ہندوستان کی تاریخ جتنی پرانی ہے، دلتوں اور کمزور طبقات کے ساتھ غیرانسانی سلوک کا مقدمہ بھی اتنا ہی پرانا ہے۔ نیچے سے اوپر تک پورا ملک ذات پات کے غیرا نسانی نظام میں جکڑا ہوا ہے۔ نفرت، عداوت، اونچ نیچ کے قبیح احساس کا مشاہدہ ہر قدم پر آج بھی کیاجاسکتا ہے۔بعض معاملات میںتو یہ احساس دور جدید میں مضبوط تر ہوتا جارہا ہے۔ ہندوستان کے جمہوری نظام میں تمام ذاتوں کو مساوی قانونی حیثیت بھی ایک وہم سے زیادہ کوئی حقیقت نہیںرکھتی ہے۔ ہندوستانی معاشرہ کی نچلی ذاتیں زندگی کی بنیادی ضروریات کی تکمیل حتیٰ کہ پانی اور کھانے کی دستیابی تک میں ہر طرح سے محروم، ذلیل اور حقیر ہیں۔آزادی کے اس امرت کال میں جب وزیر اعظم اپنے من کی بات کرتے ہوئے ہندوستان کے استحکام، خوشحالی، ترقی اور تیز رفتار معاشی بحالی کا مژدہ سنارہے تھے، اسی وقت تمل ناڈو میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس سے پوری انسانیت شرمسار ہوگئی۔
کسی شخص یا طبقہ کی دلتوں اور نچلی ذاتوں سے نفرت اس حد تک بڑھ جائے گی وہ جوش انتقام میں ان کے پینے کے پانی میں ’ پائخانہ ‘ ملادے، اسے سوچنا بھی محال ہے۔’امرت کال‘ سے کسب فیض کررہے ہندوستان جنت نشان کی جنوبی ریاست تمل ناڈو کے پڈوکوٹائی ضلع کے وینگی ویال گاؤں میں ذات پات کی بنیاد پر نفرت کا ایسا مکروہ واقعہ پیش آیا ہے جس نے عالمی پیشوائی کا دعویٰ کرنے والے ہندوستان کاسر پوری دنیا میں شرم سے جھکادیاہے۔
بتایا جاتاہے کہ مذکورہ گاؤں کے بچے گزشتہ کچھ دنوں سے بیمار پڑ رہے تھے۔ ڈاکٹر نے بیماری اور اس کی وجہ معلوم کرنے کیلئے پانی کا ٹیسٹ کرنے کو کہا۔ گائوں میں جس پانی کی ٹنکی سے پانی سپلائی ہوتا تھا، اس پر چڑھ کر دیکھاگیا تو وہ سارا پانی پیلا تھا۔جانچ کے بعد معلوم ہوا کہ تقریباً 10 ہزار لیٹر کی اس پانی کی ٹنکی میں کسی نے بھاری مقدار میں انسانی بول و برازڈال دیاجس سے پانی آلودہ اور نقصان دہ ہوگیا ہے۔یہ غیر انسانی فعل صرف اس لیے ہوا کہ پورا وینگی ویال گاؤںدلت مخالفت کی مذموم ذہنیت کا شکارہے۔ جس گاؤں میں دلتوں کے پانی پینے کیلئے بھی سازش رچی گئی، وہیں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ گائوں میں ہر جگہ ذات پات کی تفریق ہے۔ حتیٰ کہ گاؤں میں چائے کی دکانوں پربھی دلتوں کیلئے الگ گلاس رکھے گئے ہیں۔ اس گائوں کے دلتوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہیں تین نسلوں سے مندر کے اندر جانے کی اجازت نہیں ہے۔گائوں والے پانی کی ٹنکی میں انسانی بول و براز ڈالے جانے کی شکایت لے کر ضلع مجسٹریٹ اور پولیس سپرنٹنڈنٹ کے دفتر پہنچے تو وہاں انہوں نے ان کے ساتھ ہورہے تمام غیر انسانی سلوک کی شکایت کی۔ چائے کی دکان کے مالک کے خلاف بھی شکایت درج کرائی گئی ہے، جہاں دلتوں کیلئے الگ گلاس رکھنے کا رواج ہے۔ان شکایتوںکے بعد ضلع مجسٹریٹ نے دلتوں کو مندر میں داخل ہونے کی اجازت دینے کی پہل کی۔ دلتوں سے کہا کہ مندر کے دروازے سب کیلئے کھلے ہونے چاہئیںاور ہر کسی کو ’درشن‘ کی اجازت ہونی چاہیے۔ مندر میں سی سی ٹی وی کیمرے لگائے جائیں تاکہ آئندہ ایسے واقعات نہ ہوں۔اس کے بعد ضلع مجسٹریٹ، پولیس سپرنٹنڈنٹ کے ہمراہ دلتوں کو مندر کے اندر لے گئے جہاں پوجا ہورہی تھی، لیکن پورے قافلہ کو واپس لوٹنا پڑا کیوں کہ پجاری اور وہاں موجود خواتین نے اس کی شدید مخالفت کی۔ایک خاتون نے تو اپنے جسم میں دیوی کے حلول کرجانے کا دعویٰ تک کردیا اور کہا کہ نچلی ذات کے لوگ مندر میں داخل نہ ہوں۔اب ایسے میں پینے کے پانی کو آلودہ کرنے والے مجرم پکڑے جائیں گے یا نہیں، اس پر شبہات کے بادل منڈلارہے ہیں کیوں کہ ذات پات کی یہ مذموم تفریق جب قانون کو بھی اپنے قدم پیچھے ہٹانے پر مجبور کردیتی ہے تو کیسے ممکن ہے کہ پانی آلودہ کرنے والوں کی پشت پناہی اور سرپرستی نہ کرے۔
بغض و عناد، دشمنی اور ذلت و حقارت صرف تمل ناڈو ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستان میں نچلی ذاتوں کا مقدر بنے ہوئے ہیں۔ دلتوں کے خلاف مظالم اور ایذارسانی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ بھی ہورہاہے۔ این سی آربی کے اعدادو شمار کے مطابق نچلی ذاتوں سے ہونے والے غیرا نسانی سلوک اور مظالم میں اضافہ کی شرح11فیصد سالانہ ہے اور گزشتہ ایک دہائی میں ایسے کئی واقعات پیش آچکے ہیں جنہیں ضبط تحریر میں لانا بھی مشکل ہے۔جی20کی صدارت پر فخر و مباہات کا اظہار اور عالمی پیشوائی کا دعویٰ اسی وقت ہندوستان کو زیب دے گا جب وہ ذات پات کے اس مکروہ نظام کے خلاف پوری قوت کے ساتھ کارروائی کرے اور تمام شہریوں کے مساوی حقوق کو یقینی بنائے۔
[email protected]