ہند-پاک: سوچ الگ، سیاست منفرد!

0

ان دنوں ہندوستان اور سابق ہندوستانی وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی پاکستان میں موضوع گفتگو ہیں۔ اصل میں پاک وزیراعظم عمران خان نے ہندوستان کی تعریف کی تو اپوزیشن لیڈروں اور میڈیا والوں نے اپنے اپنے انداز میں ان پر تنقید کی۔ اپوزیشن لیڈروں نے عمران کو جواب دیتے وقت اپنے سیاسی مفاد کا خیال رکھا تو صحافیوں نے اس صداقت کا خیال رکھا ہے جو انہیں رکھنا چاہیے۔ 7 اپریل، 2022 کو عمران خان نے ہندوستان کی آزاد خارجہ پالیسی کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا، ’میں آج بھارت کو سلام کرتا ہوں۔ انہوں نے ہمیشہ ایک آزاد خارجہ پالیسی پر عمل کیا ہے۔ آج بھارت کا امریکہ کے ساتھ کواڈ میں گٹھ جوڑ ہے اور روس سے تیل بھی خرید رہا ہے جبکہ پابندی لگی ہوئی ہے، کیونکہ بھارت کی پالیسی اپنے لوگوں کے لیے ہے۔‘ ان کی یہ بات اپوزیشن لیڈروں کو پسند نہیں آئی، آنی بھی نہیں تھی، انہیں سیاست کرنی ہے، سیاسی مفاد کا حصول دیکھنا ہے، خود عمران بھی ان کی جگہ ہوتے تو وہی کہتے جو انہوں نے کہا۔ میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا کہ عمران خان کو بھارت اگر اتنا ہی پسند ہے تو وہ پاکستان کو چھوڑ کر وہیں کیوں نہیں چلے جاتے، البتہ حامد میر اور دیگر صحافیوں کا موقف کچھ اور تھا۔ ان کا ماننا تھا کہ عمران کو اٹل بہاری واجپئی سے سبق لینا چاہیے جن کے پاس اکثریت ثابت کرنے کے لیے صرف ایک ووٹ کم تھا مگر وہ عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے، انہوں نے جمہوریت کا مذاق نہیں بنوایا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں جمہوریت ہے؟ اگر ہے تو یہ کیسی جمہوریت ہے جہاں گزشتہ 75 سال میں کوئی وزیراعظم مدت کار پوری نہیں کر سکا۔ پاک لیڈران کہتے کچھ ہیں، کرتے کچھ اور ہیں۔ یہی عمران چند مہینے پہلے تک بھارت کے بارے میں کیا بولتے رہے ہیں، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آج ان کی زبان بدل گئی ہے، کیونکہ حالات نے انہیں سمجھا دیا ہے کہ لیڈروں کے بڑے بول انہیں بڑا نہیں بناتے، بڑا کام انہیں بڑا بناتا ہے اور پاکستان کے لیے وہ کوئی بڑا کام کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ان کے دور میں ہندوستان اور پاکستان کے مابین دوری کم نہیں ہوئی۔ وہ اگر چاہتے تو دونوں ملکوں کے تجارتی رشتوں کو اسی نہج پر لا سکتے تھے جس نہج پر ہندوستان اور چین کے تجارتی رشتے ہیں مگر ایسا نہیں کر سکے، کیونکہ ان کی حکومت میں بھی دہشت گردی سے نجات پانے میں پاکستان ناکام رہا۔ عمران جتنی اچھی باتیں عوام کے حق میں کرتے رہے، اگر وہ باتیں نہ کرکے دہشت گردی سے پاکستان کو نجات دلانے میں کامیاب ہو جاتے تو یہ پاکستانیوں کے حق میں بھی بہتر ہوتا، پاکستان بیرونی سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنے اور ہندوستان سے رشتہ استوار کرنے میں کامیاب رہتا مگر ایسا نہیں ہوا۔
پاکستان کی تاریخ 14 اگست، 1947 سے شروع ہوتی ہے۔ اس سے پہلے کی اس کی اور ہندوستان کی تاریخ مشترک ہے، کیونکہ اس سے پہلے تک وہ ہندوستان کا ہی حصہ تھا۔ خود کے وجود میں آنے کے بعد مشترکہ تاریخ سے وہ بہت کچھ سیکھ سکتا تھا، یہ سمجھ سکتا تھا کہ اسی ملک کی ترقی پائیدار ہوتی ہے جس کا نظام انصاف پر مبنی ہو،لیڈروں کا دائرۂ اختیار طے ہو اور اس سے باہر جانا وہ اپنے سیاسی اخلاق کے خلاف سمجھتے ہوں، عدالتوں کو یہ احساس ہو کہ اگر وہ انصاف نہیں کریں گی تو لوگوں کا یقین ان پر سے اٹھے گا، میڈیا کو آزادی حاصل ہو اور خود میڈیا والوں کو یہ احساس ہو کہ ان کا کام سچ دکھانا، سچ لکھنا اور سچ بولنا ہے، ذاتی مفاد کے حصول کے لیے لیڈروں کی چاپلوسی کرنا نہیں ہے لیکن پاک لیڈروں نے نہ دوراندیشی کے ساتھ داخلہ پالیسی بنائی اور نہ ہی خارجی پالیسی۔ دوسری عالمی جنگ کے آخری دنوں میں امریکہ اور سوویت یونین کی پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے ہندوستانی لیڈروں نے یہ بات سمجھ لی تھی کہ امریکہ یا سوویت یونین میں سے کسی ایک کا انتخاب ملک کے دیرپا مفاد کے لیے ٹھیک نہیں ہوگا، اس لیے ہندوستان نے اعتدال کی پالیسی اپنائی۔ دوسری طرف پاک لیڈروں نے امریکہ کی خوشنودی میں ہی اپنی کامیابی کا راز سمجھا۔ اندرونی سطح پر ان کی پالیسی ایسی رہی کہ فوج آسانی سے اقتدار پر قابض ہو جائے اور فوجی سربراہوں نے بار بار ایسا ہی کیا۔ پاکستان کی کوئی بھی حکومت پاک فوج کے دائرۂ اثر سے نکل نہیں پائی۔ خود عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف پارٹی کے بارے میں ایسی خبریں آچکی ہیں کہ پاک فوج نے اسے جتانے کے لیے ہر ہتھکنڈے استعمال کیے تھے مگر ہندوستان کے فوجی افسران جانتے ہیں کہ فوج حکومت کے ماتحت ہے اور یہ ہندوستان کی خوش نصیبی ہے، البتہ پڑوسی ملکوں میں جو حالات بن رہے ہیں، وہ اچھے نہیں ہیں۔ ان حالات میں حکومت ہند کو مستعد رہنا ہوگا تاکہ سری لنکا یا نیپال جیسے حالات ہمارے ملک میں پیدا نہ ہوں، ہندوستان اور ہندوستانی لیڈروں کی تعریف کرنے پر دیگر ملکوں کے لوگ اسی طرح مجبور رہیں جیسے عمران خان اور پاکستان کے صحافی مجبور ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS