ایم اے او کالج کا قیام ملک کی تاریخ میں ایک انقلاب

0

ڈاکٹرجسیم محمد
گروپ ایڈیٹر روزنامہ راشٹریہ سہاراوعالمی سہارا
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اس وقت نہ صرف ملک بلکہ دنیا میں ایک باوقار تعلیمی ادارہ ہے جس کی بنیاد محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کی شکل میں ملک کے عظیم ماہر تعلیم اور سماجی مصلح سرسید احمد خان نے رکھی تھی۔ سرسید احمد خان 1857کی پہلی جنگ آزادی کے ناکام ہونے کے نتیجے کی شکل میں ہندوستانیوں خاص طور سے مسلمانوں کوتعلیم یافتہ بنانے کے لئے فکر مند رہتے تھے اور انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ صرف جدید انگریزی اور سائنس کی تعلیم کے ذریعہ ہی مسلمان ترقی کی راہ پر آگے بڑھ سکتے ہیں۔ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج (ایم اے او کالج) کے قیام سے قبل سرسید نے انگلینڈ کا دورہ کیا اور وہاں کیمبرج اور آکسفورڈ جیسی یونیورسٹیوں کے نظام تعلیم کو قریب سے دیکھا۔ انہوں نے ہندوستان میں بھی مسلمانوں کو تعلیم دینے کے لئے کیمبرج اور آکسفورڈ کی طرز پر ایک یونیورسٹی کا خواب دیکھا۔ اسی خواب کو شرمندہ¿ تعبیر کرنے کے لئے سرسید نے 8جنوری 1877میں ایم اے او کالج قائم کیا۔ واضح رہے کہ سرسید نے ایم اے او کالج کا قیام مسلمانوں کے لئے ضرور تھا لیکن انہوں نے اس کے دروازے ہر مذہب اور برادری کے لوگوں کے لئے کھول رکھے تھے۔ 3فروری 1884کو لاہور میں خطاب کرتے ہوئے سرسید نے کہا ’مجھے افسوس ہوگا اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ میں نے ایم اے او کالج کا قیام صرف مسلمانوں کے لئے کیا ہے کیونکہ ایسا سوچنا مسلمانوں اور ہندوﺅں کے درمیان بھیدبھاﺅ کرنا ہوگا۔ اس تعلیمی ادارے کے قیام کا مقصد مسلمانوں کو ان کی ابتر حالت سے نکالنا ہے اور مجھے یقین ہے کہ آپ سبھی اتفاق کریں گے کہ مسلمانوں کی صورت حال لگاتار کمزور ہوتی جارہی ہے۔ ان کی مذہبی دقیانوسی نے انہیں سائنس کی تعلیم سے دور رکھا اور وہ سرکار کے ذریعہ قائم کردہ اسکولوں اور کالجوں کا فائدہ اٹھانے سے محروم رہے ۔اس لئے یہ لازم ہوگیا ہے کہ ان کے لئے تعلیم کے خاص انتظامات کئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ کالج میں ہندو اور مسلمان دونوں کو مساوی اور بنا کسی امتیاز کے تعلیم مہیا کی جائے گی۔ دونوں میں کوئی بھی بھید بھاﺅ نہیں ہوگا۔‘ سرسید کا مذکورہ خطاب ایم اے او کالج کے پوری نظریات کو اجاگر کرتا ہے اور آج بھی اے ایم یو کے دروازے ہر ایک مذہب، ذات، برادری اور علاقے کے طلبا و طالبات کے لئے کھلے ہیں۔ سرسید نے ایم اے او کالج کو صرف روایتی تعلیمی ادارہ نہیں بنایا۔ ملک میں پہلی بار انہوں نے اقامتی تعلیمی نظام کی بنیاد ڈالی اور ایم اے او کالج ملک کا پہلا اقامتی تعلیمی ادارہ تھا۔ اقامتی تعلیم کے سلسلے میں کئی غلط فہمیوں کو درکنار کرتے ہوئے سرسید نے کہا ’اکثر لوگ سوال کرتے ہیں کہ طلبا کو کس طرح ہاسٹل میں مکمل طور سے ایجوکیٹ کیا جائے گا۔ جس طرح کیمبرج اور آکسفورڈ میں طلبا مستقل طور سے چرچ جاتے ہیں اسی طرح یہاں بھی طلبا کو مستقل طور سے مسجد میں نماز کے لئے جانا ہوگا۔ سبھی طلبا کا یکساں یونیفارم ہوگا تاکہ وہ دیگر اسکولوں کے طلبا سے الگ نظر آئیں۔ ہر ایک سرگرمیوں کا ایک مقررہ وقت ہوگا چاہے وہ درس و تدریس کا ہو یا کھانے پینے کا۔ اسی طرح کالج میں کھیل کود کا بھی انتظام ہوگااور ہر طالب علم کو آزادی ہوگی کہ وہ اپنی دلچسپی کے مطابق کھیل کود میں حصہ لے۔ مختصر اً یہ کہا جاسکتا ہے کہ سرسید نے ایک بااثر لائف اسٹائل طلبا کے لئے طے کی۔ 1- (تہذیب الاخلاق، 01رجب 1289، ہجری) یہاں یہ دھیان رکھنا ضروری ہے کہ سرسید کی تعلیمی پالیسی صرف ملازم پیدا کرنا نہیں تھی بلکہ ذمہ دار شہری پیدا کرنا ان کا مقصد تھا۔ ان کا اصل مقصد تعلیم کے ساتھ مسلم سماج کی اصلاح بھی تھا۔ ایم اے او کالج کے قیام کا مقصد بھی صرف تعلیم فراہم کرنا نہیں بلکہ ایک خود کفیل مسلم سماج کی تشکیل کرنا تھا۔ سرسید مسلمانوں میں رائج غلط اوہام و عقائدکے خلاف تھے اور ذہنی آزادی کے حامی بھی تھے یہی وجہ ہے کہ وہ مذہبی دقیانوسیت کے بھی خلاف تھے۔ انہوں نے شادی بیاہ کی تقریب میں غیر ضروری اخراجات کی مخالفت کی اور ان روایتوں کی بھی مخالفت کی جو اسلام کا حصہ نہیں تھیں لیکن ہندوستانی مسلمان انہیں مانتے تھے۔ سرسید ایک تعلیمی محرک تھے، جس کی مو¿ثر جھلک ایم اے او کالج کے نظام میں صاف ظاہر ہوتی ہے۔ انہوں نے کہاتھا، ’ایم اے او کالج کے طلبا دنیا کے ہر ایک کونے میں جائیں گے اور آزاد خیالی، وسیع القلبی اور انسانیت کا پیغام دیں گے۔ سرسیدنے تکنیکی اور سائنسی تعلیم پر سب سے زیادہ زور دیا جو بدلتے وقت کی ضرورت تھی۔ اپنے ایک خطاب میں انہوں نے کہا ’مجھے آپ کسی بھی نام سے پکاریں لیکن اپنے بچوں پر رحم کریں۔ ان کے لئے کچھ مثبت کریں (یعنی اسکول بھیجیں) تاکہ آپ کو شرمندہ نہ ہونا پڑے۔ سرسید کا خیال تھا کہ، ’اگر ہم سائنس میں ترقی نہیں کریں گے تو ہم ہمیشہ کے لئے پسماندہ رہیں گے اور ہمیں توہم پرستی سے باہر آنا ہوگا کیونکہ توہم پرستی مذہب کا حصہ نہیں ہے۔ ایم اے او کالج کے قیام کے لئے سرسید نے فنڈ جمع کرنا شروع کیا۔ انہوں نے ہندوﺅں اور مسلمانوں دونوں سے کالج کے لئے چندہ دینے کی اپیل کی جن میں انگلینڈ کی مہارانی بذات خود شامل تھیں۔ سرسید کے ساتھ ساتھ ان کے دوست مولوی سمیع اللہ نے بھی ایم اے او کالج کے قیام میں ایک اہم رول ادا کیا۔ ایم اے او کالج ملک اور مسلمانوں کی تاریخ کا ایک اہم واقعہ تھا جس نے جدیدیت سے مسلمانوں کا تعارف کرایا، صرف اتنا ہی نہیں ایم اے او کالج کے قیام نے مسلمانوں کی صدیوں پرانی بیڑیوں کو توڑنے میں بھی مثبت کردار ادا کیا۔ شروع میں ایم اے او کالج کا کلکتہ یونیورسٹی سے ملحق تھا لیکن 1885میں اس کا الہ آباد یونیورسٹی سے ملحق کردیا گیا۔ 1920میں پارلیمنٹ کے قانون کے ذریعہ ایم اے او کالج کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل میں منظوری دی گئی،جو کہ بعد میں مسلمانوں کے فکری مرکز کی شکل میں ابھری۔یہ یونیورسٹی آج بھی ملک کی خدمت کررہی ہے۔ ایم اے او کالج کا قیام سرسید کا ایک ایسا قدم ہے جس نے نہ صرف مسلمانوں کی اقتصادی، سماجی، اورسیاسی حالت کو تبدیل کیا بلکہ عالمی سطح پر اپنی چھاپ چھوڑا۔ آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبا و طالبات دنیا کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے ہیں اور نہ صرف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ترانے ’جو ابر یہاں سے اٹھے گا وہ سارے جہاں پر برسے گا‘کی مثال قائم کررہے ہیں، بلکہ سرسید کے اس قول کو بھی سچ ثابت کررہے ہیں کہ ’یہاں کے طلبا دنیا کے کونے کونے میں جائیں گے اور سائنس ،آپسی محبت اور یکجہتی کا پیغام دیں گے‘آج گلوبلائزیشن کے اس دور میں سرسید کے پیروکار ہی ہیں جو مذہبی توہم پرستی کو سرے سے خارج کرتے ہیں۔ آج ایم اے او کالج کے یوم تاسیس پر اے ایم یو برادری کو ایک نیا عزم لینے کی ضرورت ہے کہ وہ سرسید کی تعلیمی تحریک اور سماجی اصلاح کی فکر ملک کے کونے کونے میں پھیلائیں گے تاکہ سرسید کا خواب شرمندہء تعبیر ہوسکے۔ 


میں 6بچوں کے ساتھ مدرسة العلوم شروع کیا:1875  
سرسید احمد نےسے زیادہ ملکوں میں اے ایم یو کے طلبا نام روشن کررہے ہیں
100سے زیادہ ملکوں میں اے ایم یو کے طلبا نام روشن کررہے ہیں
۸جنوری 1877کو رکھی گئی تھی ایم اے او کالج کی بنیاد
1920:میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل میں جانا گیا کالج


بھارت رتن
ڈاکٹر ذاکر حسین(1963)خان عبدالغفار خان خان (1998)
پدم وبھوشن
ڈاکٹر ذاکر حسین (1954)حافظ محمد ابراہیم (1967)سید بشیر حسین زیدی (1976)پروفیسر عابد صدیقی (2006)پروفیسر راجہ رائو (2007)پروفیسر اے آر قدوائی (2010)
پدم بھوشن
شیخ محمد عبداللہ (1964)uپروفیسر سید ظہور قاسم (1982)پروفیسر آل احمد سرور (1985)نصیر الدین شاہ (2003)پروفیسر عرفان حبیب (2005)قرة العین حیدر (2005)جاوید اختر (2007)ڈاکٹر اشوک سیٹھ (2014)
پدم شری(متعدد شخصیات پدم شری کے اعزاز سے سرفراز کئے گئے)
یونیورسٹی کے 53دانشوروں کو گیان پیٹھ
قرة العین حیدر (1989)uعلی سردار جعفری (1997)پروفیسر شہر یار (2008)
سپریم کورٹ کے جج
جسٹس بہارالاسلام،جسٹس سید مرتضیٰ فضل علیجسٹس ایس صغیر احمد،جسٹس آر پی سیٹھی
ہائی کورٹ کے جج
47طلبا ہائی کورٹ کے جج بنے

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS