مہنگائی پھر بے لگام

0

حکومت یہ ماننے کو تیار نہیں ہے کہ ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری نام کی کوئی چیز بھی ہے۔حکومت کو سب کچھ ہراہرا نظر آ رہا ہے۔حکمراں جماعت کے ارکان قانون سازیہ ایوان میں کھڑے ہوکر بڑی ہی ڈھٹائی کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ ہندوستان میں نہ کہیں مہنگائی ہے اور نہ کوئی بے روزگار ہے۔ اگرکھانے پینے کی ہوش ربا قیمتوں اور بڑھتی مہنگائی پر اصرارکیاجائے تو یہ کہہ کر دامن بچانے کی کوشش ہوتی ہے کہ کورونا وبا کی وجہ سے رسد اور مانگ کا توازن بگڑ گیا ہے اور ساراملبہ کورونا بحران کے سر ڈال دیاجاتاہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ ناقص پالیسی، معیشت اور معاشیات کے فطری و مسلمہ اصولوں کے برخلاف اٹھائے جانے والے اقدامات ہی اس دیوہیکل مہنگائی کا سبب بن رہے ہیں۔ حکومت نے بڑے ہی تزک و احتشام کے ساتھ معاشی اصلاحات کا آغاز کیا تھا اورجن دنوں ایک ایک کرکے قومی اثاثے سرمایہ داروں کے سپرد کیے جانے لگے ان ہی دنوں افراط زر کی شرح بھی اپناحجم بڑھاتی گئی۔ گزشتہ سال دسمبر اور رواں سال کے جنوری کے درمیان افراط زر کی شرح 5.83 فیصد سے بڑھ کر 6.38 فیصد ہو گئی ہے۔
یہ اعدادوشمار کسی حزب اختلاف نے نہیں بلکہ خود مرکزی وزارت برائے شماریات اور پروگرام نفاذکے نیشنل سیمپل سروے آفس (NASO) نے جاری کیے ہیں۔ کنزیومر پرائس انڈیکس کے اس تازہ ترین اعداد و شمار سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ملک میں مہنگائی کی شرح دسمبر میں 5.59 فیصد سے بڑھ کر جنوری میں 6.01 فیصد ہوگئی۔ افراط زر کی اس خردہ شرح کی پیمائش کنزیومر پرائس انڈیکس(سی پی آئی) کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ خردہ مہنگائی میں اضافے کے باعث اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ سال دسمبر میں خوراک کی افراط زر 4.05 فیصد تھی، اب بڑھ کر 5.43 فیصد ہو گئی ہے۔ وزارت شماریات کے اعدادوشمار کے مطابق دسمبر 2021 کے مقابلے جنوری 2022 میں اناج، انڈوں اور دودھ کی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا جس کی وجہ سے خردہ مہنگائی میں اضافہ ہوا۔
خردہ افراط زر کی یہ سطح ریزرو بینک کی تسلی بخش حد سے بھی تجاوز کر گئی ہے کیوں کہ ریزرو بینک آف انڈیا نے اس کیلئے 6 فیصد کی حد مقرر کی تھی۔نیشنل سیمپل سروے آفس نے اس کے ساتھ ہی ایک ملک میں سب سے زیادہ مہنگائی والی 10 ریاستوں کی فہرست بھی جاری کی ہے جس میں ہریانہ سب سے زیادہ مہنگائی کے ساتھ سرفہرست ہے۔اس ریاست میں مہنگائی کی شرح دیگر ریاستوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ 7.23 فیصد ہے۔ ہریانہ کے بعد مہنگائی میں مغربی بنگال دوسرے نمبر پر ہے جہاں مہنگائی 7.11 فیصد ہے۔ مہنگائی کی سب سے کم شرح والی ریاست پنجاب ہے۔ پنجاب میں مہنگائی کی شرح 4.09 فیصد ہے۔ ہماچل میں 6.72 فیصد اور اترپردیش میںمہنگائی کی شرح 6.71 فیصد بتائی گئی ہے۔
اعداد و شمار کی ان پیچیدگیوں کو سادہ زبان میں کہاجائے تو مہنگائی پھر بے لگام ہوگئی ہے اور اس کے یوں ہی بڑھتے رہنے کا اندیشہ ہے اوراس کا سیدھا اثر عام آدمی پر پڑ رہا ہے اور پڑے گا۔آج کوئی بھی معمولی سبزی 50روپے فی کلو سے کم نہیں ہے، آلو، پیاز، ٹماٹر کی قیمتیں بھی بے لگام ہیں۔خوردنی تیل کی قیمت 200روپے فی لیٹر سے زیادہ ہے۔اب یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ حکومت کو یہ مہنگائی نظر کیوں نہیں آرہی ہے، کیااس کے ہمالیائی سطح تک پہنچنے کا انتظار کررہی ہے؟ ویسے بھی حکومت اوراس کے تمام وزرا پانچ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں مصروف ہیں جہاں کے عو ام کیلئے آسمان سے تارے توڑ لانے جیسے وعدے کیے جارہے ہیں۔ ان کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہے کہ وہ عوام کی ان بنیادی صعوبتوں کا کوئی توڑ کرسکیں اور مہنگائی پر قابو پانے کی کوئی سبیل نکال سکیں۔
انتخاب لڑنا اوراس کیلئے مہم چلانا، وعدے کرنا غلط نہیں ہے لیکن حکومت کو اس کے ساتھ بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری کا ادراک کرتے ہوئے اشیائے صرف اور خورد و نوش کی چیزوں کی قیمتوں کو کنٹرو ل میں رکھنے کی بھی کوشش کرنی چاہیے۔ بہتر تو یہ ہوتا کہ حکومت اپنی معاشی پالیسی اور اصلاحی اقدامات پر نظرثانی کرتی، نجکاری کے عمل کو ختم کرتے ہوئے قومی اداروں کو مضبوط کرتی، ’ امرت کال‘اور ’آتم نربھربھارت‘کی بات کہنے کے بجائے چھوٹی اور درمیانہ درجہ کی صنعتوں کی مدد کرتی تو عوام کی جیب میں پیسہ بھی ہوتا اوران کی قوت خرید بھی بڑھتی۔ معاشی ناہمواری کم ہوسکتی تھی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اس سمت بھرپور توجہ دے اور عوام کو اس بڑھتی مہنگائی کی مار سے بچانے کی ترکیب نکالے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS