یوکرین جنگ کے بعد امریکہ نے روس پر پابندی عائد کی۔ روس بھی اس کا جواب دینا چاہتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ امریکہ کی اصل طاقت ڈالر ہے۔ اسے اگرکمزور کر دیا جائے تو امریکہ خود بخود کمزور ہو جائے گا، اس کی پابندیوں میں وہ اثر نہیں رہے گا جو ہے۔چین بھی یہی چاہتا ہے، اسی لیے چین اپنی کرنسی یوآن کو ڈالر کا متبادل بنانے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے تاکہ امریکہ کی جگہ اسے لینے میں دشواری نہ ہو۔ روس اس کا ساتھ دے رہا ہے، چین بھی روس کا یوکرین جنگ میں ساتھ دے رہا ہے۔ ہندوستان اس صورتحال سے واقف ہے۔ اس کی یہ کوشش ہے کہ روپے میں تجارت کو فروغ دے۔ اب تک روس اس سے روپیہ لیتا رہا ہے مگر روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے بیان سے ایسا لگتا ہے کہ اب روس ہندوستان سے روپیہ میں تجارت کرنا نہیں چاہتا۔ دراصل روس سے ہندوستان کے زیادہ تیل خریدنے، اس کے علاوہ ہتھیار اور کوئلہ خریدنے کی وجہ سے روس کے پاس 40 ارب ڈالر کے برابر روپیہ جمع ہوگیا ہے جبکہ روپے کو دوسری کرنسی میں بدلنے کی قیمت بڑھتی جا رہی ہے۔ اسی لیے روس روپے میں تجارت کرنے سے جھجک رہا ہے۔ اگر روپے میں تجارت کے لیے وہ تیار نہیں ہوا تو اس سے سستا تیل اور کوئلہ لینا ہندوستان کے لیے مشکل ہوجائے گا۔ اس کا اثر اس کی اقتصادیات پر پڑے گا مگر امید یہی ہے کہ کوئی بہتر حل نکل آئے گا۔
یہ بات نظر انداز نہیں کی جانی چاہیے کہ ہندوستان اور روس کے تعلقات برس چند برس میں یہاں تک نہیں پہنچے ہیں اور ہمیشہ سے اسی طرح کے تعلقات نہیں رہے ہیں۔ 1962 میں چین نے ہندوستان پر حملہ کیا تھا تو روس نے چین کے خلاف اس کا ساتھ نہیں دیا تھا، البتہ امریکہ کا جھکاؤ ہندوستان کی طرف تھا۔ بعد میں رچرڈ نکسن کے وقت میں امریکہ کی چین پالیسی بدلی، 1971 میں ہنری کسنجر نے چین کے دو خفیہ دورہ کیے اور 1972 میں امریکی صدر رچرڈ نکسن کے دورۂ چین کے لیے راہ ہموار کی۔ اس کے بعد ہندوستان سے سوویت یونین کی دلچسپی کا بڑھنا فطری تھا۔ پہلے سوویت یونین اور پھر روس نے ہندوستان کو مستحکم بنانے میں اہم رول ادا کیا۔ اس درمیان سوویت یونین کی افغان جنگ کے وقت یہ اندیشہ پیدا ہوا تھا کہ اس سے ہندوستان کے تعلقات پہلے جیسے نہیں رہ جائیں گے لیکن یہ اندیشہ غلط ثابت ہوا۔ 1991 سے دنیا تبدیل ہوئی، امریکہ کے دنیا کے واحد سپر پاور بن جانے کے بعد بدلتے حالات نے نئے تقاضوںکا احساس دلایا، اس کے مدنظر امریکہ اور ہندوستان ایک دوسرے کے زیادہ قریب آنے لگے تو یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ اس کا اثر ہند-روس تعلقات پر پڑے گا مگر دونوں ممالک اعتماد کی ایک ڈور میں بندھے ہوئے ہیں۔ بدلتے حالات کے جھونکوں سے یہ ڈور کئی بار ہلتی ضرور ہے، ٹوٹتی نہیں ہے، کیونکہ یہ ڈور کمزور نہیں ہے۔ ’کواڈ‘ میں ہندوستان کی شمولیت کے بعد روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے بیان سے ایسا لگا تھا کہ روس کو کچھ خدشہ ہے لیکن تمام دباؤ کے باوجود یوکرین جنگ میں روس کے خلاف نہ جاکر ہندوستان نے یہ اشارہ دے دیا کہ روس اس کے لیے کوئی عام ملک نہیں ہے، اس نے ہندوستان کو مضبوط بنانے میں اہم رول ادا کیا ہے اور اس موقع پر بھی ادا کیا ہے جب دوستی کی باتیں کرنے والے ملک نے اسے نظرانداز کر دیا تھا۔ اس سلسلے میں افغانستان کی مثال پیش کی جا سکتی ہے۔ ہندوستان نے اس کی تعمیر نو میں بڑا رول ادا کیا تھا۔ افغانستان کی تعمیر نو کے لیے عطیہ دینے والا اس خطے کا وہ سب سے بڑا اور دنیا کا پانچواں بڑا ملک تھا۔ اس کے باوجود امریکہ نے افغانستان سے انخلا کے لیے طالبان سے مذاکرات کیے تو ہندوستان کو اس طرح شامل نہیں کیا جیسے اسے شامل کیا جانا چاہیے تھا، البتہ روس نے اس بات کا خیال رکھا کہ اس نے افغانستان میں بہت کام کیا ہے۔ اس نے افغانستان ایشو پر اسے اسی طرح اہمیت دی جیسے اس خطے کے بڑے ملک کو اہمیت دی جانی چاہیے تھی، کیونکہ روس اپنے لیے ہندوستان کو اسی طرح اہم مانتا ہے جیسے ہندوستان اسے اپنے لیے مانتا ہے۔ اسی لیے روپے کے سلسلے میں جو ایشو ہے، امید کی جانی چاہیے کہ دونوں ملک مل کر اس کا حل نکال لیں گے۔ یوں بھی ادھر کے مہینوں میں ہندوستان کے ایک سے زیادہ ملکوں سے روپے میں تجارت کرنے کی خبرآئی ہے۔ اس سے روپے کی قدر بڑھے گی، اس لیے روپے کے سلسلے میں بھی پرامید رہنا چاہیے، ہند-روس تعلقات کے سلسلے میں بھی اور روس سے روپے میں تجارت کے سلسلے میں بھی۔
[email protected]
ہند-روس تعلقات اور روپیہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS