اروند مشرا
کسی شخص یا کمیونٹی کی زندگی کو معیاری بنانے میں ڈیجیٹل سروسز کا اہم کردار ہے۔ کورونا کے دور میں لاک ڈاؤن نے شہریوں کو مستحکم بنانے میں ڈیجیٹل سروسز کی شراکت داری کو مزید مضبوط کیا ہے۔ ڈیجیٹل سسٹم پر شہری خدمات کی دستیابی میں اضافہ ہورہا ہے۔ لیکن آمدنی، عمر، جنس، تعلیم اور جغرافیائی بنیاد پر ڈیجیٹل سروسز میں عدم توازن بھی واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ مجازی دنیا (Virtual World) کی وسعت کے ساتھ ڈیجیٹل عدم توازن ہر شخص اور ادارہ کے سامنے چیلنج کے طور پر ہے۔ آن لائن تعلیم کے موجودہ دور میں شہروں سے لے کر گاوؤں تک ایسے بچوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے جو ای-تعلیم سے صرف اس لیے محروم ہیں کیوں کہ ان کے پاس ڈیجیٹل سہولتیں نہیں ہیں۔ اسی طرح ایک بڑا تناسب ان بچوں کا بھی ہے جن کے پاس ڈیجیٹل سہولتیں ہونے کے بعد بھی اس کے استعمال کی معلومات کی شدید کمی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ یہ بحران صرف آن لائن ایجوکیشن سسٹم کے سامنے ہے۔ محنت کش مزدور اور غیرمنظم شعبہ میں سرگرم افرادی قوت کی ڈیجیٹل معیشت میں موجودگی آج بھی بہت ہی نچلی سطح پر ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ڈیجیٹل سروسز کی طاقت اسے شہری خودمختاری کا سب سے capable carrierبناتی ہے۔ ایسے میں ڈیجیٹل معیشت کے چیلنجز کا حل ڈیجیٹل برابری کے متوقع اہداف کو حاصل کرکے ہی ممکن ہے۔ خیال رہے کہ موبائل پر بات کرنے، پیغام بھیجنا ہی محض ڈیجیٹل انقلاب کی علامت نہیں ہے۔ ڈیجیٹل دنیا تکنیک پر مبنی وسائل اور خدمات کے ساتھ اس کی سمجھ سے آگے بڑھتی ہے۔ اسے مقبول الفاظ میں ڈیجیٹل خواندگی (digital literacy) بھی کہتے ہیں۔ امریکن لائبریری ایسوسی ایشن کے مطابق ڈیجیٹل خواندگی کا مطلب اطلاعاتی اور مواصلاتی تکنیک کے ذریعہ اطلاعات کی تخلیق، ترقی اور ترسیل کی اس صلاحیت سے ہے جو تکنیکی ہنرمندی و فہم پر مرکوز ہو۔ یہ شخص اور کمیونٹی کی تعلیمی،معاشی اور صحت سے متعلق ضرورتوں کے ساتھ ہی جمہوری حقوق کو مضبوطی فراہم کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی حقوق کے یونیورسل مینی فیسٹو میں اقوام متحدہ کی تنظیم نے ڈیجیٹل خواندگی کو بنیادی ضرورت قرار دیا ہے۔
آج ڈیجیٹل خواندگی کا شعبہ دو طرح کے چیلنجز سے نبردآزما ہے۔ پہلا ضروری ڈیجیٹل پروجیکٹوں اور ٹولز کا معاشرہ کے نچلے طبقہ کی پہنچ سے دور ہونا اور دوسرا، ڈیجیٹل سروسز کی ایپلی کیشنز کے تئیں بیداری کی کمی۔ مرکزی حکومت نے مانسون اجلاس کے دوران پارلیمنٹ میں بتایا کہ ملک میں انٹرنیٹ صارفین کی تعداد تقریباً 82کروڑ ہے۔ انٹرنیٹ اینڈ موبائل ایسوسی ایشن آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق اگلے دو سال سے یہ اعداد و شمار 90کروڑ کی سطح کو پار کرجائیں گے۔ اگلے پانچ برس میں دیہی ہندوستان میں شہروں کے مقابلے انٹرنیٹ صارفین کی تعداد زیادہ ہوگی۔ ایسے حالات میں ابھرتی ہوئی آبادیاتی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ایک پائیدار ڈیجیٹل ایکوسسٹم تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ماہرین کے مطابق ڈیجیٹل انڈیا کے فائدے کو معاشرہ کے نچلے طبقہ تک لے جانے کے لیے سب سے پہلے ڈیجیٹل پروجیکٹوں پر زبردست سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ اگر ہمیں دنیا کی پانچ بڑی ڈیجیٹل معیشتوں میں شمار ہونا ہے تو 35ارب ڈالر سالانہ سرمایہ کاری کرنا ہوگا۔ ڈیجیٹل معیشتوں میں ترقی یافتہ ملک امریکہ، برطانیہ، جاپان اور جرمنی جیسے ملک اپنی مجموعی گھریلو پیداوار کا ایک سے ڈیڑھ فیصد ڈیجیٹل انفرااسٹرکچر میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ ڈیجیٹل انفرااسٹرکچر میں سرمایہ کاری میں اضافہ کرکے ایک ایسا براڈبینڈ بیس تیار کرنا ہوگا جو بڑے شہروں اور دوردراز گاوؤں کے درمیان ڈیجیٹل خلیج کو بھرسکے۔
ڈیجیٹل خواندگی کے بغیر معاشرہ علم پر مبنی معیشت کے فائدہ سے تو محروم رہے گا ہی، تکنیک پر مبنی تقسیم معاشرہ میں نئے مسائل پیدا کرسکتی ہے۔ظاہر ہے، پبلک اور پرائیویٹ شراکت داری سے ہی ڈیجیٹل خواندگی کے متوقع اہداف حاصل ہوں گے۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوئے تو ڈیجیٹل انڈیا کا ایک ایسا جمہوری چہرہ دیکھنے کو ملے گا، جو کمیونٹی ڈیولپمنٹ کو کہیں زیادہ جامع اور پائیدار شکل دینے میں کارگر ہوگا۔
موجودہ دیجیٹل معیشت میں شہری-دیہی، خواندگی-ناخواندگی اور صنفی عدم مساوات کے بحران کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ہندوستان کے جغرافیائی، معاشی، آبادیاتی تنوع کو دیکھتے ہوئے ڈیجیٹل سروسز کو مقامی بولی، زبانوں اور ثقافتی ماحول میں ڈھالنا ہوگا۔ سماجی انصاف کی کوئی بھی کوشش خواتین کے بغیر ادھوری رہے گی۔ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق 12ریاستوں اور مرکز کے زیرانتظام ریاستوں کی 60فیصد خواتین نے کبھی انٹرنیٹ نہیں چلایا۔ اسی طرح یونیسیف نے اپنی ایک رپورٹ میں ڈیجیٹل خواندگی کی کوششوں میں بچوں کو جگہ نہیں دیے جانے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یونیسکو نے مجموعی ترقیاتی اہداف-4.1 (Inclusive Development Goals-4.1) میں اس بات کا خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ڈیجیٹل خواندگی میں پیچھے رہنے والی کمیونٹیز پر ترقی کے کئی پیٹرن میں پیچھے چھوٹنے کا خطرہ ہے۔
ڈیجیٹل معیشت میں مواصلاتی کمپنیوں اور بینکنگ شعبہ کا ایک بڑا کردار ہے۔ پبلک سیکٹر کے بینکوں اور مواصلاتی کمپنیوں کو چھوڑ دیں تو پرائیویٹ سیکٹر کے انٹرپرائز کی توجہ ڈیجیٹل خواندگی کی جانب معمولی ہی رہی ہے۔ سرکاری پالیسیوں میں ڈیجیٹل تعلیم خالص طور پر تکنیکی ہنرمندی کا موضوع معلوم ہوتی ہے۔ ڈیجیٹل خواندگی کا تناسب بڑھانے کے لیے معاشی تحفظ کے ساتھ تعلیم کی سطح کو اونچا اٹھانا ہوگا۔ ایک ایسا طبقہ جو بنیادی تعلیم اور معاشی تحفظ کے مینجمنٹ سے محروم ہو اس کے لیے ڈیجیٹل خواندگی کاغذی تقریب (paper event) سے بڑھ کر کیا ہوگا۔ معاشرہ کے سب سے ضرورت مند طبقہ کے لیے ڈیجیٹل انڈیا آج بھی موبائل پر بات کرنے اور اسکرین پر تصویر دیکھنے کی سہولت تک محدود ہے۔ سال 2015 میں ڈیجیٹل انڈیا پروگرام شروع ہونے کے بعد نیشنل ڈیجیٹل لٹریسی مشن اور وزیراعظم دیہی ڈیجیٹل خواندگی مہم(Prime Minister Rural Digital Literacy Campaign) شروع کی گئی۔اس میں پنچایتی سطح پر کام کرنے والی آنگن واڑی اور آشا کارکنان کو ڈیجیٹل ہنرمندی مہیا کرائی جانی ہے۔ ملک میں اب تک ایک لاکھ 57ہزار گرام پنچایتوں کو تیزرفتار(ہائی اسپیڈ) کے انٹرنیٹ کی سہولت مہیا کی گئی ہے۔ حالاں کہ حکومت نے مارچ2020تک ڈھائی لاکھ گاوؤں کو بھارت نیٹ آپٹیکل فائبر اسکیم سے منسلک کرنے کا ہدف رکھا تھا۔
جن دھن، آدھار اور موبائل پر مبنی خدمات کی ہی بات کریںتو اس کے سب سے بڑے فائدہ اٹھانے والے خط افلاس کے نیچے اور غیرمنظم شعبہ کے مزدور ہیں۔ جن دھن کے ذریعہ چالیس کروڑ سے زیادہ لوگوں کو بینک سے جوڑنے کا کام ہوا ہے، لیکن مزدوروں کا ایک بڑا حصہ بینک اکاؤنٹ اور آدھار سے منسلکہ موبائل نمبر کے ساتھ اپنی وابستگی طویل عرصہ تک قائم نہیں رکھ پاتا۔ اس کے پیچھے معاش کے بحران کے ساتھ دیگر معلومات کی کمی اہم وجوہات ہیں۔ ایسے میں ون ٹائم پاس ورڈ(اوٹی پی) پر مبنی خدمات کا فائدہ لینے میں غیرمنظم شعبہ کے مزدوروں کو سب سے زیادہ چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہاں قابل ذکر ہے کہ نقد کیش بینیفٹ ٹرانسفراور کسی اسکیم کے فائدہ اٹھانے والے کے طور پر منسلک رہنے کے لیے آدھار و بینک کھاتے سے منسلکہ موبائل نمبر کی لازمیت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ملک میں آن لائن بینکنگ کے صارفین کی تعداد ابھی بھی 15کروڑ کی سطح تک نہیں پہنچ پائی ہے۔ 140کروڑ سے زیادہ کی آبادی کے لحاظ سے یہ بہت پرکشش اعدادوشمار نہیں ہیں۔ فیس بک اور بوسٹن کنسلٹنگ گروپ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پچاس فیصد سے زیادہ صارفین نے آن لائن بینکنگ کے تئیں غیراطمینانی کا اظہار کیا ہے۔ اس میں سب سے بڑی وجہ پوشیدہ شرحیں، اعتماد کی کمی اور خدمت فراہم کرنے والوں کے ذریعہ مہیا کی جانے والی اطلاعات کی متضاد نوعیت( contradictory nature)ہے۔
ڈیجیٹل خواندگی کے بغیر معاشرہ علم پر مبنی معیشت کے فائدہ سے تو محروم رہے گا ہی، تکنیک پر مبنی تقسیم معاشرہ میں نئے مسائل پیدا کرسکتی ہے۔ظاہر ہے، پبلک اور پرائیویٹ شراکت داری سے ہی ڈیجیٹل خواندگی کے متوقع اہداف حاصل ہوں گے۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوئے تو ڈیجیٹل انڈیا کا ایک ایسا جمہوری چہرہ دیکھنے کو ملے گا، جو کمیونٹی ڈیولپمنٹ کو کہیں زیادہ جامع اور پائیدار شکل دینے میں کارگر ہوگا۔
(بشکریہ: جن ستّا)