیا ہے کہ ہمارے بہادر اور اخلاقی اقدار کے پابند فوجی افسران کو عسکریت پسند قرار دے۔ یہ ایک ایسی عدالت ہے جو ہمیں اپنے دارالحکومت یروشلم میں مکان بنانے سے روکتی ہے اور مکان بنانے کو جنگی جرم قرار دیتی ہے۔’ جبکہ اسرائیلی وزیر دفاع بینی گینٹز نے کہا تھا کہ’ان کا ملک سیکڑوں اسرائیلی شہریوں کی حفاظت کے لیے کوشاں ہے، جو بین الاقوامی فوجداری عدالت کے ذریعہ ممکنہ جنگی جرائم کی تحقیقات کا نشانہ بن سکتے ہیں۔‘
واضح رہے کہ فلسطینی اتھارٹی 2015بین الاقوامی فوجداری عدالت کی رکن ہے۔ وہیں اسرائیل اس عدالت کا رکن نہیں ہے۔یہاں قابل ذکر ہے کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت عالمی سطح پر وہ واحد عدالت ہے جو جنگی جرائم سے متعلق تحقیقات کر سکتی ہے۔ اس عدالت کا قیام 2002 میں عمل میں آیا تھا۔ اس کے قیام کا مقصد انسانیت کے خلاف سرزد ہونے والے ان بدترین جرائم کی تحقیقات کرنا ہے جو مقامی عدالتوں کے دائرۂ اختیار نہ آتے ہوں، یا ان کی استعداد نہ ہو کہ وہ ان جرائم کی تحقیقات کرا سکیں۔آئی سی سی نے پچھلے مہینے 9 مارچ کو مذکورہ ضمن میں اسرائیل کی حکومت اور فلسطینی اتھارٹی کو ایک خط ارسال کیا تھا، جس میں انہیں کہا گیا تھا کہ وہ ایک ماہ کے اندر ججز کو بتائیں کہ کیا وہ اپنے تئیں ان جرائم کی تحقیقات کر رہے ہیں جن کی تحقیقات آئی سی سی کر رہا ہے یا نہیں۔
جمعرات کو ڈیڈ لائن گزرنے سے عین پہلے اسرائیل کے وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے دفتر نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ ان کی حکومت نے آئی سی سی سے تعاون نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بیان میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ اسرائیل عدالت کو ایک خط بھیجے گا جس میں اس بات کی مکمل تردید کی جائے گی، اسرائیل جنگی جرائم کا مرتکب ہوا ہے۔
خط میں یہ بھی بتایا جائے گا کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت کو اسرائیل کے خلاف کسی بھی قسم کی تحقیقات شروع کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ نیتن یاہو کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق اسرائیل بحیثیت ریاست قانون کی حکمرانی کے لیے پر عزم ہے اور امید ہے کہ بین الاقوامی عدالت اس کی خود مختاری اور اختیار میں مداخلت سے اجتناب کرے گی۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS