2024 سیف الرحمن
لوک سبھاانتخابات کیلئے اب سیاسی اکھاڑہ سجتا جا رہا ہے اور دن بہ دن گرمی میں شدت آتی جا رہی ہے ،کیونکہ وقت بہت کم بچا ہے بس 6 سے 7 مہینوں کے بعد پہلوانوں کی کْشتی اور کْشتی کا فیصلہ ہو جائیگا، لہٰذا ہمیشہ الیکشن کے لئے تیار رہنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی نے بھی جنگی پیمانے پر تیاری شروع کردی ہے جس میں جہاں ایک طرف چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کو ختم کر دینے کا اعلان کرنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی 38 پارٹیوں کے ساتھ دوبارہ این. ڈی. اے قائم کرکے اتحاد کی سیاست کے ذریعے حکومت میں واپسی کی کوشش کر رہی ہے تو وہیں وہ منافرت پر مبنی اپنے پرانے سیاسی ہتھکنڈوں کو آگے بڑھاتی نظر آرہی ہے، دْوسری طرف ملک میں اپوزیشن پارٹیاں جن کا اتحاد نا ممکن مانا جاتا تھا وہ سب ایک اسٹیج پر آکر کھلے دلوں سے ایک دوسرے کو قبول کرکے انڈیا اتحاد بناکر اکھاڑہ میں کودنے کو تیار ہو رہی ہیں بلکہ اکھاڑہ میں زور آزمائی شروع کر چْکی ہے جس کا اثر منی پور کے معاملے اور پارلیمنٹ کے پورے سیشن میں دیکھنے کو ملا ، اور اس کا اثر یہ پڑا ہے کہ آج ہونے والے سبھی اوپنین پول سروے میں بھارتیہ جنتا پارٹی و اْنکے اتحاد کی سیٹوں کا بڑا نقصان ہر صوبے میں ہوتا نظر آرہا ہے اور نیریٹو کے محاذ پر فی الوقت بھاجپا بیک فٹ پر نظر آرہی ہے، مگر اب بھی خوش فہمی سے بچتے ہوئے انڈیا اتحاد کو حقیقت پسندی کے ساتھ زمین پر منصوبہ بند کام کرنا ہوگا اور اس سلسلے میں سب سے پہلی ضرورت ہے کہ انڈیا اتحاد کو ایک مضبوط اتحاد بنایا جائے جس پر میں نے اپنے گزشتہ مضمون “انڈیا اتحاد: خوش آئند لیکِن نا مکمل” میں تفصیلی گفتگو کیا ہے, اس سلسلے میں حقیقی سوشل انجینرنگ کرنے و تمام ہی طبقات کی لیڈرشپ کو نمائندگی دینے کی بھی ضرورت ہے،اس کے ساتھ ہی اس اتحاد کو تمام پارٹیوں کے قائدین سے لیکر گراؤنڈ سطح تک کے ارکان کے درمیان نظریہ و یکساں مفاد کے بنیاد پر کوآرڈینشن قائم کرنا ہوگا جس کیلئے ایک تو قومی سطح پر کورڈینشن کمیٹی بنے اْس کے ساتھ ہی صوبائی وضلعی سطحوں پر بھی کورڈینشن کمیٹی بنائی جائے، قومی و صوبائی اور ضلعی سطح پر انڈیا اتحاد کا باضابطہ آفس بنایا جائے اور پھر ہر ماہ صوبائی و ضلعی سطح پر اتحاد کی تمام پارٹیوں کی متحدہ میٹنگ منعقد کی جائے جس میں آپسی اتحاد کو مضبوط سے مضبوط کرنے و عوامی بیداری سے متعلق منصوبے بنے و ہر مہینے کے کام کا تجزیہ بھی کیا جائے، قومی سطح پر انڈیا اتحاد کی ممبرشپ مہم چلائی جائے جو کہ بس بنیادی طور پر عوامی بیداری و عوامی حمایت کے حصول کے ساتھ ہی ارکان کے درمیان اتحاد کو مضبوط کرنے کیلئے ہو، جس میں قومی سطح کے لیڈران سے لیکر نچلی سطح تک کے ارکان زمین پر اتر کر مضبوط مواد کے ساتھ عوام کو بیدار کرنے کی مہم الگ الگ انداز میں چلائیں اور یہ پوری مہم گلی گلی تک ویسے ہی ہو جیسے کہ کیڈربیسڈ تنظیمیں بھاجپا،بام سیف،سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا و کمیونسٹ پارٹیاں کرتی ہیں، پھر اْس مہم میں ہر بیداری پروگرام کے بعد لوگوں کو اتحاد کی ممبرشپ دلائی جائے جس سے کہ یہ ایک عوامی تحریک کی شکل اختیار کر لے، اس کے ساتھ ہی الیکشن مینیجمنٹ و عوامی بیداری کیلئے سبھی پارٹیوں کے کارکنان کے متحدہ تربیتی ورکشاپس نچلی سطح تک منعقد کئے جائیں جس سے کہ ان کے درمیان رابطہ مضبوط ہو اور زمینی سطح پر اْس پورے ووٹ بینک کو ہر پارٹی کو ٹرانسفر کیا جانا یقینی بن سکے جس کا سوشل انجینئرنگ اْوپری سطح پر اتحاد بنا رہا ہے! سوشل میڈیا اور آئی.ٹی.سیل کے اکھاڑے میں کانگریس و دوسری اپوزیشن پارٹیاں بھی اب بھاجپا کے آئی.ٹی سیل کو مقابلہ دیتی نظر آرہی ہیں جس کا اثر حکومت ہند کے خلاف آئے عدم اعتماد بل کے بحث کے وقت راہل گاندھی کی تقریر کو وزیرِ اعظم نریندر مودی سے زیادہ دیکھے جانے کے معاملے میں نظر آیا،اس کے علاوہ بھارت جوڑو یاترا کے درمیان بھی یاترا کے سوشل میڈیا مارکیٹنگ میں دیکھا گیا، لیکِن آنے والے دنوں میں جس طرح سے نریٹو سازی کا مقابلہ سوشل میڈیا پر ہوگا اْس کو سامنے رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ ایک طرف اتحاد کی ساری جماعتیں اپنا اپنا آئی.ٹی سیل مضبوط کرے تو وہیں ضرورت ہے کہ انڈیا اتحاد کا اپنا آئی.ٹی سیل و پوری سوشل میڈیا ٹیم بنے جو کہ بھاجپا کے ذریعے پھیلائے جانے والے مواد اور زمین پر دنگوں و دِیگر ذرائع سے پولرائزیشن کے ہونے والے اقدامات کے اثرات کا مقابلہ کرتے ہوئے اْسے دبا کر اپنا حکومت مخالف نریٹو غالب کر سکے، مثلا اپوزیشن کا ماننا ہے کہ منی پور کی بحث کو دبانے کیلئے نوح میں مسلم مخالف حملے کروائے گئے تو ایسے میں دو کام کرنے تھے ،ایک یہ کہ کسی اہم ترین موضوع کو اس طرح بحث میں لے آیا جائے کہ نوح کا ہنگامہ فوری طور پر دب جائے اور دوسرا یہ کہ نوح کے جاٹ،سکھ و دیگر لوگوں کے اْن بیانات کی زبردست تشہیر کی جائے جن میں کہ شازش کا پورا پردہ فاش کیا جا رہا تھا اور نفرتی سیاست کے خلاف گنگا جمنی تہذیب کو مضبوط کرنے والے مواد موجود تھے، اس کے علاوہ بڑے پیمانے پر یوٹیوب،فیس بک،وہاٹس ایپ وغیرہ پر جو پورا سسٹم جھوٹ و نفرت کا بنا ہوا ہے اس کا پردہ فاش کرنے کے ساتھ ہی مستقل قانونی کارروائی کے ذریعے بھی اْس پورے سسٹم کو کمزور کیا و توڑا جاتا رہے, روزانہ کی بنیادپر سوشل میڈیا پر عوامی مسائل و سنگھی مقاصد سے متعلق مہمات چلائے جاتے رہے اور بھاجپا اتحاد کو مکمل طور پر اس طرح اْلجھا کر رکھا جائے کہ وہ ہمیشہ بیک فٹ پر کھیلنے پر مجبور رہے! 10 سال کی بھاجپا حکومت کی تمام ناکامیوں بشمول بے منہگائی، ہیروزگاری،شہریوں کے تحفظ،سرحدوں کے تحفظ و دِیگر زمینی حقیقی مسائل سے متعلق دلچسپ شارٹ فلمیں بنائی جائے، حکومت کے دلت،مسلم،عیسائی،آدی واسی و خواتین مخالف اقدامات و پالیسی سے متعلق الگ الگ شارٹ فلمیں بنائی جائے اور اس کی ذبردست تشہیر کی جائے ! ان تمام کے ساتھ ہی ایک نظریاتی لکیر بھی انڈیا کو کھینچنی ہوگی جس پر مضبوطی سے قائم رہنا ہوگا ورنہ بیک فٹ پر رہنے کی صورت میں سنگھ پریوار کو کھیلنے کا ذبردست موقع مل جائیگا، پھر اْنکے کھیل سے پھیلے رائتہ کو صاف کرنے میں ہی آپ کا مکمل وقت نکل جائیگا لیکِن اگر آپ نظریاتی سطح پر مضبوطی سے ڈٹ کر مقابلہ کریں گے تو آپ کے جمہوری نظریہ میں وہ طاقت ہے کہ آپ اْن کے ہر کھیل کو بگاڑ دینے میں کامیاب ہونگے مثلاً نوح کے نام پر بھاجپا وہی کھیل کھیلنے کے کوشش کر رہی جیسا کہ مظفر نگر کے نام پر کھیلا گیا تھا، جب کہ نوح کے معاملے میں یہ کھیل ناکام ہوتا نظر آرہا ہے لیکِن اگر نوح معاملے کر فورا بعد راہل گاندھی و حزب اختلاف کے لیڈران نوح کا دورہ کرتے اور وہاں کی مقامی غیر مسلم آبادی کو ساتھ لیکر پوری نوح سازش پر ویڈیوز جاری کرتے تو پورے طور پر یہ کھیل الٹا پڑ جاتا ، اسی طرح ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں بم بلاسٹ جیسے واقعات واقع ہوں پھر انڈین مجاہدین،جماعت المجاھدین بنگلہ دیش، پاپولر فرنٹ آف انڈیا وغیرہ اور ممنوعہ کمیونسٹ تحریکوں کے نام پر ویسے ہی 2024 جیتنے کی کوشش کی جائے جیسا کہ 2014 میں پٹنہ بلاسٹ اور 2019 میں پلوامہ حملے کے نام پر کیا گیا تھا جس کا اشارہ کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک و ان جیسے دیگر افراد دیتے رہے ہیں، تو ایسے میں یہ بات صاف ہے کہ اگر اپوزیشن ماضی کی طرح ہی بیچ کا راستہ یا بیک فٹ کی پالیسی اپنانے کی کوشش کریگی تو وہ بھاجپا کو مکمل موقع دیگی لہذا ایسے وقت میں مضبوط اسٹینڈ کے ساتھ پوری طاقت سے حملہ آور ہونے اور متعلق حقیقی سوالات کو عوام کے درمیان پورے طور پر چرچا میں لانے میں ہی حزب اختلاف کی بھلائی ہوگی، لہٰذا اس پر بھی ماہرین کی مضبوط ٹیم کے ساتھ بیٹھ کر منصوبہ سازی کر لینی چاہیے!ذات پر مبنی مردم شْماری سمیت او.بی.سی، ایس.سی،آدایوسی اور اقلیت ووٹ کو مکمل طور پر ساتھ لینے کے ٹارگٹ کے ساتھ سب کیلیے الگ الگ پروگرام و پلان تیار کیا جائے اور ان اقوام کے بیچ فاشزم مخالف نریٹو کو آگے بڑھاتے ہوئے ان کے قومی نریٹو کو مضبوط کرنے پر توجہ دیا جائے! تمام طرح کے کاموں کیلئے طلباء گروپس،سول سوسائٹی،سماجی تنظیموں،جرنلسٹ تنظیموں، خواتین کی تنظیموں،الگ الگ اقوام کی قومی تنظیموں وغیرہ سے رابطے اور اْنکی مستقل مدد لینے کیلئے باضابطہ ایک ٹیم تشکیل دی جائے جو کہ قومی سطح سے لیکر اسمبلی سطح تک اس پر مسلسل کام کرے!ان تمام نکات پر کام کے ساتھ ہی ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ الیکٹرانک میڈیا و پرنٹ میڈیا سے رابطے مضبوط کئے جا? و متبادل میڈیا کے سبھی پلیٹ فارمس سے بہتر رشتہ استوار کیا جائے اور خصوصی طور پر کوشش کی جائے کہ الیکشن کنسلٹنسی کی زیادہ سے زیادہ چھوٹی،بڑی کمپنیوں کو ساتھ لے آیا جائے اور ہر صوبے میں اْنکی مدد بہتر طریقے سے حاصل کے جائے۔qqq
انڈیا اتحاد اور لوک سبھا انتخابات
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS