بین المذاہب شادی ایک سماجی مسئلہ،نہ کہ ’لو جہاد‘: خواجہ عبدالمنتقم

0

خواجہ عبدالمنتقم

ہندوستان میں گزشتہ کئی سال سے وقتاً فوقتاً لو جہاد کا شوشہ اٹھتا رہتا ہے۔ انگریزی لفظ’love‘ اور عربی لفظ ’جہاد‘ کی جو دیدہ ودانستہ طور پر تعبیر کی جارہی ہے یعنی ’لو جہاد‘ کی اصطلاح کا جو مطلب نکالا جارہا ہے، وہ اس اصطلاح کے ساتھ یقینی طور پر ایک ایسی لغوی زیادتی ہے جسے کسی بھی حالت میں معاف نہیں کیا جاسکتا۔ ’لو‘ کوئی آلۂ قتل نہیں، ’لو‘ نام ہے جنس مخالف کے فرد کے تئیں جذباتی لگاؤ کا، گہری محبت، الفت، چاہت و پیار کا، تعلق قلبی کا، کسی پر فریفتگی و ذاتی وابستگی کے احساس کا اور ایک روح ودو قالب ہونے کا نہ کہ بد نیتی کے ساتھ کسی کے ساتھ قابل اعتراض تعلقات پیدا کرنے کا، کسی کو ہراساں کرنے کا اور دھوکا دہی کا۔ دوسری جانب جہاد نام ہے اس کوشش کا یا اس جنگ کا جو بالترتیب کسی مثبت غرض کے لیے کی جائے یا لڑی جائے۔ اگر ’لو‘ میں فریق ثانی کے لیے خلوص شامل ہو اور اس خلوص کی بنا پر اس سے رشتۂ ازدواج قائم کرلیا جائے تو یہ رشتہ قابل ستائش ہے نہ کہ لائق سرزنش بشرطیکہ عاشق و محبوبہ بالغ ہوں،ان کے مذاہب اور ملک کا قانون دونوں اس کی اجازت دیتے ہوں اور اگر اس میں والدین کی، جنہوں نے انہیں پال پوس کر بڑا کیا ہے، رضامندی بھی شامل رہی تو سونے پر سہاگا۔
کچھ گمراہ عوامل نے اس مثبت اصطلاح کو ایک منفی شکل دے دی ہے، بالکل اسی طرح جس طرح تمام دنیا میں جہاد جیسی مقدس اصطلاح کو بدنام کردیا گیا ہے۔ اگرچہ بہت سے مذاہب ایک مذہب کے ماننے والے لوگوں کو دوسرے مذہب کے ماننے والے لوگوں سے تعلق رکھنے والے فرقے میں شادی کرنے کی اجازت نہیں دیتے یا کچھ شرائط کے ساتھ اجازت دیتے ہیں مگر پھر بھی تاریخ گواہ ہے کہ مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ ایک دوسرے سے شادی بیاہ رچاتے رہے ہیں۔نہ صرف ہمارے ملک کا بلکہ دنیا کی مختلف زبانوں کا ادب عشق ومحبت کی حقیقی اور کچھ قیاسی داستانوں سے بھرا پڑا ہے۔ کیا یہ گمراہ لوگ لیلا مجنوں، ہیر رانجھا، سلیم اور انارکلی، رومیو اور جولیٹ، پیرس اور ہیلینا، بینٹ اور ڈارسی جیسی داستانوں سے واقف نہیں۔ کیا یہ لوگ ہمارے بالی ووڈ میں جو بین المذاہب شادیاں ہوئی ہیں جیسے سنیل دت کی نرگس سے،شاہ رخ خاں کی گوری سے، عامر خان کی کرن راؤ سے، نواب پٹودی کی شرمیلا ٹیگور سے اور ان کے صاحبزادے سیف علی کی قرینہ کپور سے اور سب سے بڑھ کر ہمارے ملک کے سابق چیف جسٹس ایم ہدایت اللہ کی ایک ہندو خاتون سے۔اب ڈر یہ ہے کہ کہیں یہ گمراہ لوگ اس طرح کے سابقہ جوڑوںاورموجودہ زوجین کے تئیں بھی اسی طرح کا نفرت انگیز رویہ اختیار نہ کرنے لگیں۔ اگر یہی سلسلہ چلتا رہا تو ہرزبان کا ادب اور محبت کی متذکرہ بالا داستانیں، حقیقی یا قیاسی محض یاد پارینہ بن کر رہ جائیںگی اور بین المذاہب رشتۂ ازدواج میں جڑنے والے افراد کو زندہ جلانے، انہیں ہراساں کرنے اور ان کی تذلیل کرنے سے متعلق داستانیں ان کی جگہ لے لیںگی۔
کسی بھی بالغ مرد یا عورت کو نہ صرف اپنے مذہب، قانون اور انسانی حقوق سے متعلق بین الاقوامی دستاویزات کی رو سے یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کسی سے بھی شادی کرسکتا یا کرسکتی ہے مگر جب اس قسم کا واقعہ ہمارے ملک میں پیش آتا ہے اور فریقین کا تعلق دو مخصوص مذاہب سے،خاص کر اسلام اور ہندو مذہب یا کسی کمزور طبقہ سے ہوتا ہے،تو اسے فرقہ وارانہ رنگ دے دیا جاتا ہے اور وہ بھی اس شدت کے ساتھ کہ سماج میں انتشار پیدا ہوجائے۔ہمیں فرقہ واریت سے دوری اختیار کرنی ہوگی۔ اس ضمن میں اکثریت کو پہل کرنی ہو گی اور اقلیتوں کو اعتماد میں لینا ہوگااور ان کی نیک نیتی پر بھروسہ کرنا ہوگا۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ مجرمانہ فطرت والے لوگوں کو صرف اس بنیاد پر کوئی رعایت دے دی جائے کہ ان کا تعلق کسی خاص مذہب یا کسی کمزور طبقہ سے ہے۔ مجرم تو مجرم ہے اور عدالت کسی کو مذہب دیکھ کر سزا نہیں دیتی اور جو لوگ اس طرح کے مجرمین کی مجرمانہ سرگرمیوں کی حمایت کرتے ہیں یا جشن مناتے ہیں وہ بھی مہذب شہری ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ گمراہ لوگ اس طرح کے سابقہ جوڑوںاورموجودہ زوجین کے تئیں بھی اسی طرح کا نفرت انگیز رویہ اختیار کریںگے؟ حقیقی عاشق یا محبوبہ، جن کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو، ایک دوسر ے کی جان لینے، ٹکڑے ٹکڑے کرنے یا زندہ جلانے کی بات تو کیا وہ تو ایک دوسرے کو ہراساں تک نہیں کرسکتے۔ ہرمذہب اپنے ماننے والوں کو صحیح راستے پر چلنے اور اعتدال پسندی کا حکم دیتا ہے لیکن اگر کسی بھی مذہب کے ماننے والے مذہب و قانون مخالف راہ اختیار کر لیں تو اس کا کیا علاج ہے؟اگر کوئی شخص مذہبی نقطۂ نظر سے کوئی گناہ کرتا ہے توبیشتر مذاہب میں یہ بات کہی گئی ہے کہ اسے مرنے کے بعد سزا ملے گی۔اگر وہ قانونی نقطۂ نظر سے کوئی گناہ کرتا ہے تو قانون اپنا کام کرے گا۔اس کے علاوہ سماج کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ اس طرح کے لوگوں کی مذمت ضرور کرے جو بدنیتی سے یا جذبۂ انتقام یا کسی مخصوص مذہب کے تئیں بغض یا کسی سازش کے تحت اس طرح کا رشتہ قائم کرتے ہیں یا کرنے کی تبلیغ کرتے ہیں یا ترغیب دیتے ہیں۔اب ہمارے ملک میں بھی اس سلسلہ میں کچھ گرفتاریاں ہوئی ہیں اور قوانین بھی بنائے جا رہے ہیں لیکن کچھ فرقہ پرست عناصر ہمیشہ ایسے موقع کی تلاش میں رہتے ہیں جس سے انہیں فرقہ واریت کو ہوا دینے کا موقع مل جائے۔ اس کے علاوہ ایسے بھی کچھ معاملے سامنے آئے ہیں جب حکام نے بھی مکمل مستعدی سے کام نہیں لیا یا امتیازی رویہ اختیار کیا اور قانون کو بالائے طاق رکھ دیا جس پر سپریم کورٹ کو بھی کئی مرتبہ ناراضگی کا اظہار کرنا پڑا۔
ہمیں امید ہے کہ ارباب حکومت اس طرح کے حکام کی حرکتوں پر بھی نظر رکھیں گے۔اگر ایسا نہ ہوا توسماج کا شیرازہ بکھرنے کا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ہم جیسے چھوٹے موٹے قلم کار تو بحیثیت دعا گو و دعا جو اور کر بھی کیا سکتے ہیں ؟ رہی بات عشاق کی انہیں تو ہمیشہ یہ شکایت رہی ہے کہ دو دلوں کو یہ دنیا ملنے ہی نہیں دیتی۔ یہاں تک کہ ہمارے شعراء بھی اگر وہ بے چارے کہیں اندھیرے میں بھی بیٹھے ہوں تو اس صورت حال کو بھی اس طرح نظمیہ جامہ پہنا دیتے ہیں:
اندھیرے میں جو بیٹھے ہیں نظر ان پر بھی کچھ ڈالو
شعراء کی یہ سوچ اپنی نوعیت کے اعتبار سے تعمیری ہے۔ ان پر (عشاق پر) نظر رکھنی ضروری ہے تا کہ وہ لکشمن ریکھا پار نہ کریں اور ماحول میں کسی طرح کا انتشار نہ پیدا ہو۔یاد رہے کہ طنزیہ ومزاحیہ کلام عام طور پر تفریح طبع کے لیے ہوتا ہے لیکن اس کے ذریعہ متعلقین کو عصری مسائل سے بھی گوش گزار کرایا جا سکتا ہے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS