قمر آغا عالمی دفاعی امور کے ماہر کی حیثیت سے شہرت رکھتے ہیں۔ وہ مختلف ملکوں کے رشتوں اور بڑے عالمی گروپوں کے سربراہ اجلاسوںپر نظر رکھتے ہیں اور عالمی امور پر واضح موقف کا اظہار کرتے ہیں۔ مسلم ملکوں سے ہندوستان کی بڑھتی قربت کے بارے میں قمر آغا کا کہنا ہے کہ ’22 تا 24 اگست کو جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں ہوئے سربراہ اجلاس میں برکس سے جن 6 ملکوں کو وابستہ کیا گیا، ان میں سے مصر، ایران، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات مسلم ممالک ہیں اور ایتھوپیا میں بھی 31.3 فیصد مسلمان ہیں۔ ادھر ہندوستان کی کوششوں سے 9 تا 10 ستمبر کو دہلی میں منعقدہ سربراہ اجلاس میں جی-20 میں افریقی یونین کو شامل کر لیا گیا۔ افریقی یونین میں کئی مسلم ممالک ہیں۔ جی-20 کے سربراہ اجلاس میں ہی ہند-مشرق وسطیٰ-یوروپی اقتصادی کاریڈور کا اعلان کیا گیا اور MoU یعنی مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے گئے۔ ان باتوں سے یہی لگتا ہے کہ ہندوستان اور مسلم ممالک قریب سے قریب تر آرہے ہیں اور ایسا ہے بھی۔ دراصل ہندوستان کے پڑوس میں بھی مسلم ممالک ہیں اور مسلم ملکوں سے ہندوستان کے کافی پرانے تعلقات ہیں، البتہ دونوں کے تعلقات کی بنیاد تجارت رہی ہے، خاص کر ایران اور عرب ممالک سے ہندوستان تیل کا ایک بڑا خریدار رہا ہے۔ ہندوستان کے لوگ ان ملکوں میں کام کرنے کے لیے جاتے رہے ہیںلیکن ہندوستان کے ان ملکوں سے اسٹرٹیجک تعلقات نہیں تھے۔ پاکستان کی طرف ان کا جھکاؤ کچھ زیادہ تھا۔ جنوری 2006 میں سعودی شاہ عبداللہ نے ہندوستان سمیت 4 ملکوں کا دورہ کرکے سعودی عرب کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کا اشارہ دیا تھا۔ متحدہ عرب امارات کے شاہ نے بھی ہندوستان کا دورہ کیا۔ اب سوال یہ ہے کہ ہندوستان سے مسلم ملکوں، خاص کر عرب ملکوں کی دلچسپی بڑھنے کی کیا وجہ ہے؟‘
قمر آغا کے مطابق، ’ہندوستان سے مسلم ملکوںکی قربت بڑھنے کی وجہ مفاد ہے۔ زیادہ تر عرب ممالک امریکہ میں سرمایہ لگایا کرتے تھے لیکن 2008 کی مندی میں انہوں نے دیکھ لیا کہ وہاں سرمایہ کاری کا نتیجہ بہت اچھا نہیں آ رہا۔ دوسری طرف ہندوستان دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، یہپانچ بڑی اقتصادیات میں شامل ہے، ہندوستان عرب ممالک کے لیے امیدوں کا ملک ہے، اپنے مفاد کے مدنظر ہی وہ یہاں سرمایہ لگا رہے ہیں۔ مستحکم رشتہ قائم کرنے میں مسلم ممالک اور ہندوستان دونوں کا فائدہ ہے۔ اسی لیے جی-20 کے سربراہ اجلاس میں ہند-مشرق وسطیٰ-یوروپی اقتصادی کاریڈور کا اعلان اہم ہے۔ یہ کاریڈور ہندوستان سے یو اے ای، یو اے ای سے سعودی عرب، سعودی عرب سے اردن، اردن سے اسرائیل اور اسرئیل کے حیفا پورٹ سے یوروپ کو جوڑے گا۔ اس سے ان ملکوں کے لیے تجارت کے مواقع بڑھ جائیں گے۔ ہندوستان اور عرب ممالک کو بھی فائدہ ہوگا، البتہ اس میں فی الوقت سعودی عرب کا اسرائیل سے ظاہری تعلقات کا نہ ہونا رکاوٹ ہے لیکن اقتصادی کاریڈور سے وابستہ ہونے پر اسے اسرائیل کو قبول کرنا پڑے گا۔ہند-مشرق وسطیٰ-یوروپی اقتصادی کاریڈور بہت سوچ سمجھ کر تیار کیا گیا منصوبہ ہے۔‘
عالمی دفاعی امور کے ماہر قمر آغا کے مطابق، ’2021 کے جی-7 سربراہ اجلاس میں امریکہ نے بی 3 ڈبلیو (B3W) یعنی بلڈ بیک بیٹر ورلڈ (Build Back Better World) کا جو اعلان کیا تھا، ہند-مشرق وسطیٰ-یوروپی اقتصادی کاریڈور دراصل اس کا ایک حصہ ہے۔ اسے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ اینی شی ایٹو (Belt and Road Initiative) کے متبادل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ دراصل چین نے بیلٹ اینڈ روڈ اینی شی ایٹو کے نام پر ملکوں کو قرضوں میں الجھایا۔ کئی ممالک قرض ادا نہیں کر پائے تو چین نے ان کا پروجیکٹ لے لیا۔ اس کی مثال سری لنکا کا ہمبن ٹوٹا انٹرنیشنل پورٹ ہے۔ اسی لیے بیلٹ اینڈ روڈ اینی شی ایٹو کو چین کی ایسٹ انڈیا کمپنی سمجھا جانے لگا۔ ہند-مشرق وسطیٰ-یوروپی اقتصادی کاریڈور میں ترکی کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ وہ تھوڑا ناراض ہے۔ رہی بات ایران کے اقتصادی کاریڈور میں شامل نہ کیے جانے کی تو ہندوستان اس کے ساتھ چابہار پورٹ پر پہلے سے کام کر رہا ہے۔ انٹرنیشنل نارتھ-ساؤتھ ٹرانسپورٹ کاریڈور میں بھی ہندوستان سے ایران، آذربائیجان، روس، وسطی ایشیااور یوروپ کو پانی کے جہاز، ٹرین اور سڑک سے جوڑنے کا منصوبہ ہے، یہ فریٹ کاریڈور ہوگا۔ روس-یوکرین جنگ نے اس منصوبے کی تکمیل میں خلل ڈالا ہے لیکن حالات بدلیں گے۔ مختلف کاریڈوروں سے ہندوستان کی تجارت میں توسیع ہوگی۔ ایسی صورت میں ہندوستان اور مسلم ممالک کے بڑھتے تعلقات کو سمجھنا ناقابل فہم نہیں ہے۔‘ n
(نمائندہ روزنامہ راشٹریہ سہارا،خاورحسن سے گفتگو پر مبنی)
ہند-مسلم ممالک: تجارت کا دائرہ بڑھے گا!
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS