مہنگائی وبے روزگاری ملک کی وہ کڑوی حقیقت ہے جس کا نہ اقرارکیا جاتا ہے اورنہ انکار۔دوسری بات یہ ہے کہ ان میں اب کمی بھی نہیں آتی۔ پہلے یہ سیاسی وانتخابی ایشو بنتی تھیں ،ان کے خلاف وقتا فوقتا مظاہرے ہوتے تھے، سیاسی پارٹیاں سڑکوں پر آکر احتجاج کرتی تھیں اور حکومتوں کو ان کا خمیازہ بھگتنا پڑتا تھا،لیکن اب وہ بات بھی نہیں رہی۔ سیاسی پارٹیوں کو مہنگائی وبے روزگاری سے کوئی مطلب نہیں ہے۔بس رسمی بیان جاری کرکے آگے نکل جاتی ہیں اورلوگ بھی خاموش رہتے ہیں ۔یا تو لوگوں کو ان کا عادی بنادیا گیا ہے یا وہ مجبوری سمجھ کر برداشت کررہے ہیں۔ مہنگائی وبے روزگاری میں کب اورکیسے کمی آئے گی، اس کے آثار دور دور تک نظر نہیں آرہے ہیں۔پہلے کہا جاتا تھا کہ تیل مہنگاہورہا ہے تواس سے مراد پٹرول اورڈیزل لیتے تھے جن کی قیمتیں آئے دن بڑھتی رہتی ہیں اور سنچری بناکر آگے کہاں تک جائیں گی، کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ فی الحال ملک میں پٹرول 94روپے سے 110 روپے فی لیٹر فروخت ہورہاہے توڈیزل 89روپے سے 102روپے فی لیٹر۔پٹرول اورڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ سے ٹرانسپورٹ مہنگا ہورہا ہے اور اس کا سیدھا اثر مہنگائی اورلوگوں کی جیبوں پر پڑرہا ہے۔رہی بات رسوئی گیس کی تو اس کی قیمت بھی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ خوردنی تیلوں کی قیمتوں نے پٹرول اورڈیزل کی قیمتوں کو بھی بہت پیچھے چھوڑکر نیا ریکارڈ بنایا ہے ۔اگرپٹرول کی سنچری بنی ہے اورڈیزل بنانے کو ہے توخوردنی تیل چاہے وہ سرسوں کا ہو یا ریفائن ڈبل سنچری کی راہ پر گامزن ہیں۔ کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگاکہ جو سرسوں ملک میں پیداہوتی ہے اوروہ آسانی سے کم قیمتوں میں دستیاب ہوتی تھی، اب ان کی رسائی سے دور ہورہی ہے۔رسوئی گیس ، خوردنی اشیا اورتیلوں کی مہنگائی سے باورچی خانہ کا بجٹ بگڑ رہا ہے ۔بچوں کی فیس اداکرنا اور کورونا کے دورمیں ان کی آن لائن پڑھائی کا انتظام کرنا، اتنا مشکل ہوگیا ہے کہ عام لوگوں کے لئے سرکاری اسکولوں میں مفت تعلیم دلانا بھی آسان نہیں رہا ۔ایک غریب آدمی آن لائن کلاسوں کے لئے اپنے ہر بچہ کو نیٹ کے ساتھ موبائل یا کمپیوٹرکہاں سے فراہم کرے گا ؟اسی لئے لوگ بچوں کواسکولوں سے نکال رہے ہیں ۔ اگر حالات ایسے ہی رہے تو خواندگی میں اضافہ کی جو شرح ہے ، اس میں کمی آجائے گی۔
ملک میںبے روزگاری کا حال اوربھی برا ہے ۔نوٹ بندی کے بعد مالی سال 2017-18میں ہی بے روزگاری نے 45برسوں کا ریکارڈ توڑدیا تھا، جب نیشنل سمپل سروے آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق اس کی شرح 6.1 فیصد ہو گئی تھی۔اس کے بعد کورونا اورلاک ڈائون میں بے روزگاری اور بھی بڑھی ہے،جو کسی سے مخفی نہیں ہے ۔ حالت یہ ہوگئی ہے کہ کسانوں کی طرح بے روزگار لوگ بھی خودکشی کرنے لگے ہیں۔ کچھ جعل سازوں کے چکر میں پھنس رہے ہیں۔ ابھی 2جولائی کو ممبئی پولیس کے پراپرٹی سیل نے ایک ہی کنبہ کے 4لوگوں کو دھوکہ دہی کے الزام میں گرفتار کیا تھاجنہوں نے ملازمت دلانے کے عوض 45لوگوں سے 2کروڑ 47لاکھ روپے وصول کئے تھے ۔
لوگوں پر کورونا اورلاک ڈائون کی مارویسے ہی پڑرہی ہے۔ کورونا کی 2لہراور2بارلاک ڈائون کا سامنا کرچکے ہیں اورتیسری لہر کا اندیشہ ظاہر کیا جارہاہے تاہم اس سے زیادہ پریشان کن مہنگائی اوربے روزگاری بنی ہوئی ہیں۔ مہنگائی کو ملک کی ترقی اورترقیاتی کاموں سے جوڑ کر یہ کہا جاتاہے کہ سخت فیصلے اورکڑوی گولی ملک وقوم کے مفاد میں ہیں۔لیکن عام آدمی کو راحت کہاں سے ملے ؟وہ آگے کیسے بڑھیں؟ ان کے مسائل کیسے حل ہوں؟ یا ان کی پریشانی کب اورکیسے دورہو گی ؟ یہ کوئی نہیں بتاتا۔
[email protected]
مہنگائی اوربے روزگاری
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS