’ٹیم انڈیا‘ کی کامیابی پر ہند کو ناز ہے

0

ہندوستان نے کورونا کے خلاف جاری جنگ میں نئی کامیابی حاصل کی ہے۔ گزشتہ جمعرات کو ہندوستان نے وبا سے تحفظ کے لیے ٹیکے کی 100کروڑ ڈوز کے اعدادوشمار مکمل کرلیے وزیراعظم نریندر مودی نے اس کامیابی کو تاریخی، غیرمعمولی اور بے مثال جیسے اوصاف سے مزین کرتے ہوئے بڑی ہی نرمی سے اس کا کریڈٹ ’ٹیم انڈیا‘ کو دیا ہے۔ کرکٹ کے کھیل میں ایک مشہور کہاوت ہے- اے کیپٹن اِز ایز گڈ ایز ٹیم یعنی کپتان اتنا ہی بہتر ہوسکتا ہے، جتنی اس کی ٹیم۔ اسے یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر ٹیم کے کھلاڑی باصلاحیت ہیں تو کپتان میں بھی اس صلاحیت کو پہچاننے اور صحیح وقت پر صحیح جگہ میں اس کا استعمال کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے ورنہ ایک اچھی ٹیم بھی چیلنج سے سامنا ہونے پر ڈھیر ہوجاتی ہے۔ اس پیمانہ پر ملک کی اہلیت کا مظاہرہ کرنے والی اس کامیابی کا بڑا کریڈٹ وزیراعظم نریندر مودی کو بھی جاتا ہے جنہوں نے چیلنجز کے حساب سے وسائل کا دوراندیشانہ استعمال کیا اور ناممکن کے خلاف 140کروڑ لوگوں کے اعتماد کی مضبوط بنیاد پر عوامی شراکت داری اور ملک کی اہلیت کی ایسی عظیم الشان عمارت کھڑی کردی، جسے دیکھ کر آج دنیا بھی حیران ہے۔ یہ سب اس لیے ممکن ہوسکا کیوں کہ وزیراعظم نے ملک کو اپنا خاندان سمجھا، کورونا جیسی وبا کے دور میں بھی ملک کے لوگوں سے وابستہ رہے اور سبھی کو سیکورٹی کوچ دینے کا جو ذمہ لیا اسے پورا کرکے بھی دِکھایا۔ جب جب بحران میں اضافہ ہوا، سامنے آکر وزیراعظم نے ملک کا حوصلہ بڑھایا۔
لیکن یہ سب آسان بالکل نہیں تھا۔ جب شروعات ہوئی تو کامیابیاں کم اور رکاوٹیں زیادہ تھیں۔ اچانک آئی آفت کے دوران کچے مال کی کمی تھی اور سپلائی چین منظم نہیں تھی۔ کووڈ کی دوسری لہر کے دوران حکومت پر مینجمنٹ سے متعلق بھی سوال ہوئے۔ ریاستوں کی صحت خدمات وبا سے مقابلہ کے لیے ناکافی تھیں، اسپتالوں میں آکسیجن اور بازار میں دواؤں کی قلت تھی۔ اس مشکل وقت میں ملک کو متحد رکھنے کے لیے تالی-تھالی اور دئیے جلانے کی زبردست مہم پر ملک میں ہی طرح طرح کے تانے کسے گئے۔ بار بار ’میک اِن انڈیا‘ کا حوالہ دے کر ویکسین کی کمی پر حکومت اور بالخصوص وزیراعظم کو نشانہ پر لیا گیا۔ ریاستوں میں بھی گلوبل ٹنڈر جیسی بے معنی بحث سے متعلق آپسی مقابلہ آرائی کم نہیں تھی۔ ایک طرح سے پوری ویکسین مہم بکھرتی نظر آرہی تھی۔ ایسے مشکل وقت میں وزیراعظم نریندر مودی نے کمان اپنے ہاتھ میں لے کر پورے ملک کو مفت ویکسین دینے کا چیلنج قبول کیا اور آہستہ آہستہ سبھی چیزیں منظم ہونے لگیں۔ لوگوں میں ویکسین اور بالخصوص سودیشی ٹیکہ سے متعلق جھجھک کو بھی انہوں نے خود آگے آکر دور کیا۔
دنیا کی سب سے بڑی ویکسی نیشن مہم اس لیے بھی کامیاب رہی کیوں کہ یہ وزیراعظم کے دیے مساوات کے ’منتر‘ پر آگے بڑھی۔ شروعات سے ہی یہ یقینی بنایا گیا کہ جس طرح ویکسین کوئی تفریق نہیں کرتی ہے، اسی طرح ویکسی نیشن مہم میں بھی کوئی تفریق نہ کرتے ہوئے وی آئی پی کلچر کو حاوی نہ ہونے دیا جائے۔ اس کے لیے وزیراعظم نے مثال قائم کرتے ہوئے خود اسپتال جاکر ویکسین لگوائی۔
ویکسی نیشن مہم کو ملک کی مہم بنانے کے لیے ضروری تھا کہ اسے سیاسی تفریق سے آزاد رکھا جائے اور وزیراعظم اس محاذ پر بھی کھرے اُترے۔ وہ ریاستیں چاہے بی جے پی کے اقتدار والی رہی ہوں یا پھر دوسری پارٹی کی حکومت والی، وزیراعظم مودی نے خود پہل کرکے سبھی ریاستوں میں ٹیکہ کاری مہم کو کامیاب بنانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور ریاستوں کی کامیابی کی ستائش بھی کی۔ کیرالہ اور مہاراشٹر اس کے بڑے ثبوت رہے۔
وزیراعظم کی قیادت میں ٹیم انڈیا کی اس مشترکہ جنگ کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہندوستان آج وبا کے مینجمنٹ میں بڑی بڑی ڈینگیں ہانکنے والے ترقی یافتہ ممالک سے بہت آگے ہی نہیں نکل گیا ہے، بلکہ ان ممالک کو اب راہ بھی دکھا رہا ہے۔ تعداد کی بنیاد پر 100کروڑ ٹیکوں کا مطلب ہندوستان کی کامیابی امریکہ سے دوگنی، جاپان سے پانچ گنی، جرمنی سے 9گنی اور فرانس سے 10گنی زیادہ ہے۔ امریکہ، یوروپ اور آسٹریلیا میں کل ملاکر جتنے ٹیکے لگے ہیں، اس سے زیادہ اکیلے ہندوستان میں لگ چکے ہیں۔ اور یہ سب صرف اس لیے نہیں ہوا ہے کہ ہماری آبادی ان ممالک سے زیادہ ہے، بلکہ اس لیے بھی ممکن ہوا ہے کیوں کہ ٹیکے لگانے کی ہماری رفتار بھی ان ممالک سے بہتر ہے۔ اس سال 16جنوری کو ملک میں کورونا ویکسین کا پہلا ٹیکہ لگا اور 281دن بعد 21اکتوبر کو 100 کروڑواں ٹیکہ لگا۔ یعنی ہندوستان نے اوسطاً ہر دن 35لاکھ ٹیکے لگائے۔ اس کے مقابلہ میں امریکہ کا روزانہ اوسط 14.50لاکھ، برازیل کا 11.30لاکھ، روس کا 4.50لاکھ اور برطانیہ کا 3.40لاکھ ہے۔
ویکسی نیشن کے محاذ پر آئے مثبت نتائج کی ڈوز ملنے سے ملک کی معیشت بھی امید سے بہتر مظاہرہ کرنے کی راہ پر چل پڑی ہے۔ این ایس او نے اس ہفتہ جو اعداد و شمار جاری کیے ہیں، اس کے حساب سے موجودہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں معیشت 20.1فیصد کی رفتار سے بڑھی ہے، جب کہ چین میں یہ اعداد و شمار 7.9فیصد رہے ہیں جو ہمارے مقابلہ دوگنا سے بھی کم ہیں۔ وزیراعظم کی قیادت میں گزشتہ سات سال میں حکومت نے کئی اسٹرٹیجک اصلاحات کی ہیں۔ کورونا کے دور میں 18-19ماہ میں بھی ملک میں صرف وبا کا مینجمنٹ نہیں ہوا ہے، بلکہ مختلف اصلاحات کی مدد سے صحت، مالیاتی شعبہ اور جی ڈی پی پر اس کے منفی اثر کو محدود کرنے کی سمت میں بڑے قدم اٹھائے گئے۔ ان مشترکہ کوششوں سے امید یہ کی جارہی ہے کہ ٹیکہ کاری کی ہی طرح ہندوستان آنے والے دنوں میں معیشت کے شعبہ میں بھی سب سے تیز گروتھ کا پرچم لہرا سکتا ہے۔
اس لیے بات ٹیکہ کاری کی ہو یا پھر معیشت کی، ہماری کامیابی دنیا کی بھی حوصلہ افزائی کررہی ہے لیکن ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا ہے کہ کورونا کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ بیشک ملک کی بڑی آبادی کو ٹیکہ کا تحفظ مل گیا ہے، انفیکشن کے معاملات بھی مسلسل کم ہورہے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ کورونا پوری طرح ملک سے چلا گیا ہے۔ جس ضبط اور ڈسپلن سے ملک یہاں تک پہنچا ہے، اس کی اب اور بھی زیادہ ضرورت ہے۔ ٹیکہ کاری سے متعلق اٹھ رہے ہر سوال کا جواب دینے کے بعد اب ملک کے شہریوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وبا کے خلاف ملک کی اہلیت پر کسی نئے سوال کو سر اٹھانے کا موقع ہی نہ دیا جائے۔ 100کروڑ ڈوز کی کامیابی کا اس سے بہتر جشن اور کیا ہوسکتا ہے؟
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS