سروج کمار
آمدنی اٹھنی خرچہ روپیہ والا محاورہ اب گزرے زمانہ کی بات ہے۔ مہنگائی اور کمائی کی موجودہ حالت نیا محاورہ گڑھنے کی جانب بڑھ رہی ہے، جہاں آمدنی کی اٹھنی بھی غائب ہوسکتی ہے۔ عام آدمی کی تصویر نئے محاورے میں کیسی ہوگی، کہہ پانا مشکل ہے۔ فی الحال ڈیمانڈ نہ ہونے کے باوجود مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے اور آمدنی نہ ہونے پر بھی خرچ مجبوری بن گیا ہے۔ معیشت کا یہ کردار ایک عجیب و غریب صورت حال پیدا کررہا ہے۔ خردہ مہنگائی کی شرح جون میں مسلسل دوسرے ماہ 6فیصد سے اوپر رہی ہے۔ اس کے نیچے جانے کے فی الحال امکان نہیں ہیں، کیوں کہ ہول سیل مہنگائی کی شرح کا رُخ تیزی سے اوپر جانے والا ہی بنا ہوا ہے۔ مئی میں یہ ریکارڈ 12.94فیصد درج کیا گیا جو اپریل میں 10.49 فیصد تھی۔ سال2010کے بعد پہلی مرتبہ ہول سیل پرائس انڈیکس(ڈبلیو پی آئی) پر مبنی مہنگائی کی شرح کو دو نمبروں میں درج کیا گیا ہے۔ ہول سیل مہنگائی کی شرح کی یہ اونچائی آنے والے وقت میں خردہ مہنگائی کی شرح کو اوپر لے جائے گی۔ یعنی آگے کا وقت عام آدمی کے لیے خاص طور سے خط افلاس کے نیچے پہنچ چکے 23کروڑ لوگوں کے لیے مشکل رہنے والا ہے۔
معیشت کی زبان میں، خاص طور سے ترقی پذیر معیشت کے لیے مہنگائی کو اچھا سمجھا جاتا ہے، بشرطیکہ یہ ڈیمانڈ پر مبنی ہو۔ ڈیمانڈ میں اضافہ کا مطلب ہوتا ہے کہ لوگوں کے پاس کمائی ہے اور وہ زیادہ کھپت کررہے ہیں۔ لیکن جب کھپت کم ہوچکی ہو، مہنگائی پھر بھی بڑھ رہی ہو اور یہ حالت زیادہ وقت تک قائم رہ جائے تو ایک نہایت تکلیف دہ صورت حال پیدا ہونے لگتی ہے۔ ملک کم و بیش اسی دور سے گزررہا ہے۔ ڈیمانڈ بری طررح کم ہوئی ہے۔ فی شخص ذاتی کھپت 2020-21میں کم ہوکر 55,783روپے ہوگئی، جو 2019-20 میں 62,056روپے تھی۔گزشتہ چار برسوں میں ذاتی کھپت میں کمی آئی ہے۔ کورونا کے دور میں اس میں زیادہ کمی آئی۔ مالی برس2021-22میں بھی کھپت میں کمی برقرار رہنے کا اندازہ ہے۔
امریکن تھوٹ گروپ-پیوریسرچ سینٹر کے اندازہ کے مطابق ہندوستان میں 2ڈالر یا ڈیڑھ سو روپے سے کم کمانے والے غریبوں کی تعداد وبا کے سال کے اندر 6کروڑ سے بڑھ کر ساڑھے 12کروڑ ہوگئی۔ عظیم پریم جی یونیورسٹی کے سینٹر فار سسٹینیبل ایمپلائمنٹ(سی ایس ای) کی ریسرچ کے مطابق 12کروڑ ہندوستانی خط افلاس کے نیچے جاچکے ہیں۔ یعنی ان کی کمائی قومی کم سے کم اجرت(national minimum wage) 375روپے سے نیچے چلی گئی ہے۔ سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکنامی(سی ایم آئی ای) کے مطابق وبا کی دوسری لہر کے سبب ایک کروڑ لوگ بے روزگار ہوگئے اور 97 فیصد کنبوں کی کمائی کم ہوگئی ہے۔ جون میں بے روزگاری کی شرح میں حالاں کہ بہتری آئی، پھر بھی یہ 9.17فیصد درج کی گئی۔ مئی میں یہ11.90فیصد ہوگئی تھی۔ کمائی کم ہونے اور بے روزگاری میں اضافہ کے بعد بھی ذاتی کھپت کا جو پیمانہ ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ جینے کے لیے اپنی بچت کو خرچ کررہے ہیں۔ لیکن یہ خرچ لمبے عرصہ تک قائم نہیں رہنے والا۔ اگر یہ صورت حال آگے بھی قائم رہی تو ڈیمانڈ میں مزید کمی آئے گی۔
مہنگائی کم کرنے کے لیے تیل کی قیمتیں ہر حال میں کم کرنی ہوں گی۔ حکومت ایکسائز ڈیوٹی کے اس حصہ کو آسانی سے واپس لے سکتی ہے، جسے کورونا کے دور کے دوران بڑھایا گیا تھا۔ ڈیمانڈ نہ ہونے کے سبب بین الاقوامی بازار میں کچے تیل کی قیمت میں آئی زبردست کمی کا فائدہ عام صارفین کو نہ حاصل ہو جائے، اس کے لیے حکومت نے مارچ سے مئی 2020 کے درمیان دومرتبہ میں پٹرول پر 13روپے اور ڈیژل پر 16روپے خصوصی ایکسائز ڈیوٹی لگادی تھی۔
ڈیمانڈ اور کمائی کم ہونے کے بعد بھی مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ یہ مہنگائی موسمی نہیں ہے، بلکہ تقریباً ہر سیکٹر میں ہے۔ عام آدمی کی کھپت کے سبھی سامان مہنگے ہوتے جارہے ہیں۔ مہنگائی اعدادوشمار سے آگے نکل کر تجربہ کی سطح پر پہنچ گئی ہے۔ عالمی سطح پر ضروری کھپت والی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اور مینوفیکچرنگ کوسٹ(لاگت) بڑھنے کے سبب مہنگائی کی شرح اوپر جارہی ہے۔ فیکٹری پیداوار میں مئی میں 29.3فیصد کا اضافہ درج کیا گیا ہے، لیکن مہنگائی کے دباؤ والے عنصر اپنی جگہ قائم ہیں۔ بین الاقوامی بازار میں کچے تیل کی قیمت پہلی جولائی کو 74.69ڈالر فی بیرل پہنچ گئی جو سال بھر پہلے 42.18ڈالر فی بیرل تھی۔ ملک کے کئی شہروں میں پٹرول اور ڈیژل 100روپے فی لیٹر سے اوپرچلا گیا ہے۔ تیل کی قیمتیں بڑھنے سے مینوفیکچرنگ لاک میں اضافہ ہوتا ہے اور مال کی ڈھلائی مہنگی ہوجاتی ہے۔ نتیجتاً سامان مہنگے ہوجاتے ہیں۔ گزشتہ سات ماہ میں یہ پہلا موقع ہے، جب خردہ مہنگائی کی شرح دو ماہ سے بھارتیہ ریزروبینک(آر بی آئی) کی مقررہ 6فیصد کی اوپری لِمٹ سے اوپر قائم ہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جون میں غذائی اجناس اور کھانے کی چیزوں کی مہنگائی شرح مزید بڑھ گئی اور یہ 5.15فیصد درج کی گئی۔ مئی میں یہ 5.01فیصد تھی، جب کہ اپریل میں محض1.96فیصد۔ کھانے پینے کا سامان مہنگا ہونے سے عام آدمی راست طور پر متاثر ہورہا ہے۔
حکومت نے مارچ 2026تک مہنگائی کی شرح کو دو فیصد سے 6فیصد کے درمیان قائم رکھنے کے لیے آربی آئی کو ہدایت دے رکھی ہے۔ آر بی آئی نے گزشتہ ماہ مانیٹری پالیسی کمیٹی(ایم پی سی) کی اپنی میٹنگ میں موجودہ مالی سال کے لیے 5.1فیصد مہنگائی کی شرح کا اندازہ ظاہر کیا تھا۔ لیکن حالات ہاتھ سے نکلتے نظر آرہے ہیں۔ اگر مہنگائی کی شرح میں تیزی کا یہ رُخ قائم رہا تو آربی آئی اپنے پرائم ریٹس میں اضافہ کے لیے مجبور ہوسکتا ہے۔ جب کہ وبا کے اثر سے نمٹنے کے لیے سینٹرل بینک نے مسلسل چھٹی مرتبہ اپنے Bi-monthly Monetary Policy Reviewمیں پرائم ریٹ یعنی ریپوریٹ کو چار فیصد پر قائم رکھا، تاکہ بازار میں لیکویڈیٹی قائم رہے۔ اگر آر بی آئی ریپو ریٹ میں اضافہ کرتا ہے تو لیکویڈیٹی کے حالات کشیدہ ہوجائیں گے۔ نقدی کا بحران پہلے سے ہی ہے، ایسے میں معاشی سرگرمیوں کو اضافی جھٹکا لگے گا۔ سپلائی سائڈ میں رخنہ پیدا ہوگا، نتیجتاً مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا۔ مہنگائی میں اضافہ سے حکومت کے لیے قرض لینا بھی مہنگا ہوجائے گا۔ جب کہ قرض لے کر زیادہ خرچ کرنا مہنگائی سے نمٹنے کا حکومت کے پاس ایک اہم طریقہ ہے۔
مہنگائی اپنے آپ میں وبا نہ بن جائے، اس سے پہلے اسے روکنے کے قدم اٹھانے ہی ہوں گے۔ فی الحال اس سمت میں کوئی ٹھوس پہل نظر نہیں آرہی ہے۔ مہنگائی پر کنٹرول کے موٹے طور پر دو طریقے ہیں monetary اور fiscal۔ مانیٹری طریقہ کے تحت آربی آئی بازار سے لیکویڈیٹی کھینچ کر ڈیمانڈ کم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ fiscal طریقہ میں بھی حکومت ٹیکس میں اضافہ کرکے ڈیمانڈ کم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ لیکن موجودہ صورت حالت ڈیمانڈ کم کرنے کی اجازت نہیں دیتی، کیوں کہ بازار میں ڈیمانڈ پہلے سے ہی لڑھکی ہوئی ہے۔ ہاں، حکومت ان ارب پتیوں پر خصوصی ٹیکس لگاسکتی ہے، جن کی املاک کورونا کے دور کے دوران اپریل 2020سے جولائی 2020تک 35فیصد بڑھ گئی ہے۔ اس کے علاوہ صارفین کے ضروری سامان(essential consumer goods) کی درآمدات پر ڈیوٹی کم کی جاسکتی ہے اور ایسی مصنوعات کی برآمدات پر پابندی بھی لگائی جاسکتی ہے۔
مہنگائی کم کرنے کے لیے تیل کی قیمتیں ہر حال میں کم کرنی ہوں گی۔ حکومت ایکسائز ڈیوٹی کے اس حصہ کو آسانی سے واپس لے سکتی ہے، جسے کورونا کے دور کے دوران بڑھایا گیا تھا۔ ڈیمانڈ نہ ہونے کے سبب بین الاقوامی بازار میں کچے تیل کی قیمت میں آئی زبردست کمی کا فائدہ عام صارفین کو نہ حاصل ہوجائے، اس کے لیے حکومت نے مارچ سے مئی2020کے درمیان دومرتبہ میں پٹرول پر 13روپے اور ڈیژل پر 16روپے خصوصی ایکسائز ڈیوٹی لگادی تھی۔ اس خصوصی ایکسائز ڈیوٹی کو بعد میں واپس لینے کی بات کہی گئی تھی لیکن ابھی تک ایسا ہوا نہیں ہے۔ تیل کی قیمت کم ہونے سے مہنگائی میں فوری راحت ملے گی۔ موجودہ حالات میں حکومت کو قرض لے کر زیادہ خرچ کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ لوگوں کی جیب میں پیسے جائیں گے تو وہ مہنگائی سے مقابلہ بھی کرلیں گے۔ بیشک اس سے مالیاتی خسارہ میں اضافہ ہوگا، لیکن موجودہ حالات سے نکلنے کا دوسرا راستہ بھی نہیں ہے، چار کلو مفت اناج تو بالکل بھی نہیں۔
(بشکریہ: جن ستّا)