گلوبل ہنگر انڈیکس 2020 جاری، 107 ممالک کی فہرست میں ہندوستان 94 ویں نمبر پر

0

عالمی سطح پر بھوک انڈیکس میں ہندوستان کی پوزیشن میں معمولی بہتری آئی ہے۔ تاہم یہ اب بھی سنگین زمرے میں ہیں، جبکہ کئی ممالک کی پوزیشن میں کافی بہتری آئی ہے۔ گلوبل ہنگر انڈیکس 2020 کی تازہ رپورٹ میں107ممالک کو شامل کیاگیاہے۔ اس فہرست میں ہندوستان کو94 واں نمبرملا ہے اوراسے اب بھی بھوک کے ’سنگین‘ زمرے میں رکھا گیا ہے۔ ماہرین نے اس کیلئے نفاذ کے ناقص طریقہ کار ، موثر نگرانی کے فقدان ، غذائی قلت سے نمٹنے کیلئے مایوس کن نقطہ نظر اور بڑی ریاستوں کی ناقص کارکردگی کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ پچھلے سال 117ممالک کی فہرست میں ہندوستان 102 ویں نمبر پر تھا۔ پڑوسی بنگلہ دیش ، میانمار اور پاکستان بھی ’سنگین ‘ زمرے میں ہیں۔ لیکن اس سال کے بھوک انڈیکس میں ہندوستان سے اوپر ہیں۔ بنگلہ دیش 75 ویں ، میانمار 78 ویں اور پاکستان 88 ویں نمبر پر ہے۔رپورٹ کے مطابق نیپال 73 ویں اور سری لنکا 64 ویں نمبر پر ہے۔ دونوں ممالک ’وسط‘زمرے میں آتے ہیں۔ چین ، بیلاروس ، یوکرین ، ترکی ، کیوبا اور کویت سمیت 17 ممالک نے بھوک اور غذائی قلت کی نگرانی کرنے والے عالمی ہنگر انڈیکس (جی ایچ آئی) میں اعلیٰ رینک پر رہے۔ یہ معلومات جمعہ کو جی ایچ آئی کی ویب سائٹ پر دی گئی ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق ہندوستان کی 14 فیصد آبادی غذائیت کا شکار ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 5 سال سے کم عمرکے بچوں میں اموات کی شرح 3.7 فیصد تھی۔ اس کے علاوہ ایسے بچوں کی شرح 37.4 تھی، جو نقص تغذیہ کی وجہ سے نہیں بڑھ پاتے۔ 1991 سے لے کر اب تک بنگلہ دیش ، ہندوستان ، نیپال اور پاکستان کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ایسے خاندانوں میں بچوں کے قد نہیں بڑھ پانے کے معاملے زیادہ ہیں، جو مختلف اقسام کی کمی سے متاثر ہیں۔ ان میں متناسب غذائیت کی کمی ، زچگی کی نچلی سطح اور غربت وغیرہ شامل ہیں۔ اس عرصے کے دوران ، ہندوستان میں 5 سال سے کم عمر بچوں کی اموات کی شرح میں کمی درج کی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قبل از وقت پیدائش اور کم وزن کی وجہ سے بچوں کی اموات میں اضافہ ہوا ہے ، خاص طور پر غریب ریاستوں اور دیہی علاقوں میں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ پروگراموں کے نفاذ کے ناقص عمل ، مؤثر نگرانی کے فقدان اور غذائیت کی کمی سے نمٹنے کے طریق کار میں ہم آہنگی کی کمی اکثر غذائیت کے ناقص انڈیکس کی وجوہ بنتی ہے۔ بین الاقوامی خوراک پالیسی ریسرچ تنظیم نئی دہلی میں ریسرچ اسکالر پورنیما مینن نے کہا کہ ’ہندوستان کی درجہ بندی میں مجموعی طور پر تبدیلی کیلئے اترپردیش ، بہار اور مدھیہ پردیش جیسی بڑی ریاستوں کی کارکردگی میں بہتری کی ضرورت ہے۔ انہوں نے پی ٹی آئی کو بتایاکہ قومی اوسط اترپردیش اور بہار جیسی ریاستوں کی طرف سے بہت زیادہ متاثر ہوتی ہے …جن ریاستوں میں حقیقت میں زیادہ غذائیت کی کمی ہوتی ہے ،ملک کی آبادی میںان کا نمایاں رول ہوتاہے‘۔ ہندوستان میں پیدا ہونے والا ہر پانچواں بچہ اترپردیش میں ہے۔ لہٰذا اگر زیادہ آبادی والی ریاست میں غذائیت کی کمی کی سطح زیادہ ہے تو یہ ہندوستان کی اوسط میں بہت زیادہ حصہ ڈالے گی۔ 

واضح ہے کہ تب ہندوستان کی اوسط سست ہو گی۔ مینن نے کہاکہ اگر ہم ہندوستان میں تبدیلی چاہتے ہیں تو ہمیں اترپردیش ، جھارکھنڈ ، مدھیہ پردیش اور بہار میں بھی تبدیلی لانے کی ضرورت ہوگی۔
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS