غم واندوہ اور فکر و تشویش کا شکار ہندوستان اور ہم

0

پروفیسر اخترالواسع

28 جون کو ادے پور میں جس طرح کنہیا کو ہلاک کیا گیا، وہ بربریت اور بہیمیت کا بدترین مظاہرہ تھا۔ اس وحشیانہ قتل نے صرف کنہیا کے خاندان یاادے پور کے لوگوں کو ہی نہیں بلکہ پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ سب سے زیادہ یہ کہ ہندوستانی مسلمانوں کو اس نے سب سے زیادہ شرمسار کیا۔ وہ ہندوستانی مسلمان جو اہانت رسولؐ کو لے کر ایک مضبوط اخلاقی موقف پر ڈٹے ہوئے تھے اس واقعہ نے ان کی اخلاقی حیثیت کو کمزور کر دیا۔ ہندوستانی مسلمان جو خود ہر طرح کی دہشت گردی، فسطائیت، وحشت اور تشدد کا نشانہ بنتے رہے اور اسی لیے ان سب کے خلاف آواز بھی بلند کرتے رہے ہیں، اس جانکاہ واقعہ نے انہیں ایک انتہائی دفاعی پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے اور ہر مسلک، ہر جماعت اور ہر میدانِ اختصاص سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں نے دو ٹوک الفاظ میں اس واقعہ کی نہ صرف مذمت کی ہے بلکہ اس کو شریعت اور قانون دونوں کے خلاف بتایا ہے اور اس واقعہ کو انجام دینے والوں کو سخت سے سخت سزا دینے کی بات کہی ہے۔ یہاں یہ بات قابل اطمینان ہے کہ اس واقعہ کی خطرناکیت کو محسوس کرتے ہوئے راجستھان سمیت ہر ریاست کی حکومت اور اس کے نظم و نسق کے ذمہ داروں نے انتہائی ذمہ داری اور چوکسی سے کام لیتے ہوئے صورتحال کو مزید بگڑنے سے روکا۔
اس واقعہ کی سنگینی، بے دردی اور بے حسی کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کنہیا کو صرف قتل ہی نہیں کیا گیا بلکہ اس گھناؤنے فعل کی فلم بھی بنائی گئی جسے سوشل میڈیا پر وائرل بھی کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ ادے پور میں اس سے پہلے ایک مسلمان کے ساتھ بھی ظلم و ستم اور تشدد کا اسی طرح کا واقعہ پیش آیا تھا اس کی بھی فلم بنا کر وائرل کی گئی تھی لیکن ایک غلطی کا جواز دوسری غلطی نہیں ہوسکتی۔ جو پہلے ہوا وہ بھی غلط تھا اور جو بعد میں ہوا اس کی بھی کوئی توجیہ نہیں کی جاسکتی۔ کسی شخص کو کسی کے خلاف قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا اختیار نہیں۔ آپ خود ہی جج بن جائیں اور خود ہی جلاّد، اس کی اجازت کسی کو نہیں دی جا سکتی اور خاص طور پر مذہب کے نام پر ایسا سب کچھ ہونا کسی بھی طرح جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ وہ بھی اسلام کے نام پر جو امن، سلامتی اور رواداری کا مذہب ہے۔ جس کا رب رب العالمین اور جس کا رسولؐ رحمت للعالمین ہے۔ جنہوں نے یہ کہا کہ تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے، جو وحدت الہ اور وحدتِ آدم کا داعی اور نقیب تھے۔ وہ سراپا رحمتؐ جنہوں نے جبلِ رحمت پر کھڑے ہوکر ہر طرح کے تعصب اور تفریق کو مٹانے کا اعلان کر دیا تھا۔ جنہوں نے گالی دینے کو فسق اور قتل کرنے کو کفر قرار دیا تھا۔ جنہوں نے عفو و درگزر کے پیغام کو عام کیا اور ہر طرح کے تشدد کو غلط قرار دیا اور انسانی جان کی حرمت پر زور دیا۔
ادے پور میں کنہیا کی ہلاکت کے بدترین واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے سرکار اور ہندوستانی عوام سے ہم صرف ایک بات کہنا چاہیں گے کہ دو لوگوں کے ظالمانہ عمل کو اجتماعی طور پر کسی ایک مخصوص مذہبی گروہ کے سر نہ منڈھا جائے بلکہ جیسا کہ اوپر کہا گیا ہے، اس مذہبی فرقے کا کوئی طبقہ ایسا نہیں جس نے اس بدترین واقعہ کی پرزور الفاظ میں مذمت نہ کی ہو۔
ملک میں ادے پور میں ہوئی ہلاکت خیزی نے ہر چیز کو پس پشت ڈال دیا۔ اسی بیچ میں مشہو رصحافی جو جھوٹی اور نیم مصدقہ خبروں کی نشاندہی کے لیے جانے جاتے تھے اور اس حیثیت سے آلٹ نیوز(Alt News) اور اس کے بانیوں میں سے ایک محمد زبیر کی اپنی پہچان تھی۔ اہانت رسولؐ کے سلسلے میں نوپور شرما کی دردیدہ دہنی کو بھی انہوں نے اجاگر کیا تھا۔ ان کو جس طرح کسی اور معاملے میں تفتیش کے لیے دہلی بلایا گیا اور بعد ازاں 2018کے کسی چار سالہ پرانے کیس کے نام پر گرفتار کیا گیا اور اس کے بعد عدالت کے حکم سے پولیس حراست میں بھیج دیا گیا۔ اس پر ایڈیٹرس گلڈ، پریس کلب اور دوسری ایجنسیوں اور افراد نے ملک اور بیرونِ ملک جس طرح سے احتجاج کی آوازیں بلند کی ہیں وہ جہاں اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ ابھی انسانیت کا اجتماعی ضمیر پوری طرح بیدار ہے، وہیں جس طرح کے عذر سرکاری ایجنسیوں کی طرف سے پیش کیے جا رہے ہیں وہ ناقابل فہم ہیں۔ یہ بات ابھی تک لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ نوپور شرما کے خلاف جن دفعات کے تحت کیس درج کیا گیا ہے ان کو تو آج تک گرفتار نہیں کیا گیا بلکہ ان تمام لوگوں کو جنہوں نے ان کی دریدہ دہنی، ہرزہ سرائی اور اہانت رسولؐ کے ارتکاب کی نشاندہی کی یا اس کے خلاف پرامن احتجاج کیا، ان کو گرفتار کیا جا رہا ہے، جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے، ان کے گھروں پر بلڈوزر چلائے جارہے ہیں۔ یہ صورتحال اس وقت اور بھی سوالوں کے گھیرے میں آتی ہے جب اگنی پتھ کے خلاف ہونے والے پرتشدد احتجاج میں ملک بھر کے اندر ہزارہا کروڑ کی سرکاری اور غیرسرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا اور ان پر اس طرح سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی جس طرح اہانت رسولؐ کے خلاف پرامن احتجاج کرنے والوں کے خلاف کی گئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس ملک میں دو قانون ہیں؟ کیا قانون کے اطلاق میں کوئی دوہرا معیار اپنایا جا سکتا ہے؟
اسی طرح سپریم کورٹ میں محترمہ ذکیہ جعفری کی پٹیشن رد ہونے کے بعد جس طرح تیستا سیتلواڑ اور گجرات پولیس کے دو سابق افسروں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے، وہ بھی سمجھ میں آنے والی نہیں ہے۔ پتا نہیں کہ ہماری سرکار اور نظم و نسق کی ایجنسیوں کو کون ایسے مشورے دے رہا ہے جس سے کہ 20 سال بعد بھی 2002کے گجرات فسادات کے زخم ہرے ہی رہیں اور بھرنے نہ پائیں۔
سوال صرف اتنا ہی نہیں ہے بلکہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ دنیا میں ہندوستان کے بارے میں ایک فضا بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آپ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور چند ممالک کی تردید کر سکتے ہیں لیکن اگر مجلس اقوام متحدہ بھی آپ کے کسی اقدام پر حرف گیری کرتی ہے تو آپ محض اس کی تردید کرکے دنیا میں سرخروئی حاصل نہیں کرسکتے۔ آج جب کہ دنیا ایک عالمی گاؤں بن گئی ہے اور ہندوستان کو بلاشبہ وشو گرو بننا ہے، ایک نئے ہندوستان کو سامنے لانا ہے تو ہمیں اندرونِ ملک اتحاد و اتفاق کی ایسی فضا بنانی ہوگی جس میں فرقہ وارانہ منافرت، مذہبی عناد و فساد کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ ملک کی معیشت کو نئی رفتار بخشنے کے لیے اور تعمیر و ترقی کی نئی بلندیاں حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم کل کو بھول جائیں اور ایک بہتر مستقبل کے لیے مل جل کر سرگرمِ عمل ہو جائیں۔
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS
Previous articleارجنٹینا میں معاشی بحران، وزیر خزانہ نے دیا استعفی
Next articleسمندر نہیں، ایک نیا سیلاب لوٹا ہے
Prof. Akhtarul Wasey
Akhtarul Wasey (born September 1, 1951) is the president of Maulana Azad University, Jodhpur, India, and a former professor of Islamic Studies. He taught at Jamia Millia Islamia (Central University) in New Delhi, where he remains professor emeritus in the Department of Islamic Studies. Early life and education: Wasey was born on September 1, 1951, in Aligarh, Uttar Pradesh to Hairat bin Wahid and Shahida Hairat. He is the oldest of six children. Wasey attended Primary School No. 16, the City High School of Aligarh Muslim University, and Aligarh Muslim University where he earned a Bachelor of Arts (Hons.) in Islamic studies in 1971, a Bachelor of Theology in 1975, a Master of Theology in 1976, and an Master of Arts in Islamic studies in 1977. He also completed a short-term course in the Turkish language from Istanbul University in 1983. Career: On August 1, 1980 he joined Jamia Millia Islamia, Delhi as lecturer and worked there till 31 August 2016.Wasey was a lecturer, reader and professor at Jamia Milia Islamia University in New Delhi from 1980-2016, serving as the director of Zakir Husain Institute of Islamic Studies and later becoming head of the Department of Islamic Studies and Dean of the Faculty of Humanities and Languages. He is currently the president of Maulana Azad University in Jodhpur and remains a Professor Emeritus in the Department of Islamic Studies at Jamia Millia Islamia. In March 2014, Wasey was appointed by Indian President Shri Pranab Mukherjee to a three-year term as Commissioner for Linguistic Minorities in India, and became the first Urdu-speaking commissioner since 1957. Wasey is the editor of four Islamic journals: Islam Aur Asr-e-Jadeed; Islam and the Modern Age; Risala Jamia; and Islam Aur Adhunik Yug. Awards and honors: 1985 Award from Urdu Academy, Delhi and UP Urdu Academy on "Sir Syed Ki Taleemi Tehreek" 1996 Maulana Mohammad Ali Jauhar Award 2008 Fulbright Fellowship 2013 Padma Shri award from President Pranab Mukherjee of India 2014 Makhdoom Quli Medal from the President of Turkmenistan 2014 Daktur-e-Adab from Jamia Urdu, Aligarh