خواجہ عبدالمنتقم
یہ مانا کہ ہمارے ذرائع ابلاغ بھی کبھی سہواً، کبھی مصلحتاً، کبھی ارادی طور پر، کبھی غیر ارادی طور پر ،کبھی کسی مہم میں کسی کو فائدہ پہنچانے کی نیت سے ،کبھی کسی کی خوشنودی کے لیے پریس کی آزادی کی لکشمن ریکھا پار کر جاتے ہیں اور بعدمیں اس کی صفائی دیتے بھی نہیں تھکتے مگر پھر بھی ملکی و غیر ملکی نگراں ایجنسیوں کی نظر میں آہی جاتے ہیں لیکن ہمارے ادار ے اتنے ناتواں تو نہیں کہ انہیں پریس کی آزادی انڈیکس میں افغانستان جیسے ممالک سے بھی نچلے درجہ میں رکھا جائے۔ حیرت کی بات ہے کہ Reporters Without Borders (RSF) کے شائع کردہ پریس کی آزادی انڈیکس،2023 میں ہندوستان کو161ویں نمبر پر رکھا گیا ہے جبکہ افغانستان کو 152 ویں نمبر پر۔ ان اعداد و شمار پر محض ایک نظر طائرانہ ڈالنے سے ہی یہ بات صاف ظاہر ہوجاتی ہے کہ یہ رینکنگ کسی کی محض دماغی اختراع ہے ۔
ہمارے وزیر خارجہ جے شنکرنے ان اعداد و شمار کی بابت اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے یہ بات کہی کہ یہ رینکنگ ان کے لیے حیران کن ہے اور انہیں ایسا محسوس ہورہا ہے کہ جیسے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ہمارا پریس بالکل بے قابو ہوچکا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جس ملک کو پسند نہیں کیا جاتا اس ملک کی رینکنگ کم کر دی جاتی ہے یعنی ان اعداد و شمار کو معروضی و غیر جانبدارانہ طریقہ سے ترتیب نہیں دیا جاتا ۔اسی لیے جے شنکر نے اسے مائنڈ گیم کا نام دیا ہے۔ مائنڈ گیم سے مراد ہے کسی دوسرے کو ،خواہ وہ کوئی فرد ہو یا ادارہ، نیچا دکھانے کے لیے ایک ایسا نفسیاتی شاطرانہ رویہ، جس سے ایک فریق کو نیچا دکھایا جاسکے اور دوسرے کو برتر۔ یہ رویہ تو عام صورت حال میں بھی صحافیوں کے لیے قابل پیروی نہیں۔
ہمارے صحافی اخبارات کے مالکوں یا طبقۂ امراء، جو ہمیشہ سیاسی رہنماؤں کے قریب رہتا ہے، کے زیر اثر کبھی کبھی اپنی آزادی کا مکمل آزادانہ اظہار نہیں کر پاتے اور ان کی خوشنودی کے لیے اور کبھی کبھی تو اپنی نوکری بچانے تک کے لیے انہیں ا پنی آزادی کو مقررہ مصنوعی حدود میں قید کرنا پڑتا ہے جس کے سبب نہ صرف ان کی بدنامی ہوتی ہے بلکہ ہمارے دشمن یا ہم سے خار کھانے والے ممالک اور اداروں کو ہمیں نیچا دکھانے کا موقع مل جاتا ہے۔ اب جب گھر کا بھیدی ہی لنکا ڈھانے لگے تو کیا کیا جاسکتا ہے؟ ہمیں چاہیے کہ ہم ایسے عوامل کو اس قسم کے مواقع یعنی غذائے تنقید مہیا نہ کریں اور نہ کرائیں۔ہمارے ملک کو انسانی حقوق کے تحفظ اور فروغ سے متعلق ایجنسیا ں اور نگراں ملکی وبغیر ملکی ادارے کبھی مذہبی آزادی کی بابت ، کبھی تبدیلیٔ مذہب کے حوالے سے، کبھی دیگر تشدد آمیز حرکات کے حوالے سے، کبھی کسی حد تک ایمانداری سے اور کبھی مبالغہ آمیز رویہ اختیار کرتے ہوئے تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔
ہمارا پریس کسی بھی طرح بے قابو نہیں ہے اور اسے کسی بھی مہذب ملک کی طرح معقول قانونی حدود میں رہ کر اپنے فرائض انجام دینے کی مکمل آزادی ہے۔کبھی کبھی لغزش تو کسی سے بھی ہوسکتی ہے۔ سپریم کورٹ نے ارنب گوسوامی والے معاملے میںاپنی ا س رائے کا اظہار کیا تھا کہ آئین کی دفعہ 19(1) (الف) کے تحت کسی بھی صحافی کو اظہار رائے کی لا محدود آزادی حاصل نہیں ہے یعنی اس ضمن میںاسے حق قطعی حاصل نہیں ہے، مگر ساتھ ہی اس نے یہ بات بھی کہی تھی کہ جب تک وہ حقائق کو سامنے لاتا ہے تب تک اس دفعہ کے تحت صحافی کو جو حق حاصل ہے، اسے درجۂ برتر حاصل رہے گا اور یہی ہندوستان میں پریس کی آزادی کی بقا کا ضامن ہے۔کسی بھی ایسی طرح کی کوئی بھی رپورٹنگ جس سے آئین کی دفعہ21میں شہریوںکی شخصی آزادی کو زک پہنچنی ہو، سرکاری وعدلیہ کی کارروائی متاثر ہوتی ہو یا اس میں کوئی رخنہ پڑتا ہو نہ صرف ممنوع ہے بلکہ قرین مصلحت بھی نہیں۔ اس کے علاوہ کسی بھی رپورٹنگ سے کسی بھی بنیادی حق کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہیے چونکہ بنیادی حقوق کی قانون میں وہی حیثیت ہے جو جسمانی نظام میں شہ رگ کی۔
اگر ہمارے صحافی ہمارے ملک کے آئین ، دیگر متعلقہ قوانین اورپریس کونسل ایکٹ اوراس کے تحت وضع کیے گئے قواعد وضوابط کی ایمانداری سے پابندی کریں اور اس طرح رپورٹنگ کریں کہ اس سے سماج پر برا اثر نہ پڑے اور ملک میں عدم استحکام کی صورتحال پیدا نہ ہو اور اس کی رپورٹنگ سے قومی پیمانے پر مختلف فرقوں وگروپوں کے بیچ کوئی من مٹاؤ نہ پیدا ہو اور بین الاقوامی پیمانے پر مختلف قوموںکے بیچ نئے اختلافات نہ پیدا ہوں یا موجودہ اختلافات کو دور کرنے میں مزید رکاوٹیں نہ پیدا ہوں اور اسکینڈلوں کا غیرجانبدارانہ طور پر پردہ فاش کرتے رہیں، سیاسی شخصیتوں کی کار کردگی کا ایماندارانہ جائزہ لیتے رہیں اور کسی کی نام نہاد خوبیوں کو منظرعام پر لانے اور کسی کوعوام کے روبرو اس طرح پیش کر نے کی راہ اختیار نہ کریں کہ جیسے ایک فریق تو فرشتہ ہے اور دوسرا شیطان۔ مختصر یہ کہ جانبداری یا جاہل عارفانہ سے کام نہ لیں، سچائی و دیانت داری سے کام لیں، اشاعت سے قبل حقائق کی تصدیق کریں،قیاس آرائی، توہین آمیز تحریروں اور مقبول عام شخصیتوں کی تنقیدبے جا سے احترازکریں اورحقائق پر مبنی تبصرہ کریں، سماجی برائیوں کوفخریہ انداز میں پیش کرنے اور ان میں ملوث افراد کی مدح کرنے اور تشدد آمیز واقعات کو فخریہ انداز میں پیش کرنے سے بچیں، فرقہ وارانہ تنازعات/تصادم کو اس طرح کور نہ کریںکہ جس سے مختلف فرقوں اور طبقوں کے جذبات برانگیختہ نہ ہوں، سنسنی خیز/اشتعال انگیزسرخیوں جگہ نہ دیں، دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات پرمنفی اثر ڈالنے والی رپورٹنگ سے احتراز کریں، میڈیا ٹرائل سے بچیں، فوٹو جرنلزم کے لیے ضابطۂ کار کو دیانتداری سے روبہ عمل لائیں مثلاً کسی حادثے، سانحہ وغیرہ سے متعلق بکھری ہوئی لاشوں کی تصویریں اس طرح پیش نہ کریں کہ اس سے عوام یا مختلف فرقوں یا طبقوں کے جذبات مجروح یا برانگیختہ ہوں، کسی دہشت گردانہ یا تشدد آمیز سرگرمی کو کسی مذہب سے نہ جوڑیں، مختصر یہ کہ کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے عوام کے مابین انتشار پیدا ہو،سب سے بڑھ کر قومی مفادکو ہمیشہ مقدم رکھیںتو کسی کی کیا مجال کہ ان کی کارکردگی پر کوئی انگلی بھی اٹھا سکے ۔پھر بھی اگر بیرونی ادارے یا ملک کے بد نیت نقاد ان کے حوالے سے تنقید برائے تنقید کا راستہ اپنائیں تو ان کی مرضی ’جو چاہے ان کا حسن کرشمہ ساز کرے‘۔
اس تجزیہ کی روشنی میں یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ مذکورہ ایجنسی کی رینکنگ محض قیاسی ہے اور اس سے بغض و عناد کی بو آتی ہے اور ہمیں اپنے ملک کے بارے میں یہ قیاسی رپورٹ کہ ہمارا پریس بے قابو یا روبہ زوال ہے، کسی بھی حالت میں قابل قبول نہیں ۔
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]