ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک
وزیراعظم نریندر مودی نے ’’سینٹرل وسٹا‘‘کا افتتاح کرتے وقت سب سے زیادہ زور اس بات پر دیا کہ وہ ملک کی غلامانہ ذہنیت کو ختم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جارج پنجم کی جگہ سبھاش بابو کا شاندار مجسمہ کھڑا کرنا ایک بہت ہی قابل ستائش قدم ہے اور پورے’انڈیا گیٹ‘ علاقہ کا نقشہ بدلنا بھی اپنے آپ میں ایک بڑا کام ہے۔ اس علاقہ میں بننے والی نئی عمارتوں سے سرکاری دفاتر بہتر طریقے سے چلیں گے اور نئی سڑکیں بھی لوگوں کے لیے زیادہ سہولت آمیز ہوں گی۔ نریندر مودی کو اس اصلاحات کے لیے آنے والی کئی نسلوں تک یاد رکھا جائے گا۔ لیکن راج پتھ کا نام بدل کر ’کرتویہ پتھ‘ کردینے کو ذہنی غلامی کے خلاف جنگ کہنا کس حد تک درست ہے؟ پہلی بات تو یہ کہ راج پتھ لفظ ہندی کا ہی ہے۔ دوسرا، یہ کرتویہ پتھ کے مقابلہ آسان بھی ہے۔ اگر وزیراعظم نے پہلی بار حلف لیتے ہوئے خود کو ملک کا ’پردھان سیوک‘ بتایا تھا تو اس پتھ کا نام ’سیوا پتھ‘ رکھا جاسکتا تھا۔ اس سے ایسا پیغام جاتا کہ ہندوستان میں ’راجا‘ کا راج نہیں، ’سیوک‘ کی سیوا چل رہی ہے۔وزیراعظم چاہیں تو اب بھی اس کا نام ’سیوا پتھ‘ رکھ سکتے ہیں، لیکن اس سے بھی بڑا اور بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا کچھ سڑکوں، جزیروں اور شہروں کے نام بدل دینے اور قومی ہیروز کے مجسمے کھڑے کردینے سے آپ انگریزوں کے دور سے چلی آرہی غلامانہ ذہنیت سے نجات پا سکتے ہیں؟ یہ عمل ویسا ہی ہے، جیسا کہ نوٹنکیوں میں ہوتا ہے۔ سر پر مکٹ اور ہاتھ میں دھنش بان تان کر آپ رام کی شکل تو اختیار کرلیتے ہیں لیکن پھر اسٹیج سے اترتے ہی آپ سگریٹ اور گانجہ پھونکنے لگتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ نوٹنکیاں بے معنی ہوتی ہیں۔ ان سے بھی فائدہ ہوتا ہے لیکن ہندوستان کی آزادی کے75 ویں سال کا جشن منانے والی حکومت کو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ اس کی رگ رگ میں غلامی پیوست ہے۔ ابھی بھی ہمارے لیڈر نوکرشاہوں کے نوکر ہیں۔ ملک کے سارے قوانین، ملک کی ساری اعلیٰ تعلیم و تحقیق اور ملک کا سارا انصاف کس کی زبان میں ہوتا ہے؟ کیا وہ بھارت کی زبانوں میں ہوتا ہے؟ وہ آپ کے پرانے مالک انگریز کی زبان میں ہوتا ہے۔ وزیراعظم کے نام سے چلنے والی زیادہ تر اسکیمیں، مہمات اور قومی فلاحی کاموں کے نام بھی ہمارے پرانے مالک کی زبان میں رکھے جاتے ہیں۔ کیوں کہ ہمارے لیڈروں کا کام صرف زبان چلانا ہے۔ اصل دماغ تو بیوروکریٹس کا چلتا ہے۔ ہمارے بیوروکریٹس اور دانشور میکالے اور کرزن کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں۔ جب تک اس سانچے کو توڑنے والا کوئی گاندھی، لوہیا یا دین دیال بھارت میں پیدا نہیں ہوگا، یہ غلامانہ ذہنیت ہندوستان میں دندناتی رہے گی۔
(مضمون نگار ہندوستان کی خارجہ پالیسی کونسل کے چیئرمین ہیں)
[email protected]