خواجہ عبدالمنتقم
اخبارات میں شائع ایک خبر کے مطابق حال ہی میں دہلی پولیس کمشنرنے دہلی ہائی کورٹ کے ایک حکم کی بجا آوری کے لیے ایک سرکلر جاری کیا ہے جس میں پولیس کے عملہ کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ ایف آئی آر اور چارج شیٹ میں مشکل اردو الفاظ استعمال نہ کریں۔ اس کی رو سے ایسے 383 الفاظ کوہٹا کر انگریزی و ہندی کے آسان الفاظ رکھنامطلوب ہے۔ان الفاظ میں کچھ ایسے الفاظ بھی شامل ہیں جنہیں لوگ آسانی سے سمجھ سکتے ہیں جیسے تعمیل الزام، جرم، ملزم،مجرم، ثبوت،ثابت، مخبر، قابض،قبضہ، ملاقات وغیرہ ۔ یہ مانا کہ ان الفاظ کے آسان مترادف الفاظ ہندی اور انگریزی میں بھی مل سکتے ہیںلیکن جب سب لوگ ان الفاظ کو سمجھتے ہیں تو ان الفاظ کو ہٹانے کی بات سمجھ میں نہیں آتی۔ہاں اگر ہٹانا ہی مقصود ہے تو ان اردو الفاظ کو بھی نئے ہندی و انگریزی مترادف الفاظ کے ساتھ استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔
یاد رہے کہ بہت سے اردو الفاظ آج بھی ہمارے بہت سے قوانین کے مسندتراجم میں موجود ہیں جیسے تعمیل،قبضہ، قابض، ثبوت، باطل، رد، حیثیت، گرفتار، وصیت، زنجیر وغیرہ۔ یہ الفاظ نہ صرف بہت آسان ہیں بلکہ مقبول عام بھی ہیں۔اس ترجمہ کی قانونی حیثیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسے صدر مملکت نے سرکاری زبان ایکٹ، 1963 کے تحت قانون کے مستند متن کے طور پر منظوری دی ہے۔ دریں صورت ان الفاظ اور مذکورہ بالا آسان اردو الفاظ کا استعمال نہ کرنے کی ہدایت دینا کسی حد تک پیشہ ورانہ ضابطۂ اخلاق کے مدنظر بھی قرین مصلحت نہ ہوگا۔ویسے بھی آئین کی دفعہ 351،جو ہندی زبان کو فروغ دینے سے متعلق ہے، خود اس میں یہ بات کہی گئی ہے کہ دوسری زبانوں میں استعمال ہونے والی تراکیب، اسلوب اور اصطلاحات کو اپناتے ہوئے اور سنسکرت و دوسری زبانوں سے الفاظ اخذ کرکے ہندی کو مالا مال کیا جائے۔
اردو اور عدلیہ کے ما بین ایک ایسا ناقابل انقطاع رشتہ ہے جو کئی صدیوں تک خاص کر 19ویں اور 20ویں صدی میں لازم وملزوم کے طور پر قائم رہا اور یہ رشتہ تب تک قائم رہے گا جب تک مغلیہ یا برطانوی ادوار حکومت میںجاری فرمانوں، احکامات، فیصلہ جات اور تکمیل شدہ دستاویزات کو شہادت کے طور پر پیش کیا جاتا رہے گا خواہ ان میں عربی، فارسی اور انگریزی الفاظ کی تعداد کتنی ہی کیوں نہ ہو؟ پولیس عملہ کو سرکلر کے مطابق عمل کرنے کی ہدایت دینا اور وہ بھی عدلیہ کی حکم کی بجاآوری کے لیے،کمشنر کی صوابدید پر منحصر ہے اور اس پر عمل کرنا پولیس عملہ کا فرض منصبی ہے لیکن اردو قانونی اصطلاحات کی ممکنہ حد تک جانکاری پولیس کے لیے بھی اپنے فرائض کی ذمہ داری میں کافی مدد گار ثابت ہو سکتی ہے چونکہ ان دستاویزات کے تئیں مختلف فریقین کے مختلف دعوؤں کے سبب بہت سے فوجداری تنازعات پیدا ہو جاتے ہیں۔
مغلیہ دور میں اس طرح کی دستاویزات ابتداً فارسی میں لکھی جاتی تھیں۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ یہ دستاویزات اردو کے ارتقا کے دوران فارسی و اردو یعنی ملی جلی زبان میں لکھی جانے لگیں۔ اس کے بعد وہ دور آیا جب یہ دستاویزات صرف اردو میں لکھی جانے لگیں اور آج بھی انہیں اردو میں لکھنے اور قدیم مروجہ اردو الفاظ استعمال کرنے پر کوئی پابندی نہیں لیکن اردو میں لکھے جانے والی دستاویزات میں بھی بیشتر الفاظ عربی و فارسی کے ہی رہے ہیں اور آج بھی ہماری عدالتوںاور مختلف علاقائی زبانوں میں مدعی، مدعا علیہ، عرضی، عرضی دعویٰ، جواب دعویٰ، جواب الجواب، عدالت، شہادت، شکایت، سماعت، تفتیش، تعمیل، تکمیل، مثل، دریافت، ترمیم، استغاثہ بیع نامہ، رہن نامہ، منظوری، خارج، حکم، فیصلہ، ہدایت، نقشۂ مرگ، فرد مقبوضگی آلۂ جرم، فرد مقبوضگی پارچات خون آلود وغیرہ جیسے سیکڑوں الفاظ استعمال کیے جارہے ہیں اور پولیس عملے کو اس ضمن میں پولیس ٹریننگ مراکز میں باقاعدہ تربیت بھی دی جاتی ہے جس کا ہم خود بھی حصہ رہے ہیں۔جناب وی کے مہیشوری سابق رجسٹرار جنرل اتراکھنڈ ہائی کورٹ اور اترپردیش کی اعلیٰ جوڈیشری کے ایک اعلیٰ افسر نے 2017 میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے زیر اہتمام منعقدہ عالمی اردو کانفرنس میں پڑھے گئے مقالے بعنوان ’عدالتوں میں اردو زبان کا استعمال ‘ میں بڑے واضح الفاظ میں یہ بات کہی تھی کہ ’ عدلیہ میں مدعی، مدعا علیہ ، مستغیث، فریقین،قطعی سماعت، تنقیح، گواہ، طلب کرنا، طلبانہ الفاظ کا استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ میرے ذہن میںابھی بھی ضابطہ دیوانی،ضابطہ فوجداری،جج خفیفہ،مقر،جانب، مبلغ، اجرا، مدت،میعاد،حسب ہدایت،تصدیق وغیرہ جیسے کتنے ہی الفاظ تا ہنوز موجود ہیں۔میں حسب موقع ان کا استعمال کرتا رہتا ہوں ۔عدلیہ سے وابستہ ہر ِشخص کو، خواہ اسے اردو آتی ہو یا نہ آتی ہو، ان الفاظ کی جانکاری ضرور ہوتی ہے‘۔
مذکورہ بالا 383الفاظ کی فہرست میں کچھ ایسے الفاظ بھی شامل ہیں جن کااستعمال تقریباًختم ہوچکاہے یا متروک ہوچکے ہیں یا ان کا شاذ و نادر ہی استعمال ہوتا ہے جیسے بقلم خود، اشتہار شور غوغا، فریادی،مسمی، مسماۃ، قلمبند، نان نفقہ وغیرہ ۔ اگر دقیق الفاظ کا استعمال عوام و شکایت کنندگان کی آسانی کے لیے ختم کیا جاتا ہے تو اس میں کوئی ہرج نہیں البتہ اگر انہیں کچھ لوگ اس نیت سے نکالتے ہیں کہ اردو کو مٹا دیا جائے تو یہ بری بات ہے۔عدالتیں جو فیصلے دیتی ہیں، ان سے بھی یہ توقع کی جانی چاہیے کہ وہ بھی اپنے فیصلوں میںایسی زبان استعمال کریں جسے عوام آسانی سے سمجھ سکیں۔ وہ بھی فیصلوں میں لاطینی مفروضوں اور غیر مستحب فقرہ جات (non obstantante clauses) جو عام طور پر انگریزی لفظ notwithstandingسے شروع ہوتے ہیں،کا استعمال کرتے ہیں جس سے کم پڑھ لکھے لوگوں کو فیصلہ کو سمجھنے میں دقت پیش آتی ہے اور حیرت کی بات ہے کہ جب کئی سال قبل انگلینڈ میں منعقدہ ایک کانفرنس میں اس طرح کے فقرہ جات کے استعمال کو روکنے کی تجویز ماہرین قانون کے سامنے رکھی گئی تھی تو انہوں نے اس کی مخالفت کی ۔ویسے بھی ہر جج کا اپنا اپنا سوچنے کا انداز ہوتا ہے ۔ ایک جج یہ چاہتا ہے کہ بدلتے ہوئے حالات میں اب اردو کے بجائے ہندی الفاظ استعمال کیے جائیں تو دوسری جانب کچھ ایسے جج بھی ہیںجنہیں عاشقان اردو کا درجہ حاصل رہا ہے جیسے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مارکنڈے کاٹجو اور دہلی ہائی کورٹ کے سابق جج و ہماچل پردیش ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس وی ڈی مشرا۔
کچھ ریاستوں میں عدلیاتی ونیم عدلیاتی اداروں، محکمۂ پولیس وغیرہ میں اردو الفاظ کی جگہ ہندی یا علاقائی زبانوں کے الفاظ استعمال کرنے کی ہدایات وقتاً فوقتاً جاری کی جاتی رہی ہیں مگر تاہنوز ان ریاستوں میں بھی ان الفاظ کا استعمال برابر جاری ہے۔ جس طرح روم کی تعمیر ایک دن میں نہیں ہوسکی تھی، اسی طرح روم کا انہدام بھی ایک جھٹکے میں نہیں ہوسکتا۔
اس پر صحیح طور پر تب ہی عمل ہو سکتا ہے جب ایسے افراد پر مشتمل کمیٹی کی تشکیل کی جائے،جنہیں اردو، ہندی اور انگریزی قانونی اصطلاحات اور تینوں زبانوں میں مستعمل قانونی اصطلاحات کی معقول جانکاری ہو اور وہ اس بات کا فیصلہ کریں کہ کن الفاظ کو رکھنا ہے اور کن الفاظ کو نہیں، ورنہ جس مقصد سے ان الفاظ کو ہٹایا جارہا ہے وہ مقصد کبھی نہیں پورا ہو گا اور یہ کوشش سعی لا حاصل ثابت ہوگی۔
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]