محمد فاروق اعظمی
جمہوریت میں کسی قسم کی انفرادیت کا غلبہ نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن ہندوستان میں جمہوریت کی برہنہ سچائی یہی ہے۔
یوم آئین کے موقع پر وزیراعظم نریندر مودی نے کسی کا نام لیے بغیر ان سیاسی جماعتوں پر تنقید کی جوکسی ایک خاندان کے زیر اثر ہیں۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ سیاست میں موروثی پارٹیاں جمہوریت پر یقین رکھنے والوں کیلئے تشویش کا باعث ہیں۔ وزیراعظم نے بغیر نام لیے موروثی سیاسی جماعتوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اگر میرٹ کی بنیاد پر کسی ایک خاندان کے کئی افراد کسی پارٹی سے منسلک ہوں تو وہ موروثی ملکیت نہیں ہوجاتی ہے لیکن ایک جماعت ہے جو کئی نسلوں سے سیاست میں ہے اور وہ اس کی ملکیت ہوگئی ہے۔ موروثی سیاسی جماعتیں جمہوریت پر یقین رکھنے والوں کیلئے لمحۂ فکریہ ہیں۔ ہندوستان ایک ایسے بحران کی جانب بڑھ رہاہے جو آئین کو کمزور کرسکتا ہے۔ سیاسی جماعتیں خودا پنا جمہوری کردار کھورہی ہیں، اس سے آئین کو نقصان پہنچ رہاہے۔
وزیراعظم کے بیان کے مطابق ہندوستان میں کوئی ایسی سیاسی جماعت نہیں ہے جس پر کسی وراثت کا اثر نہ ہو۔ ہندوستان ہی نہیں بلکہ پورے برصغیر ہند و پاک میں یہی صورتحال ہے۔حتیٰ کہ مختلف نظریاتی جماعتیںبھی بالعموم اسی بحران سے گزررہی ہیں۔ یہ جماعتیں جمہوریت اور جمہوری شعور کی مخالف ہیں۔ان کا مقصد صرف اقتدار حاصل کرنا ہوتا ہے اوراس کیلئے وہ طرح طرح کے چولے میں سامنے آتی ہیں ان ہی چولوں میں ایک جمہوریت بھی ہے۔ جمہوریت کا یہ چولہ اپنے حلقہ بگوشوں کو رجھانے کیلئے پہنتی ہیں۔ ان سیاسی جماعتوں سے جمہوریت اور آئین کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ صرف بھارتیہ جنتاپارٹی ہی ایسی سیاسی جماعت ہے جو جمہوری اصولوں پر عمل کرتی ہے۔
سیاسی جماعتوں کے غیر جمہوری طرز عمل کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے سارا نزلہ بغیر نام لیے کانگریس پرا تا را ہے۔ ان کے مشاہدہ اور تجربات کی روشنی میں دیکھاجائے تو کانگریس کے ساتھ ساتھ ترنمول کانگریس،راشٹریہ جنتادل، سماج وادی پارٹی، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی، شیو سینا اور جنوبی ہندوستان کی کئی ایک سیاسی جماعتیں بھی اس سے مبرا نہیں ہیں۔ان میں بھی اکثریت پر کسی ایک خاندان یا ایک شخصیت کا غلبہ ہے۔
یہ درست ہے کہ خاندانی اور مور وثی سیاست خطرناک ہوتی ہے لیکن جہاں جمہوریت کارفرماہو اور حکو مت کیلئے عوام کی تائید لازم ٹھہرے وہاں موروثی سیاسی جماعت ہو یا کوئی اور جماعت، اسے جمہوریت کی امتحان گاہ سے گزرکر ہی اقتدار تک پہنچنا پڑتا ہے۔ جمہوریت میں عوام کو حق حاصل ہے کہ وہ جس کو چاہیں ایوان میں بھیجیں اور جسے چاہیں شکست دے کر گھر بٹھا دیں۔ یہ موروثی سیاسی جماعتیں جن کی بابت وزیراعظم نے اشارہ کیا ہے وہ جمہوریت کے امتحان سے گزر کر ہی اقتدار تک پہنچتی ہیں۔
وزیراعظم نریندر مودی اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہوئے شاید یہ فراموش کرگئے کہ کسی کی طرف ایک انگلی اٹھاتے وقت باقی تین انگلیاں خود اپنی جانب ہی اٹھتی ہیں۔لیکن پانی میں اتر کر بھی دامن تر نہ ہونے دینا وزیراعظم نریندرمودی کاہی ہنر خاص ہے۔سیاسی جماعتوں کو اپنے گریبان میں جھانکنے کا مشورہ دیتے ہوئے وہ اس حقیقت کو نظر انداز کر گئے کہ خود ان کی اپنی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کہاں کھڑی ہے۔ان کے یہاں بھی بہت سے ایسے لیڈران ہیں، جن کے خاندان کے افراد کو ان کی وجہ سے آگے بڑھنے اور منافع بخش عہدوں پر براجمان ہونے کاموقع ملا ہے۔
خود کو موروثی سیاسی جماعت کے ’ داغ‘ سے پاک قرار دینے والی بھارتیہ جنتاپارٹی غیرجمہوری طرز عمل کے معاملے میں تو دوسری تمام پارٹیوں سے کئی گز آگے نکل چکی ہے۔ جمہوریت کوجتنے سنگین خطرات اب لاحق ہیں،اس سے پہلے ان کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا تھا۔ تقسیم در تقسیم اور مذہبی منافرت کا جو عمل بی جے پی کے دورا قتدار میں شروع ہوا ہے، اس نے جمہوریت کے معنی ہی بدل کر رکھ دیے ہیں۔ عوام کے ووٹوں کے ذریعہ منتخب ہوکر جمہوری راستہ سے آنے والی یہ سیاسی جماعت بڑی حد تک فسطائی جماعت بن چکی ہے۔ جمہوریت سے فسطائیت تک کے اس سفر میںا س نے جمہوریت کو ہی اپنا ہتھیار بنا رکھا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت اورآئین کو خطرہ موروثی سیاسی جماعتوں سے نہیں بلکہ اکثریت کے غرور میں کیے جانے والے منمانے فیصلوں سے ہے۔عوام کی تائید سے اقتدار میں آکر عوام کے حقوق پر غاصبانہ ڈاکہ، عوام کے شعور و آگہی کو کچلنے سے ہے۔ اقتدار اور قوت حاصل کرنے کیلئے عوام کو کالانعام سمجھ کر انہیں ہر طرح کے شعور سے عاری اپاہچ ذہن لوگوں کے لشکر میں بدل دینے سے ہے۔سیاسی علو م کے ماہرین بھی یہی کہتے ہیں کہ جمہوریت کو خطرہ منتخب لیڈروں سے ہی ہوتا ہے جو منتخب ہونے کے بعد اس جمہوری عمل کو ناکام بنا نے کی کوشش کرتے ہیں جس نے انہیں اقتدار میں لایا۔ گزشتہ سات برسوں میں سیکڑوں ایسی مثالیں سامنے آچکی ہیں۔ نوٹ بندی، جی ایس ٹی، این آر سی، سی اے اے، لاک ڈائون، زرعی قوا نین، لیبر قوانین، بجلی قوانین میں ترمیم جیسے درجنوں فیصلے ہیں جن سے ملک کی جمہوریت کو ٹھیس پہنچی ہے اور آئین کی روح متاثر ہوئی ہے۔ یہ تمام فیصلے اور قوا نین عوام کے وسیع تر مفادات پر غور و فکر کیے بغیر صرف عددی برتری کے بے جا احساس کے تحت ’ایک پارٹی، ایک نظریہ، ایک قوم‘ کو غالب لانے کیلئے کیے گئے۔ان فیصلوں اور قوانین پر نہ تو دوسری جماعتوں کے لیڈروں سے مشاورت کی گئی اور نہ ہی متعلقین سے رائے لینے کی زحمت گوارا کی گئی۔ فیصلوں کے غلط اور مضر اثرات کے باوجود خود کو درست ثابت کرنے کیلئے طرح طرح کی دلیلیں اختراع کی گئیں۔ آئین اور جمہوریت کو نقصان پہنچا ہے اور پہنچ رہاہے۔آئین اور جمہوریت کے تحفظ کیلئے ضروری ہے کہ اکثریت اور عددی برتری کی غلط سوچ سے نکل کر آئین کے احترام کو سب سے مقدم رکھا جائے۔ ورنہ ہندوستان دھیرے دھیرے منتخب آمریت کی طرف بڑھتا چلاجائے گا۔
[email protected]