کووِڈ 19-کی افراتفری کے بیچ عام بیمار نظرانداز، مشکلات کے شکار

    0

    سرینگر: صریرخالد،ایس این بی
    جموں کشمیر میں اسپتالوں اور محکمۂ صحتِ عامہ کی ساری توجہ انسدادِ کرونا کی کوششوں پر مبذول رہنے کی وجہ سے یہاں دیگر بیماریوں میں ملوث بیماروں کی حالت خراب ہورہی ہے۔ حالیہ دنوں میں جموں کشمیر کے مختلف علاقوں میں ایسی کئی اموات ہوئی ہیں کہ جنکے بارے میں یہ اطلاعات ہیں کہ انہیں بروقت علاج نہ مل سکا تھا ۔حالانکہ ڈویژنل کمشنر کشمیر نے سبھی ماتحت ضلع افسروں کو خصوصی ہدایت دیتے ہوئے غیر کووِڈ19- صحت مراکز کو پوری طرح متحرک کرنے کی ہدایت دی ہے۔
    ذرائع کا کہنا ہے کہ طبی اور صحتِ عامہ کے سبھی چھوٹے بڑے اداروں اور سہولیات کی ساری توجہ کرووِڈ 19- پر مرکوز رہنے کی وجہ سے غیر کووِڈ 19-مریض مشکلات سے دوچار ہیں اور انہیں بروقت علاج حاصل کرنے میں دقعتیں آرہی ہیں۔ ان ذرائع کے مطابق اسپتالوں میں یا تو مریضوں کو آنے ہی نہیں دیا جاتا ہے یا پھر وہاں انہیں کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے کیونکہ سارا عملہ کووِڈ  19-مریضوں کے ساتھ مصروف ہے۔ اس صورتحال سے واقف ذرائع کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں کئی اموات ایسی ہوئی ہیں کہ جنکے بارے میں یہ شکایت ہیں کہ انہیں بر وقت علاج نہیں مل پایا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ سوموار کو شمالی کشمیر کے ہندوارہ میں ایک بزرگ شہری کی موت واقع ہوگئی جنکا تعلق کووِڈ  19- کے حوالے سے ایک ریڈ زون سے تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ شخص کو ہندوارہ کے سب ضلع اسپتال لایا گیا تھا تاہم انہیں علاج کی بہتر سہولیات دستیاب نہ ہوسکیں اور انکی جان چلی گئی۔ حالانکہ محکمہ صحت کے ایک اعلیٰ افسر نے ایسی شکایات کو بے بنیاد قرار دیا تاہم انہوں نے کہا ’’ایسا نہیں ہے کہ مریضوں کو علاج نہیں ملتا ہے لیکن ہاں اتنا ضرور ہے کہ ہمارا سارا نظام کرونا وائرس کو قابو کرنے میں لگا ہوا ہے‘‘۔
    بشیر احمد نامی ایک شخص نے بتایا ’’میں ذیابطیس کا مریض ہوں،ایک ماہ سے میں ڈاکٹر کے پاس نہ جاسکا،کچھ میں نے سرکاری ہدایات کے مطابق احتیاط بھی کی ہوئی ہے اور کچھ یہ وجہ بھی ہے کہ اسپتالوں میں انفکشن ہے اور خود ڈاکٹر حضرات بھی مریضوں کا ملاحظہ کرنے سے ڈر رہے ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ انہیں کئی پیچیدگیوں کا سامنا ہے لیکن وہ اسپتال نہیں جا پائے ہیں۔ جنوبی کشمیر کے ایک نوجوان منظور احمد نے بتایا ’’مجھے گلے میں تکلیف تھی اور کچھ بخار بھی لگ رہا تھا،میں نزدیکی بلاک اسپتال پر دکھانے کیلئے گیا تو ڈاکٹر صاحب نے کوئی پندرہ فٹ دور رہ کر تکلیف کے بارے میں پوچھا اور آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی،وہ مجھ سے ڈر رہے تھے‘‘۔فیس بُک پر کئی لوگ اپنے بچوں،بوڑھے والدین یا ازواج کی تکالیف کا ذکر کرتے ہوئے پوچھ رہے ہیں کہ کہیں کوئی ڈاکٹر آں لائن تو نہیں ہے جو انہیں مشورہ دے۔کئی ڈاکٹر لوگوں کو مشورہ دیتے بھی ہیں لیکن کئی مریض بڑے بد قسمت ثابت ہورہے ہیں جیسا کہ نواز احمد نامی ایک نوجوان نے اس نامہ نگار کو بتایا ’’ایک طرف تالہ بندی کی وجہ سے نقل و حمل کی اجازت نہیں ہے تو دوسری جانب اسپتالوں میں عام مریضوں کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے،میں ایک گھنٹے سے فیس بُک پر امراضِ خواتین کی ڈاکٹر کے بارے میں پوچھ رہا ہوں جو میری بیمار بیوی کے بارے میں صلاح دیتیں،ابھی تک کوئی ماہرانہ مشورہ نہیں ملا ہے‘‘۔
    ڈویژنل کمشنر کشمیر پنڈورنگ پول نے غالباََ اسی صورتحال کے بارے میں جاننے کے بعد ماتحت ضلع کمشنروں کو یہ بات یقینی بنانے کی ہدایت دی ہے کہ غیر کووِڈ صحت سہولیات کو فعال بنانے کے ساتھ ساتھ مقامی کیبل اور دیگر ذڑائع کا استعمال کرکے لوگوں کے صحت اور نفسیاتی مسائل کا خیال رکھنے کی سعی کی جائے۔پول کے دفتر کے ایک افسر نے بتایا کہ اس بارے میں سبھی ضلع کمشنروں کو تحریری ہدایت دی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ جموں کشمیر میں کووِڈ 19-کیلئے کئی اسپتال مختص کئے گئے ہیں جبکہ دیگر طبی مراکز عام بیماروں کی خدمت کیلئے دستیاب ہیں۔ انہوں نے کہا ’’اگر کہیں پہ کوئی خامی ہو تو اسے دیکھا جائے گا،میرے خیال میں ہمارے یہاں سے تازہ ہدایات جاری رہنے کے بعد کہیں کوئی مسئلہ نہیں رہنا چاہیئے‘‘۔

    سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS