محمد فاروق اعظمی
انگریزی کاایک محاورہ ہے A bull in a China Shop یعنی چائنا شاپ میں گھس آنے والا منہ زور بیل ہے، غالباًاسی کو اردوکے قالب میں ڈھال کر شتر بے مہار کہاجاتا ہے لیکن جو بلاغت انگریزی کے محاورہ میں ہے وہ اردو کے شتر بے مہار میں منتقل نہیں ہوپائی ہے۔ کیوں کہ صحرا میں دوڑ رہے شتر بے مہار کی نکیل کس کر اسے قابو میں کیاجاسکتا ہے اوراسے صراط مستقیم پر دوڑانے کی سبیل بھی نکالی جاسکتی ہے مگر چائنا شاپ میں گھس آنے والا بیل قابو کیے جانے تک تباہی و بربادی کی ایسی داستان رقم کرجاتا ہے جسے تاریخ کے صفحات سے مٹانا ممکن نہیں ہے۔ یہی صورتحال آج ہندوستان کی سیاست میں بھارتیہ جنتاپارٹی کی وجہ سے ہے۔کہنے کو بھارتیہ جنتاپارٹی ایک سیاسی جماعت ہے لیکن درحقیقت یہ چائنا شاپ میں گھس آنے والاوہ بیل ہے جو ہر سمت توڑ پھوڑ مچارہاہے۔اس نے وطن عزیز میں شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک سماجی، تہذیبی، ثقافتی، مذہبی اورجمہوری محاذ پر وہ توڑ پھوڑ مچائی ہے کہ آنے والی کئی نسلیں گزر جائیں گی مگر اس کے ملبے سمیٹے نہیں جاسکیں گے۔
بی جے پی کی غیر معمولی بات یہ بھی ہے کہ یہ صرف ایک سیاسی پارٹی نہیں ہے، یہ ہندو قوم پرست تنظیموں کے خاندان کا سیاسی اظہار ہے، جسے اجتماعی طور پر سنگھ پریوار کے نام سے جانا جاتا ہے۔سنگھ کی نظریاتی رہنما قوت راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) ہے۔ آر ایس ایس ایک رضاکارانہ خدمت کی تنظیم ہے جو ہندو راشٹر کے زیر اہتمام ہندوؤں کو متحد کرنے کی مشترکہ خواہش سے متاثر افراد پر مشتمل ہے۔ اس سیاسی جماعت کا بنیادی نظریہ ہندوستان کے ہندوؤں کے مفادات کی حفاظت کرنا ہے،اس سلسلے میں نہ وہ کسی ابہام کی شکار ہے اورنہ اسے اس کا اعلان کرتے ہوئے کسی طرح کا تردد ہوتا ہے۔یہ بھلے ہی اعلان نہیں کیاگیا ہے لیکن بی جے پی کے طور و اطوار اوراس کی فردسیاست کا ہر ورق اس بات کا شاہد ہے کہ یہ بنیادی طور پر اقلیت مخالف ہے اور مختلف مذہبی برادریو ں کے درمیان مساوی مواقع دیکھنا اسے پسند نہیں ہے۔قوم پرستی اور قومی یکجہتی کے معنی بھی اس کے یہاں مختلف ہیں۔اس کا ماننا ہے کہ ہندوستان قوموں کا گروہ نہیں ہے، یہاں تک کہ ایک ابھرتی ہوئی قوم بھی نہیں ہے، بلکہ یہ ایک لازوال ہندوقوم ہے۔ ہندوستان ہمالیہ سے کنیا کماری تک فطرت کی طرف سے ہندوئوں کو دیاگیا ملک ہے اور قوم پرستی کا مطلب ہندوتہذیب وثقافت کی حفاظت ہے جس نے ہندوستان کو متحد کررکھاہے۔ اپنے ان بنیادی نظریات کے برخلاف آئینی تحفظ کے حامل سیکولرازم اور جمہوریت اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
آزادی کے بعد انتہائی نامساعد حالات میں ہمارے سیاسی رہنمائوں نے ایک سیکولر آئین کی تشکیل کی اور ایک سیکولر قوم اور سماج کی بنیاد رکھی۔ بعد میں 1976 میں 42 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے آئین کے دیباچے میں لفظ ’سیکولر‘ شامل کیا گیا۔ سیکولر ریاست کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لوگ اپنے مذاہب کو چھوڑ دیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست تمام مذاہب کی حفاظت کرے لیکن دوسروں کی قیمت پر کسی مذہب کی حمایت نہ کرے اور نہ ہی کسی مذہب کے ساتھ امتیازی سلوک کرے۔ سیکولرازم نہ صرف ایک سماجی و سیاسی نظریہ ہے بلکہ معاشرے میں رہنے والے افراد کا ذہنی نقطہ نظرہے جس کے تحت معاشرے میں مذہبی آزادی اور رواداری پر زور دیاجاتا ہے۔ ہندوستان میں سیکولرازم کا مطلب یہ ہے کہ حکومت تمام مذہبی روایات کو یکساں طور پر قبول کرتی ہے اور ان سے مساوی فاصلہ برقرار رکھتی ہے۔مذہب کی سیاست اور فرقہ پرستی سیکولرازم کی موت سمجھی جاتی ہے۔ہمارے آئین میں بیان کردہ جمہوریت، سوشلزم اور سیکولرازم کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور وہ مل کر ایک ایسا ہندوستان بنانے کی اہلیت رکھتے ہیں جو انسان کے وقار کو فروغ دے اور اس کی شخصیت کی مکمل ترقی کرے اور جس میں دلتوں اور غریبوں کا معیار زندگی بہتر ہو۔ ملک کی زیادہ تر سیاسی جماعتیں واضح طور پر اسی سیکولرازم کی علم بردار ہیں، ان کا ماننا ہے کہ کسی ایک مذہب کو دوسرے سے زیادہ فائدہ نہیں پہنچانا چاہیے۔
لیکن 1980کی دہائی کے آخر میں جب بھارتیہ جنتا پارٹی پہلی بار ہندوستانی سیاست میں قوت اختیار کرنے لگی تھی تو اسی وقت سے اس نے سیکولرازم کے نظریہ کو کمزور کرنے اور توڑ پھوڑ مچانی شروع کردی تھی۔ بی جے پی کے رہنما لال کرشن اڈوانی نے کہا تھا کہ وہ ’مثبت سیکولرازم‘ کے حق میں ہیں۔جس کا مطلب ’سب کیلئے انصاف اور کسی کی خوشنودی نہیں‘ ہے۔ اڈوانی نے اسی کو حقیقی سیکولرازم کہا تھا اور سیکولرازم کی حقیقی مسلمہ تعریف کو وہ ’شیڈو سیکولرازم‘ قرار دینے لگے تھے۔ اس طرح ہندوستان میں شیڈوسیکولرازم کے مبینہ سیاسی کلچر کو مسلمانوں کو بدنام کرنے اور یہاں تک کہ ان کے ساتھ بدسلوکی کی راہ بھی ہموار ہوگئی ہے اورا سی حکمت عملی نے گزشتہ تین دہائیوں میں بی جے پی کو ہندوستان کی سب سے غالب سیاسی جماعت بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔اب تو بی جے پی کاکوئی بھی لیڈر خود کو سیکولرکہلانا اپنی توہین سمجھنے لگا ہے، اس کے برخلاف وہ خود کوایسا سچاہندو بناکر پیش کرتا ہے جس کے نزدیک دوسرے مذاہب کے افراد قابل گردن زنی ہیں۔ 2014میں اقتدار میں آنے کے بعد سے ’ سچا ہندو ‘ بننے کی رفتار میں ہزار گنا اضافہ ہوگیا اور آج دھیرے دھیرے ملک کی جمہوریت اور سیکولرازم اس مقام پر لا پہنچایا گیا جہاں اس کے معنی ہی دوسرے ہیں۔ آج بی جے پی کے سیکولرازم کے نظریہ میں مسلمانوں کو لنچ کرنا، مذہب کی تبدیلی کے شبہ میں مسلمان اور عیسائی علما کومارنا،گرفتار کرنا، شہریت سے متعلق امتیازی قوانین کا پاس کرنا اور بین مذہبی تشدد بھی شامل ہوگیا ہے۔ اسے مکمل سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہے۔ اب تو یہ بھی محسوس ہونے لگاہے کہ جلد ہی ’سیکو لرازم‘ کا مطلب اکثریت کا مذہب یعنی ہندو مذہب سرکاری مذہب قرارپاجائے گا۔اگر ایسا نہ ہوتا توایودھیا میں ’رام مندر‘ کا سرکاری افتتاح ’سوشلسٹ سیکولر جمہوریہ ہند‘ کا وزیراعظم نہیں کررہاہوتا۔
ہندوستان کو حقیقی ’خودمختار سوشلسٹ سیکولر جمہوریہ‘ کے طور پر قائم و دائم رکھنے کیلئے سیاست میں درانا گھس آنے والے اس منہ زور بیل کو لگام دینااب ہر شہری کا فرض بن گیاہے۔
[email protected]