شاہد زبیری
ملک کے سب سے بزرگ اور جہاندیدہ سیاستدان کانگریس کے سابق چوٹی کے لیڈر اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی ( این سی پی ) کے بانی شرد پوار نے این سی پی کی 25ویں سالگرہ پر10جون کو اپنے طویل پیغام میں ملک کے موجودہ سیاسی ماحول کا موازنہ 1977کے سیاسی ماحول سے کرتے ہوئے جہاں بی جے پی پر ملک میں فرقہ پرستی اور دہشت پھیلانے کی سیاست کا الزام لگایا انہوں نے ملک میں خواتین، اقلیتوں اور دلتوں پر آئے دن ہونے والے مظالم کا ذکرکیا اور کہا کہ جب بھی بی جے پی اقتدار میں آتی ہے چھوٹے اور کمزور طبقات کے کا تحفظ خطرہ میں پڑجاتا ہے۔ اپنے پیغام میں شرد پوار نے کسانوں کی حالت پر بھی تشویش ظاہر کی اور کہا کہ آج ملک کا ہر شہری خواہ وہ کسان ہو، نوجوان اور خواتین ہوں یا دلت اور قبائلی ہوں سب جانتے ہیں کہ موجودہ حکومت ان کا تحفظ نہیں کرسکتی ۔پوار نے کہا کہ اسی لئے عوام نے سیاسی تبدیلی کیلئے اپنا ذہن بنا لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے حالات میں ہی 1977میں ملک میں ایک نیا ماحول بنا تھا اور جنتا پارٹی اقتدار میں آئی تھی۔ انہوں نے اپوزیشن اتحاد کو ضروری بتاتے ہوئے کہا کہ ان حالات میں 2024کے لوک سبھا کے انتخابات کیلئے مختلف نظریات کی جماعتوں کو ایک مشترکہ پروگرام کے تحت ہاتھ ملانا چاہئے۔ انہوں نے اس ضمن میںنتیش کمار کی قیادت میں اسی ماہ جون کی 23تاریخ کو اپوزیشن جماعتوں کی پٹنہ ( بہار) میں ہونے والی مجوزہ میٹنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کے سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں کے لوگ بہار میںملیں گے، ایک پروگرام طے کریں گے اور ملک کے سامنے ایک مشترکہ پروگرام رکھا جائے گا ۔
شرد پوار کے اس بیان نے جہاں اپوزیشن کے اتحاد پر اپنی مہر ثبت کی اور ایک امید بھی جگائی کہ مجوزہ 23جون کی میٹنگ میں اپوزیشن کا ایک مضبوط اتحاد وجود میں آجائے گا لیکن یہ مانا کہ امید پہ دنیا قائم ہے مگر امید اور خوش فہمی کے مابین جو فرق ہے اس کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا نا چاہئے یہ بھی درست ہے کہ کرناٹک میں کانگریس کی شاندار کا میابی نے یہ امید تو جگا ئی ہے کہ عوام کے ذہنوں سے مودی کے جا دوئی اثرات زائل ہورہے ہیں او ر سنگھ پریوار اور بی جے پی کی نفرت کی دکان بند ہوگئی ہے اور اقتدار کی چولیں ڈھیلی پڑ رہی ہیں لیکن یہ سوال ابھی اپنی جگہ قائم ہے کہ عوام کی خواہشوں کے علی الرغم اپوزیشن جماعتوں کے لیڈران کی انا اور خود پرستی و نجی مفادات کی دیوار منہدم ہو پائے گی اور 2024 میں بی جے پی کا مقابلہ کرنے کیلئے کوئی ایک مضبوط اپوزیشن اتحاد وجود میں آپائے گا اور کیا بی جے پی کے اقتدار کا محل زمیں بوس ہو پائے گا ؟اپوزیشن اتحاد کی بات تو اپنی جگہ کیا کانگریس کی صوبائی قیادت کے اندرونی جھگڑے اور رسّہ کشی ختم ہو پائے گی۔ راجستھان میں وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت اور سچن پائلٹ کے جھگڑے آئے دن سلجھتے اور الجھتے رہتے ہیں ،ہر چند کے چھتیس گڑ ھ میں کانگریس کے وزیر اعلیٰ بھوپیش بگھیل نے ٹی ایس بابا کو گھر بٹھادیا ہے لیکن اندرونی اختلافات وہاں بھی ہیں یہ صحیح ہے کہ بھوپیش بگھیل کی سرکار کے کاموں کے سبب وہاں کانگریس کی حالت مستحکم دکھائی پڑتی ہے مگرشراب گھوٹالہ میں ای ڈی کی جانچ بھو پیش بگھیل اور ان کے بیٹے کے پائوں کی زنجیر بنی ہوئی ہے اور بی جے پی دہلی شراب گھوٹالہ کی طرح اس کو بھی خوب اچھال ہی ہے ۔مدھیہ پردیش میں کانگریس کی حالت بہتر ہے پہلے بھی بہتر تھی تبھی توکانگریس نے وہاں اپنی سرکار بنانے میں کامیابی حاصل کی تھی بعد میں بی جے پی نے خریدو فروخت کے سہارے کمل ناتھ کی قیادت والی کانگریس سرکار گرادیا تھا اور شیو راج چوہان کے سر پر وزیر اعلیٰ کا تاج رکھا گیاتھا ۔
ان ریاستوں کے علاوہ باقی ریاستوں میں کانگریس کی حالت پتلی ہے دہلی،بنگال،تلنگانہ اور یوپی جیسی ریاستیں جہاں کبھی کانگریس کا سکہ چلتا تھا ان ریاستوں میں آج کانگریس بہت کمزور حالت میں ہے کرناٹک کی کامیابی نے ان ریاستوں میں مسلمانوں اوردلتوں میں کانگریس کی مقبولیت میں اضافہ ضرور کیا ہے لیکن کانگریس ان ریاستوں میں اقتدار میں لوٹنے کی حالت میں دور دور تک نہیں ہے۔ اسی لئے کانگریس نے اپوزیشن اتحاد کیلئے اس فارمولہ پر مبینہ طور پر اتفاق کرلیا ہے کہ جہاں کانگریس کمزور ہے وہاں وہ دوسری پارٹیوں کے امیدواروں کی حمایت کرے گی اور سیٹوں کے بٹوارے میں زیادہ حیل حجت نہیں کرے گی اور جہا ں کانگریس مضبوط ہے وہاں اس کی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے اپوزیشن اتحاد میں شامل جماعتیں کانگریس کے امیدواروں کی حمایت کریں گی، لیکن جس طرح کی خبریں فضاء میں تیر رہی ہیں اس سے تو نہیں لگتا کہ اس فارمولہ پر عمل ہو پائے گا۔ کرناٹک کی کامیابی نے دیگر اپوزیشن جماعتوں کے کان کھڑے کردئے ہیں ، کانگریس میں مسلمانوں اور دلتوں میں بڑھتی مقبولیت سے دہلی کے اروند کجریوال ،بنگال کی ممتا، تلنگانہ کے چندر شیکھر رائو اور یوپی میں سماجوادی پارٹی کے قائد اکھلیش یادو کانگریس کی جیت سے خوفزدہ ہیں وہ اسی لئے نتیش کمار کے اپوزیشن اتحاد کی کوششوں کے باوجود یہ لیڈران اپنی کھچڑی الگ پکا رہے ہیں ۔یوپی کی اگر بات کریں جہاں لوک سبھا کی سب سے زیادہ سیٹیں، 80 سیٹیں ہیں اس ریاست کی دوسری بڑی اپوزیشن جماعت بہوجن سماج پارٹی پہلے دن سے اس اپوزیشن اتحاد سے خود کو الگ کر کے چل رہی ہے۔ پارٹی سپریمو مایا وتی نے بلدیاتی انتخابات کے بعد لکھنؤ میں پارٹی کوآرڈینیٹرس اور اضلاع کے صدور کے اجلاس میں ’لوک سبھا کے انتخابات میں اکیلا چلنے‘ کا اعلان کر چکی ہیں ،سماجوادی پارٹی کے 9-10جون کی پارٹی ورکرس کی 2 روزہ ورک شاپ کی جو مختصر سی روداد اگلے دن بعض اخبارات میں آئی ہے اس سے یہ اندازہ بالکل نہیں ہوتا کہ اکھلیش یادو نے اس اپوزیشن اتحاد کے ایشو پر پارٹی لیڈروں اور کارکنان کے درمیان کو ئی بات رکھی ہو اکھلیش یادو 2022کے اسمبلی انتخابات کے نتائج سے پُر امیدہیں کہ ان کی پارٹی کو2022کے انتخابات میں ملنے والے 38فیصد ووٹوں میں مزید اضافہ ہو گا۔ اگر یو پی میں اپوزیشن کا اتحاد ممکن نہیں ہو پاتا تو یہ کہنا مشکل ہے کہ اکھلیش یادو کی پارٹی کو لوک سبھا میںاسمبلی انتخاب سے زیادہ ووٹ ملیں گے۔ بزعم خود اکھلیش یادو یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ وہ تنہا اپنے بول بوتے بی جے پی کا لوک سبھا کے انتخابات میں یو پی سے صفایا کر دیں گے جبکہ یہ بات ایک سے زائد مرتبہ ثابت ہو چکی ہے کہ سہ رخی مقابلہ کا فائدہ بی جے پی کو ہی ملتا ہے کسی دوسری پارٹی کو نہیں۔ اگر کانگریس اور دوسری چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ سماجوادی پارٹی کا اتحاد نہیں ہو پاتا تو مقابلہ سہ رخی بجا ئے چہار رخی ہو جائے گا۔بی ایس پی اور کانگریس بی جے پی کے نہیں سماجوادی پارٹی کے ووٹ بینک میں سیندھ لگا ئیں گے کیا اس کو روک پانا ممکن ہو گا۔ سب جانتے ہیں کہ دلّی کا راستہ یو پی سے ہو کر گزرتا ہے اسی لئے بی جے پی نے تہیہ کیا ہوا ہے کہ وہ یوپی کے قلعہ کا جان پر کھیل کر دفاع کرے گی۔
سماجوادی پارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے کانگریس مخالف رویہ کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل ہے کہ پٹنہ میں ہونے والی 23جون کی مجوزہ اپوزیشن لیڈران کی میٹنگ میں کوئی مضبوط اپوزیش اتحاد وجود میں آپائے گا۔ اگر یہ اتحاد یو پی میں نہیں قائم ہوتا تو بنگال،تلنگانہ اور دہلی جیسی ریاستوں کے اتحاد کا امکان کیسے ممکن ہے۔غیر مصدقہ اطلاعات تو یہ بھی ہیں کہ کانگریس نے یو پی میںاپوزیشن اتحاد کے پیش نظر اب بی ایس پی پر ڈورے ڈالنے شروع کردئے ہیں اس کی کوشش ہے کہ اگر یوپی میں کانگریس کا بی ایس پی سے اتحاد ہو جا تا ہے تو دلت اور مسلم ووٹ بی جے پی کویو پی لوک سبھا کے انتخابات میں دھول چٹادے گا اور بی جے پی جس کے قبضہ میں لوک سبھا کی 80میں سے 65 سیٹوں پر قبضہ ہے وہ بھی اس کے قبضہ سے نکل جا ئیں گی۔ یاد رہے کہ یوپی کے بلدیا تی انتخابات ایک سے زائد سیٹوں پر مسلمانوں کا زیادہ تر ووٹ کانگریس اور بی ایس پی کے کھاتہ میں گیا ہے شاید اسی کے پیش نظر کانگریس بی ایس پی سے ہاتھ ملانا چاہتی ہے اگر ایسا ہوتا ہے تو سماجوادی پارٹی تنہا پڑجا ئے گی۔یہ سارے امکانات اگر پیش نظر رہیں تو پٹنہ میں ہونے والی اپوزیشن اتحاد کے قائم ہو نے کی توقعات اور امکانات کم دکھائی پڑتے ہیں۔ کاش ایسا نہ ہو اور شرد پوار جیسے تجر بہ کار سیاستداں اور عوام کی اپوزیشن اتحاد کی توقعات پوری پائیں ۔
[email protected]