ایک طرف تہواروں پرتشددکے بڑھتے واقعات ملک میں امن و امان کی فضاکو درہم برہم کرکے مسلمانوں میں خوف و ہراس پیدا کررہے ہیں تودوسری طرف حکومتیں تشدد کے واقعات سے نمٹنے کے بجائے ایک دوسرے پر سب و شتم کررہی ہیں۔ سب سے خطرناک صورتحال ان دنوں مغربی بنگال کی ہے۔ رام نومی کے موقع پر ریاست کے کئی مقامات پر تشدد کے بھیانک واقعات پیش آئے۔ ممتاحکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ تشدد اورتصادم بجرنگ دل کے کارکن کررہے ہیں جب کہ بی جے پی کاکہنا ہے کہ ترنمول کانگریس اپنی حالیہ ہار سے پریشان ہے اور ہندو-مسلم تصادم کو ہوا د ے کر مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس پیداکرکے اپنا ووٹ بینک محفوظ کررہی ہے۔
حقیقی صورتحال یہ ہے کہ ان پرتشدد واقعات میں عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔ ہاوڑہ کے مسلم اکثریتی علاقہ شیب پور میں رام نومی کی شوبھایاترا مسلمانوں کیلئے عذاب جان بن گئی۔اس یاترا میں شامل شرپسندوں نے مسلم بستی میں داخل ہوکردکانوں میںلوٹ مار کی، کئی ایک کو آگ لگادی گئی۔ ہگلی ضلع کے رشڑا میںرام نومی ختم ہونے کے بعد پانچویں دن افطار سے عین قبل شوبھا یاترا نکالی گئی اور اس یاترا میں شامل شرپسندوں نے جی ٹی روڈ پر واقع مسجد پر سنگ باری کی، امام مسجد تک کو زخمی کرڈالا، دکانوں میں لوٹ مار کی گئی اور آتشزنی کے واقعات پیش آئے حتیٰ کہ ریلوے اسٹیشن سے گزرنے والی گاڑیوں پر بھی سنگ باری کی گئی۔تین اضلاع میں 30 مارچ کو پھوٹ پڑنے والا تشدد 4اپریل کی صبح تک جاری رہا۔ حالات اتنے سنگین ہوگئے کہ گورنر تک کو میدان میں اترنا پڑا۔ مرکزی وزارت داخلہ کے ساتھ ساتھ کلکتہ ہائی کورٹ کو بھی مداخلت کرنی پڑی اور دونوں نے ہی حکومت سے رپورٹ طلب کی۔ کلکتہ ہائی کورٹ کی ڈویژن بنچ نے تو اس معاملے میں حکومت کو ہدف تنقید بھی بنایا ہے۔ ریاستی پولیس کے انٹلیجنس ونگ کی کارکردگی پر بھی عدالت نے سوال اٹھائے کہ رام نومی کے جلوسوں پر ممکنہ تشدد کے بارے میں اسے کوئی پیشگی اطلاع کیوں نہیں تھی۔
ایک دہائی قبل تک مغربی بنگال ہندوستان کی پرامن ریاستوںمیں سر فہرست تھالیکن2011کے بعد سے یہاں کا ماحول تیزی سے بگڑنا شروع ہوا، اب تک ایک درجن سے زیادہ بڑے فسادات ہوچکے ہیںجب کہ تشدد کے واقعات کا کوئی شمار ہی نہیں ہے۔ تشدد کے یہ واقعات ممتاحکومت کی صریحاً ناکامی ہیں لیکن اپنی ناکامی کا اقرار کرنے کے بجائے حکومت شرپسندوں اور دوسری سیاسی جماعتوں پر تبرہ بھیجنے کا کام کررہی ہے۔اب کل 6اپریل کو ہنومان جینتی کے موقع پر بھی تشدد اور تصادم کے خدشات ظاہر کیے گئے ہیں۔ کلکتہ ہائی کورٹ نے حکومت کو ہدایت دی ہے کہ وہ مرکزی مسلح افواج کو تعینات کرے تاکہ رام نومی کے جلوسوں کے دوران ہونے والے تشدد کے اعادہ سے بچا جا سکے۔عدالت نے کہا کہ ان تمام علاقوں میں کسی بھی جلوس کی اجازت نہیں دی جائے گی جہاں ماضی میں تشدد کے واقعات ہوئے اور حکم امتناعی نافذ ہے۔
عدالتی احکامات اپنی جگہ، قیام امن کی مکمل ذمہ داری ریاستی حکومت کی ہے جس میں اب تک وہ ناکام رہی ہے۔ 2011سے قبل بھی مغربی بنگال میںرام نومی اور ہنومان جینتی کے موقع پر شوبھا یاترائیں نکلتی رہی ہیں۔ کئی بار ایسا بھی ہوا ہے کہ نوراتری اور رمضان ایک ساتھ آگئے، ایسے میں افہام و تفہیم کا مظاہرہ کرتے ہوئے تقریبات کا انعقاد اس طرح کیا جاتا رہا ہے کہ کوئی کسی کیلئے رکاوٹ پیدا نہ کرسکے۔ہر ریاست میں کم و بیش یہی قاعدہ اختیار کیاجاتا ہے کہ مقامی انتظامیہ مذہبی جلوسوں کی اجازت دینے سے قبل جلوس کا روٹ طے کرتی ہے، جلوس میں شریک ہونے والوں کی تعداد کا اندازہ لگاتی ہے۔ تمام امکانات پر غور کرنے کے بعد ہی جلوس کو آگے بڑھنے کی اجازت دی جاتی ہے۔یہ بھی طے کیاجاتا ہے کہ جلوس اور یاترامیں کس قسم کے گانے بجائے جائیں گے، کس قسم کے پٹاخے پھوڑے جائیں گے اور عقیدت مند اپنے ساتھ کیا چیزیں لے کر جائیں گے۔ لیکن مغربی بنگال کے معاملے میں ایسا لگتا ہے پولیس انتظامیہ نے یہ قاعدہ طاق پررکھ دیا۔ہاوڑہ اور ہگلی میںجلوس ان ہی مقامات سے گزرے جہاں مسجدیں اور مسلمانوں کی کثیر آبادی ہے، ایسے وقت میں جلوس نکالاگیا جب مسلمان اپنے روزہ افطار کی تیاری کررہے تھے۔ جلوس کے ساتھ پولیس والوں کا قافلہ ہونے کے بجائے چند لاٹھی بردار کانسٹبل متعین کیے گئے تھے جوسنگ باری اورآگ زنی کے وقت خود اپنی جان بچاتے ہوئے بھاگتے دیکھے گئے۔ یعنی شرپسندوں کو کھل کر کھیلنے کا پورا موقع فراہم کیاگیا اور پولیس آخر میں اس وقت پہنچی جب امن کی چڑیا اڑ چکی تھی اور مسلمانوں کے گھر بار دکانیں اجڑ چکی تھیں۔یہ اتفاق نہیں بلکہ سوچی سمجھی منظم اور منصوبہ بند سازش ہی ایسے واقعات کا سرچشمہ ہوتے ہیں۔
ممتاحکومت اپنی ناکامی کا ملبہ، اپوزیشن بی جے پی یا دوسری سیاسی جماعت پر ڈال کر بھلے ہی مطمئن ہوجائے لیکن مسلمانوں کو سوچنا چاہیے کہ 2011کے بعد سے مغربی بنگال میں تشدد کے ایسے واقعات کیوں ہورہے ہیں۔کہیں ایسا تو نہیں کہ جان بوجھ کر مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کیاجارہاہے؟
[email protected]
بنگال کے مسلمانوں میں ’عدم تحفظ ‘
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS