ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک
اِدھر راہل گاندھی کی کیرالہ میں ’بھارت جوڑو‘ یاترا چل رہی ہے تو دوسری طرف گوا میں ’کانگریس توڑو‘کا حادثہ ہوگیا ہے۔ اس موقع پر گوا میں کانگریس کے11میں سے8 ممبران اسمبلی کا ٹوٹ کر بی جے پی میں شامل ہونا اپنے آپ میں ایک ایسا واقعہ ہے، جو پوری یاترا پر پانی پھیر دیتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بی جے پی نے اس ’دل-بدل‘ کے لیے یہ وقت اسی لیے منتخب کیا ہو۔ کوئی تعجب نہیں کہ کچھ دیگر صوبوں میں بھی بی جے پی ایسے ہی کرشمے کردکھائے۔ غلام نبی آزاد جیسے تجربہ کار لیڈروں کے کانگریس چھوڑنے کے بعد راہل کی ’پدیاترا‘ سے جو تھوڑی بہت امید پیدا ہوئی تھی، اسے گوا میں بڑا جھٹکا لگ گیا ہے۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ گوا کا یہ ’دل-بدل‘ اسی لیے کروایا گیا ہے کہ بی جے پی اس کی پدیاترا سے گھبرا گئی تھی۔ انہوں نے کہا ہے کہ یہ بی جے پی کا ’آپریشن کیچڑ‘ ہے۔ حقیقت میں یہ گوا کے کیچڑ میں بی جے پی کے کمل کا کھلنا ہی ہے۔ حالاں کہ بی جے پی کی حکومت وہاں مزے سے چل رہی تھی۔ لیکن ان آٹھ کانگریسی ایم ایل ایز کے بی جے پی میں شامل ہوجانے سے گوا کی 40سیٹوں والی اسمبلی میں اس کی 28سیٹیں ہوگئی ہیں۔ اب اسے چھوٹی موٹی مقامی پارٹیوں پر انحصار نہیں کرنا پڑے گا۔ ایسا نہیں ہے کہ اتنا زبردست دل-بدل گوا میں پہلی بار ہوا ہے۔ 2019میں بھی 10کانگریسی ایم ایل ایز بی جے پی میں شامل ہوگئے تھے۔ اسی دل-بدل کے ڈر کے مارے اس بار کانگریس نے اپنے ایم ایل ایز کو ان کے گرجا گھر، مندر اور مسجد میں لے جاکر عہد دلوایا تھا کہ وہ کانگریس میں ہی رہیں گے لیکن آپ دیکھیں کہ سیاسی مفاد کتنا زبردست ہوتاہے۔ ایک ایم ایل اے نے مندر میں جاکر بھگوان سے پوچھا کہ میں بڑی شش و پنج میں ہوں۔ میں کیا کروں؟ تو بھگوان نے اس سے کہہ دیا کہ جو تمہیں ٹھیک لگے، وہ کرو۔ ان دل بدلوؤں کے لیے پالیسی، اصول، نظریہ حتیٰ کہ بھگوان کی بھی کوئی قدر نہیں ہے، اقتدار کے حصول کے مقابلے۔ بی جے پی نے لیڈروں کی اس کمزوری کو بری طرح پکڑلیا ہے۔ اسی کی بنیاد پر اس نے اروناچل (2018)، کرناٹک(2018)، مدھیہ پردیش (2020)، گجرات(2018-19) اور مغربی بنگال میں زبردست دل-بدل کروائے۔ عام آدمی پارٹی کا بیان ہے کہ بی جے پی اس کے پنجابی ایم ایل ایز کو توڑنے کیلئے کروڑوں روپے خرچ کرنے کیلئے تیار ہے۔ گوا، ناگالینڈ، میگھالیہ وغیرہ کے عیسائی لیڈروں کو اپنے خیمہ میں لانے کیلئے بی جے پی نے نان ویجیٹیرین کھانے کی مخالفت میں بولنا بھی بند کردیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بی جے پی حکومت ہندوستان کو کانگریس مکت کراپانے میں کامیاب ہو پائے یا نہیں، وہ ہندوستانی سیاست کو اصولوں سے پاک ضرور کروا رہی ہے۔
(مضمون نگار ہندوستان کی خارجہ پالیسی کونسل کے چیئرمین ہیں)
[email protected]