ڈاکٹرحافظ کرناٹکی
اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک رکن حج ہے۔ اسلام صرف دین فطرت ہی نہیں ہے یہ روحانی ترقی اور سرفرازی کا بھی ایک اہم ذریعہ ہے۔ اسلام اور اسلامی احکامات پر غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ یہ انسان کو ظاہری طور پر تو ایک مہذب اور باوقار انسان بناتا ہی ہے، باطنی طور پر بھی اسے پاکیزہ بناتا ہے۔
شریعت کے جتنے قوانین اور احکام ہیں سب میں یہ بات پوشیدہ ہے، بس فرق یہ ہے کہ ہم اسے ٹھیک سے سمجھتے نہیں ہیں۔ حج اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے اور ایک بڑی عبادت بھی ہے۔ یہ عبادت پوری زندگی میں ایک بار فرض ہے۔ حضورؐ نے فرمایا ہے کہ جس شخص نے استطاعت رکھتے ہوئے زندگی میں ایک بار بھی حج نہیں کیا اور وہ مرگیا تو اس کی موت یہودی اور نصرانی کی موت کی طرح ہے۔ ایک اور جگہ فرمایا ہے کہ جس شخص نے حج کیا اور پھر ہر طرح کے گناہ کبیرہ سے اپنے آپ کو بچائے رکھا تو پھر وہ اس طرح پاک ہوجاتا ہے گویا ماں کے شکم سے ابھی ابھی پیدا ہوا ہے۔
حج کی اہمیت اور اس کے فیوض و برکات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ حضورؐ نے فرمایا کہ؛ بہت سارے گناہ ایسے ہیں کہ عرفات میں کھڑے ہونے کے سوا کوئی چیز اس کا کفارہ نہیں ہے۔ اور پھر فرمایا کہ عرفہ کے دن سے زیادہ شیطان کبھی ذلیل و خوار نہیں ہوتا کیوں کہ اس دن اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں پر بے انتہا رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ اور بے انتہاگناہ معاف فرماتا ہے۔ اور حضورؐ نے فرمایا کہ جو شخص حج کے ارادہ سے گھر سے نکلتا ہے اور راہ میں اس کی موت ہوجاتی ہے تو قیامت تک اس کے نامۂ اعمال میں ایک حج اور ایک عمرہ ہر سال لکھا جاتا ہے اور یہ بھی فرمایا کہ جو شخص کعبہ شریف یا مدینہ شریف میں پہونچ کر انتقال کرجاتا ہے وہ قیامت کے دن حساب کتاب سے پاک ہے۔حضورؐ نے فرمایا؛ ایک حج مبرور دنیا و مافیھا سے بہتر ہے۔ بہشت کے سوا اور کوئی چیز اس کی جزا نہیں ہے۔ہم جانتے ہیں کہ اللہ ہر انسان کے ساتھ اس کے گمان کے مطابق برتاؤ کرتا ہے، اس لیے جب کوئی شخص حج کا ارادہ کرے تو اسے اپنے اندر یہ یقین پیدا کرلینا چاہیے کہ اس کا حج قبول ہوگا اور انشاء اللہ وہ حج کے طفیل اپنے سارے گناہوں سے پاک ہوجائے گا۔ اس کو اس طرح بھی سمجھایا جاسکتا ہے کہ دراصل سارے احکام خداوندی کی تکمیل کا دارومدار ایمان و عقیدے کی پختگی پر ہے۔ جس کا یقین اور عقیدہ جتنا زیادہ مضبوط ہوگا وہ اللہ اور رسولؐ کے حکموں پر اسی قدر اعتماد اور خلوص سے عمل کرے گا اور ان حکموں کی تکمیل کی جو جو بشارتیں دی گئی ہیں ان کے پورے ہونے پر بھی اسی قدر اس کا یقین مضبوط ہوگا۔ حضورؐ نے فرمایا ہے کہ؛ اس سے بڑھ کر اور کوئی گناہ نہیں کہ آدمی حج میں مقام عرفات میں کھڑا ہو اور گمان کرے کہ وہ بخشا نہیں گیا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جس عبادت کا اجر جو کچھ بیان کیا ہے اس پر کامل یقین رکھناچاہیے، مومن کو اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہوناچاہیے۔ کیوں کہ اللہ کی رحمت کب کس شکل میں نازل ہوگی کوئی نہیں جانتا ہے۔
حضورؐ نے فرمایاہے کہ؛’’اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ ہر سال چھ لاکھ بندے حج کے ذریعہ خانہ کعبہ کی زیارت کریں گے، اگر کم ہوں گے تو فرشتے بھیج دیے جائیں گے کہ چھ لاکھ پورے ہوجائیں۔ اور کعبہ شریف کو عروس جلوہ آراکے مانند اٹھائیں گے، حاجی اس کے گرد پھرتے اور اس کے پردوں پر ہاتھ مارتے ہوں گے یہاں تک کہ کعبہ شریف جنت میں داخل ہوجائے گا اور حاجی بھی اس کے ساتھ جنت میں چلے جائیں گے۔‘‘حج ایک ایسا رکن اسلامی ہے جس کو بلاعذر چھوڑ نے سے آدمی کا ایمان ادھورا اور ناقص رہ جاتا ہے۔ اسی لیے حج میں بہت ساری آسانیاں پیدا کردی گئی ہیں۔ مثلاً کوئی شخص خود کسی شرعی معذوری کی وجہ سے حج نہ کرسکتا ہو تو اس کے عوض حج بدل کا انتظام کرسکتا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں کسی وجہ سے حج نہیں کرسکا تو سہولت اور استطاعت کے بعد اس کے بیٹے کو ضرور حج کرناچاہیے۔
حج کا بھی ایک وقت مقرر ہے۔ عیدالفطر کے بعد سے حج کا احرام باندھنا درست ہے۔ اگر کسی نے اس سے پہلے ہی احرام باندھ لیا تو احرام حج کا نہیں عمرہ کا احرام ہوگا۔ عاقل اور بالغ لڑکا یا لڑکی حج کر سکتی ہے۔ اگر کوئی چھوٹا، بچہ ہو، یا شیر خوار بچہ ہو تو اس کی طرف سے اس کاولی یا والد حج کرسکتا ہے۔ حج کی درستی کے لیے وقت کی پابندی بے حد ضروری ہے۔ حج کے لیے بھی پانچ شرطیں ہیں۔ اوّل مسلمان ہونا، دوم آزاد ہونا، سوم بالغ ہونا، چہارم عاقل ہونا، پنجم وقت پر احرام باندھنا، حج کے واجب ہونے کی تین شرطیں ہیں۔ اوّل مسلمان ہونا، دوم بالغ ہونا، سوم استطاعت ہونا۔ استطاعت کی بھی دو قسمیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی توانا ہو کہ خود چل کر حج کرسکے۔ اس کی بھی تین شرطیں ہیں۔ اوّل تندرستی، دوم راستے کا پرامن اور بے خطر ہونا۔ سوم اس قدر مال دولت ہونا کہ اگر قرضدار ہو تو قرض ادا کرکے آنے جانے کا خرچ اور حج سے لوٹنے تک اہل و عیال کی کفالت کے لیے مال کافی ہو۔ دوسری قسم یہ ہے کہ وہ معذور ہو، فالج زدہ ہو، یا ایسا بیمار اور صاحب فراش ہو کہ صحت کی امید نظر نہ آتی ہو تو ایسے شخص کی استطاعت میں یہ شامل ہے کہ اس کے پاس اتنا مال ہو کہ ایک وکیل یا نائب کو اجرت دے کر روانہ کرے جو اس معذور کی طرف سے حج کرے اور اگر اس کا بیٹا اس کی طرف سے مفت حج کرنے کو راضی ہو تو ضروری ہے کہ باپ اپنے بیٹے کو اجازت دے، کیوں کہ باپ کی خدمت کرنا بیٹے کے لیے لازم ہے۔ اور عزت کا باعث ہے اور اگر بیٹا خود جانے کو راضی نہ ہو اور کہے کہ میں پیسہ دیتا ہوں کسی کو بھیج کر حج کروالیجئے تو باپ کو چاہیے کہ انکار کردے۔ کیوں کہ اس طرح باپ پر بیٹے کا احسان ہوگا۔ اگر کوئی غیربھی کہے کہ میں آپ کی طرف سے مفت میں حج کر آتا ہوں تو بھی انکار کردے کیوں کہ کسی دوسرے کا احسان لینا مناسب نہیں ہے۔ آپ نے غور فرمایا کہ اسلام احکام شریعت کی ادائیگی میں بھی عزت نفس اور وقار کا کس قدر خیال رکھتا ہے۔
حج کی تکمیل کے لیے بھی پانچ ارکان کی پابندی ضروری ہے۔ اوّل احرام باندھنا، دوم طواف کرنا، سوم سعی کرنا، چہارم عرفات میں کھڑا ہونا، پنجم بال منڈوانا۔’’حج کی نیت اس طرح کرے؛ اے اللہ میں حاضر ہوں حج اور عمرہ کے لیے۔‘‘ اس طرح نیت کرنے سے حج اور عمرہ دونوں ہو جائے گا۔
سچ یہ ہے کہ حج کا ارادہ کرنے سے پہلے ہی انسان کو چاہیے کہ کثرت سے توبہ استغفار کرے۔ سارے گناہوں سے اپنے آپ کو پاک کرے، جن لوگوں کو تکلیف پہونچی ہو یا ایسا لگتا ہو کہ کسی کے ساتھ جانے انجانے کچھ زیادتی اور ناانصافی ہو گئی ہوگی ان لوگوں سے معافی مانگ لے۔ کسی کا کوئی قرض ہو تو ادا کردے، کسی کی امانت ہو تو اسے لوٹا دے، بیوی، بچوں، ماتحتوں اور ملازموںکا اس پر جونان نفقہ یاتنخواہ ہو وہ اسے اداکردے۔ ہوسکے تو وصیت نامہ بھی تیار کردے۔ حج کا سارا انتظام حلال کی کمائی سے کرے، جس مال میں ذرا بھی شبہ ہو اسے ہاتھ نہ لگائے کیوں کہ مشکوک مال خرچ کرکے حج کرے گا تو خوف رہے گا کہ شاید حج قبول نہ ہو۔ رخصت کے وقت اتنا مال اپنے ساتھ لے کر چلے کہ راستے میں فقرا، مساکین اور غریب لوگوں کے ساتھ سلوک کرسکے، گھر سے نکلتے وقت سلامتی کے لیے کچھ صدقہ خیرات کردے۔ سفر کے لیے ایسا ذریعہ استعمال کرے جو محفوظ اور تیز رفتار ہو۔ قلی کو پوری مزدوری ادا کرے۔ ممکن ہو تو ایسا ہمراہی منتخب کرے جو دیندار اور احکام شریعت کاجاننے والاہو۔ دوستوں سے وداعی لے اور ان سے دعا کرنے کی درخواست کرے اور ہر ایک سے کہے ’’میں اللہ کے حوالے کرتا ہوں، تیرا دین تیری امانت اور تیرا انجام کار، اور اگر ممکن ہو تو یہ لوگ اسے اس مستحب طریقے سے جواب دے۔ ترجمہ؛ اللہ نگہبانی اور یاری میں توشہ دے تجھے، پرہیز گاری کا اور بچائے تجھے ہلاکت سے اور بخشے تیرا گناہ اور متوجہ کرے تجھے نیکی کی طرف جدھر بھی توتوجہ کرے۔‘‘اور جب گھر سے نکلے تو دو رکعت نماز پڑھ لے اور اخیر میں یہ دعا پڑھے؛’’ترجمہ: اے اللہ تو ساتھی رہے سفر میں اور توقائم مقام ہے گھروالوں اولاد اور مال میں بچاہمیں اور ان کو ہر بلا سے اے اللہ میں مانگتا ہوں تجھ سے اپنے اس سفر میں فرماں برداری، پر ہیزگاری اور وہ کام جس سے توراضی ہو۔‘‘
اور گھر کے دروازے پر پہونچے تو کہے؛’’ترجمہ: اللہ کے نام سے شروع کرتاہوں سفر، اللہ کے نام پر بھروسہ کیا میں نے، اے اللہ توشہ دے مجھے پرہیزگاری کا اور بخش دے میرے لیے میرے گناہ اور متوجہ کرنیکی کی طرف جدھر میں متوجہ ہوں۔‘‘
اور جب سواری پر سوار ہو تو کہے؛’’ترجمہ؛ اللہ کے نام سے اور اللہ کے ساتھ، اللہ بہت بڑا ہے، پاک ہے جس نے مسخر کر دیا ہمارے لیے اسے اور نہیں تھے ہم اس پر قدرت رکھنے والے، بے شک ہم اپنے پروردگار کی طرف پھرنے والے ہیں۔‘‘
سفر حج پر روانہ ہونے کا مطلب ہی ہے کہ انسان اپنے رب کو خوش کرنے کے لیے گھر سے نکلا ہے۔ اس لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ سارے راستے میں قرآن کریم کی تلاوت کرتا رہے۔ ذکر الٰہی میں مشغول رہے۔ اپنے رب کی حمد و ثنا میں مگن رہے۔ جب بلندی پر سے گزرے تو کہے؛ ترجمہ: اے اللہ تیرے ہی لیے ہے بزرگی سب بزرگوں پر اور تیرے ہی لیے شکر ہے ہر وقت۔
جب میقات میں پہونچے تو پہلے غسل کرے، بال اور ناخن کاٹے اور سلے ہوئے کپڑے اتار ڈالے، سفید چادر اور تہبند باندھے اور احرام سے پہلے خوشبو کا اہتمام کرے اور جب چلنے کے لیے کھڑا ہو تو حج کی نیت کرے اور کہے؛’’ترجمہ: حاضر ہوں میں اے اللہ حاضر ہوں میں، نہیں ہے تیرا کوئی شریک، حاضر ہوں، بے شک سب تعریفیں اور نعمتیں تیرے لیے ہے، نہیں ہے کوئی شریک تیرا۔‘‘
جہاں تک ممکن ہو سفر میں اس کلمات کو دہراتارہے، جب کعبہ شریف کے قریب پہونچ کر قیام کرے تو غسل کرے، حج میں کئی وجہوں سے غسل کرنا سنت ہے۔ مثلاً احرام باندھنا، مکہ میں داخل ہونا، طواف زیارت، مقام عرفہ اور مزدلفہ میں حاضری وقیام اور تین غسل تین جمروں کو پتھر پھینکنے کے لیے۔ اور طواف وداع کے لیے، جب غسل کر کے مکہ معظمہ میں داخل ہو اور بیت اللہ شریف پر نگاہ پڑے تو فوراً پڑھنا شروع کردے؛’’ ترجمہ: کوئی معبود نہیں ہے مگر اللہ اور اللہ بہت بڑا ہے۔ اے اللہ تو سلام ہے اور تجھی سے سلامتی ہے۔ اور تیرا گھر ہی سلامتی اور برکت والا ہے۔ تو اے بزرگی اور عزت والے اللہ یہ گھر تیرا ہے، عظمت دی تو نے اسے اور شرافت دی تونے اس کو اور کرامت دی تونے اسے اے اللہ اور بڑھا اس کی تعظیم اور زیادہ کر اس کی تکریم اور زیادہ کر اس کی عظمت اور زیادہ کرنیکی وبزرگی اس شخص کی جس نے اس کا حج کیا۔ اے اللہ کھول دے میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے اور داخل کر مجھے اپنی جنت میں اور پناہ دے شیطان مردود سے۔‘‘
پھر مسجد حرم میں داخل ہو اور حجر اسود کے بوسہ کا ارادہ کرے، اگر بھیڑ بہت زیادہ ہو اور حجر اسود کو بوسہ دینے کا موقع نہ ہو تو اس کی طرف ہاتھ بڑھائے اور کہے؛’’ترجمہ: اے اللہ اپنی امانت میں نے ادا کی، اور اپنا عہد وفا کیا تو میرے حق گذاری کا گواہ رہ۔‘‘
اس کے بعد طواف کعبہ میں مشغول ہوجائے۔ ہمیں یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ نماز کی جو شرائط ہیں تقریباً وہی شرائط طواف کے لیے بھی ہیں۔ یعنی بدن پاک ہونا چاہیے، کپڑوں کو پاک ہونا چاہیے، ستر عورت چھپارہنا چاہیے، طواف حجر اسود سے شروع کرنا چاہیے۔ اور جب طواف شروع کرے تو یہ دعا پڑھنی چاہیے؛
’’ترجمہ: اے اللہ یہ طواف تجھ پر ایمان تیری کتاب کی تصدیق تیرے عہد کی وفا اور تیرے نبی محمدؐ کی اتباع کے لیے ہے۔‘‘
طواف کرتے ہوئے جب خانہ کعبہ کے دروازے پر پہونچے تو یہ دعا پڑھے؛
’’ترجمہ: اے اللہ یہ گھر تیرا گھر ہے، اور یہ حرم تیر احرم ہے اور امن تیرا امن ہے اور یہ جگہ ہے اس کی جو پناہ لینے والا ہے تیرے ساتھ آگ سے۔‘‘
اور جب رکن عراقی پر پہونچے تو یہ دعا پڑھے؛
’’ترجمہ: اے اللہ پناہ مانگتا ہوں میں تجھ سے شک، شرک، نفاق، دشمن اور برے اخلاق اور بری نگاہ سے گھر والوں اور مال اور اولاد کے لیے۔‘‘
اور جب رکن شامی پر پہونچے تو یہ دعا پڑھے؛
’’ترجمہ: اے اللہ اس حج کو مقبول بنا اور سعی و کوشش کو کامیاب فرما اور گناہ بخش دے اور ایسی تجارت عطا کرجو تباہ نہ ہو، اے غالب، اے بخشنے والے تو بخش دے اور رحم فرما اور جو کچھ تو جانتا ہے اس سے درگذر فرما، تو بہت عزت والا اور بڑا کریم ہے۔‘‘
اور جب رکن یمانی پر پہونچے تو یہ دعا پڑھے؛
’’ترجمہ: اے اللہ میں پناہ مانگتا ہوں تجھ سے تیرے پاس کفر سے اور محتاجی اور عذاب قبر سے اور زندگی وموت کے فساد سے اور پناہ مانگتا ہوں میں رسوائی سے دنیا اور آخرت میں۔‘‘
اور رکن اور حجراسود کے درمیان یہ دعا پڑھے؛
’’ترجمہ: اے اللہ! ہمارے پروردگار دے ہم کو دنیا اور آخرت میں نیکی اور بچا ہم کو اپنی رحمت کے طفیل عذاب قبر اور عذاب دوزخ سے۔‘‘
اسی طرح دعا پڑھتے ہوئے سات بار طواف کرے، ہر بار یہی دعا پڑھے، یادر ہے کہ طواف کے ہر چکر کو شوط کہتے ہیں تین شوط میں جلدی یعنی ذرا تیزی کے ساتھ چلے، اگر خانہ کعبہ کے پاس ہجوم ہو تو ذرا فاصلے سے ہی طواف کرے تا کہ جلدی جلدی چل سکے اور آخر کے چار شوط یعنی چار طواف میں آہستہ آہستہ چلے۔ اگر ممکن ہو تو ہر بار حجراسود کو بوسہ دے رکن یمانی پر ہاتھ پھیرے، اگر ہجوم کی وجہ سے ہاتھ نہ پھیر سکے تو اس طرف ہاتھ بڑھائے یعنی ہاتھ سے اشارہ کرے، جب ساتوں شوط یعنی طواف کے ساتوں چکر مکمل ہو جائیں تو بیت اللہ اور حجراسود کے درمیان کھڑا ہو کر پیٹ، سینہ اور داہنارخسار کعبہ شریف کی دیوار سے لگادے اور دونوں ہتھیلیاں دیوار پر رکھ کر اس پر سر رکھے یا کعبہ شریف کے آستانہ پر رکھے اسی مقام کو مقام ملتزم کہتے ہیں۔ اس جگہ پر دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ حاجی جو دعا چاہے مانگے ویسے یہ دعا مقبول ہے؛
’’ترجمہ: اے اللہ اے بزرگ ومحترم گھر کے پروردگار آزاد کردے میری گردن دوزخ کی آگ سے اور پناہ دے مجھے ہر برائی سے اور قناعت دے مجھے اس چیز پر جودی تونے مجھے، اور برکت عطا کر اس چیز میں جو تونے دی مجھے۔‘‘
پھر درود شریف پڑھے اور استغفار کرے اور مراد مانگے جو مانگنا چاہے، پھر دورکعت نماز پڑھے اس کو دوگانہ طواف کہاجاتا ہے۔ اسی سے طواف مکمل ہوتا ہے۔یہاں سے فارغ ہو کر چاہیے کہ حاجی صفا نامی پہاڑ کی طرف جائے اور اتنی بلندی پر پہونچے کہ خانہ کعبہ نظر آنے لگے اور جب کعبہ شریف نظر آئے تو اس کی طرف متوجہ ہو کر یہ دعا پڑھے؛
’’ترجمہ: نہیں ہے کوئی معبود مگر اللہ وحدلاشریک، اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اسی کی حاکمیت ہے اور اسی کے لیے تعریف ہے۔ وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے۔ وہ زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اس کو موت نہیں ہے، اسی کے ہاتھ میں خیر ہے اور وہ ہر چیز پر قادرہے، کوئی معبود نہیں ہے سوائے اللہ کے، اور سچا ہے وعدہ اس کا، مدد کی اس نے اپنے بندے کی اور عزت دی اپنے لشکر کو اور اس نے اکیلے شکست دی لشکروں کو نہیں ہے کوئی معبود اللہ کے سوا، اللہ خالص اور پاک کرنے والا ہے، دین کو اگر چہ کافر نہیں سمجھتے ہیں۔‘‘
یہاں پر دعا کرنا چاہیے جو کچھ کہ دل میں ہو کیوں کہ اس مقام پر بھی دعا قبول ہوتی ہے۔ پھر وہاں سے اترے اور سعی کرے کوہ مروہ تک پہلے آہستہ آہستہ چلے اور یہ دعا پڑھے؛
’’ترجمہ: پرودگار بخش، اور رحم اور درگذرفرما اس چیز سے جو تو جانتا ہے، بے شک تو بڑی عزت والا اور بڑا کریم ہے۔ اے اللہ اے ہمارے پروردگاردے تو ہمیں دنیا میں نیکی اور آخرت میں نیکی اور بچا ہم کو آگ کے عذاب سے۔‘‘
حاجیوں کے لیے ضروری ہے کہ ترویہ کے دن آٹھ ذی الحجہ کو مکہ سے نکل کر منیٰ میں رات گذارے دوسرے دن عرفات جائے اور خیال رہے کہ عرفہ میں وقوف کا وقت عرفہ والے دن کے زوال کے بعد سے لے کر عید کی صبح تک ہے۔ اگر حج کے بعد کوئی شخص پہونچے گا تو اس کا حج فوت ہو جائے گا۔ عرفہ کے دن حاجیوں کو چاہیے کہ غسل کرے اور ظہر و عصر کی نماز ملا کر پڑھے اور دعا میں مشغول ہوجائے۔ اس مقام پر بھی دعا ئیں قبول ہوتی ہیں۔
عرفات کے بعد حاجی حضرات مزدلفہ جائیں اور غسل کریں اس لیے کہ مزدلفہ حرم میں داخل ہے، یہاں مغرب کی نماز عشا کی نماز کے ساتھ پڑھیں، اگر ممکن ہو تو اس رات مزدلفہ میں پوری رات عبادت کرے اور منیٰ میں پھینکنے کے لیے کنکر یاں جمع کرے ، رات کے آخری حصے میں منیٰ کاارادہ کرے، فجر کی نماز اوّل وقت میں پڑھے اور جب مزدلفہ کے اخیر میں جسے مشعرالحرام کہتے ہیں پہونچے تو روشنی پھیلنے تک ٹھہرے اور خوب خوب دعائیں مانگتارہے۔ پھر عید کی صبح کو کبھی اللہ اکبر کہے اور کبھی لبیک یہاں تک کے جمرۃ العقبہ پر پہونچ جائے اور جب آفتاب تھوڑا بلند ہوجائے تو سات پتھر اس جمرہ میں پھینکے اور اللہ اکبر کہے۔ پتھر پھینکتے وقت یہ دعا پڑھے۔’’ترجمہ: اے اللہ یہ پتھر پھینکنا تیری کتاب کی تصدیق اور تیرے نبیؐ کی سنت کے اتباع کے لیے ہے۔‘‘
ایام تشریق کے آخری روز کی صبح تک فرض نمازوں کے بعد اللہ اکبر، اور لبیک کہا کرے، اور پھر جاکر اپنی قیام گاہ میں دعا میں مشغول ہوجائے اور قربانی کرے، اور اس کی شرائط کا پورا پورا خیال رکھے۔ جب واپسی کا ارادہ کرے تو اپنا اسباب درست کرے اور وداعی طواف کرے اور ملتزم میں جاکر دعا کرے اورکعبہ شریف کو دیکھتا ہوا الٹاپاؤں پھرے یہاں تک کے مسجد سے باہر آجائے۔
اس کے بعد مدینہ منورہ جائے، کیوں کہ حضورؐ نے فرمایا ہے کہ؛ ’’جو میری زیارت کرے گا گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی، ایک اور جگہ حضورؐ نے فرمایا ہے کہ؛ جو کوئی مدینہ میں آئے اور زیارت کے سوااس کی کوئی غرض نہ ہوتو حق تعالیٰ کے نزدیک اس کا حق ثابت ہوجاتا ہے۔ اللہ مجھے اس کا شفیع کرے گا۔
مدینہ منورہ کے راستے میں کثرت سے درود شریف پڑھنے کا اہتمام کرناچاہیے اور مدینہ منورہ کے درودیوار نظر آنے لگیں تو یہ دعا پڑھنی چاہیے؛ ’’ترجمہ؛ اے اللہ یہ حرم ہے تیرے رسول کا، پس تو میری حفاظت فرما، دوزخ کے عذاب سے اور حساب سے‘‘
مدینہ منورہ میں داخل ہونے کے بعد غسل کرے، سفید لباس پہنے اور خوشبو لگائے اور جب تک مدینہ میں رہے نہایت انکسارکے ساتھ رہے، اور یہ دعا پڑھے؛ ترجمہ؛ اے اللہ داخل کرتو مجھے اچھی طرح اور نکال تو مجھ کو اچھی طرح اور کرتو میرے لیے مدد دینے والا غلبہ۔پھر مسجد نبوی میں جاکر ممبر کے نیچے دورکعت نماز اس انداز سے پڑھے کہ ممبر کا ستون اس کے کاندھے کے برابر ہو، کیوں کہ وہ حضورؐ کا مقام تھا۔ پھر زیارت کا ارادہ کرے اور مزار اقدس کی طرف متوجہ ہو، دیوار سراپا انوار یعنی روضہ اقدس کو بوسہ دینا سنت نہیں ہے، اس لیے پورے احترام کے ساتھ ذرا فاصلے پر رہے کہ یہی بہترین تعظیم ہے۔ اور پھر کہے؛
’’ترجمہ: سلام آپ پر ہو اے اللہ کے رسول، سلام آپ پر اے اللہ کے نبی، سلام آپ پر اے اللہ کے دوست، سلام آپ پر اے اللہ کے برگزیدہ، سلام آپ پر اے اولاد آدم کے سردار، سلام آپ پر اے رسولوں کے سردار اور ختم المرسلین اور خالق کائنات کے رسولؐ۔
سلام آپ پر اور آپ کی اولاد پر اور آپ کے دوستوں پر ایسے دوست کہ پاک ہیں اور آپ کی ازواج مطہرات پر جو مسلمانوں کی مائیں ہیں جزادے اللہ آپ کو ہماری طرف سے وہ جزا کہ جزادی کسی نبی کو امت سے اور رحمت نازل کرے آپ پر اتنی جتنا یاد کرتے ہیں آپ کو یاد کرنے والے اور غافل ہیں آپ کی یاد سے غافل لوگ۔‘‘
اگر کسی نے حضورؐ تک اپنا سلام پہونچانے کو کہا ہے تو اس کا سلام بھی پہونچائے اور کہے سلام آپ پر اے رسول اللہ فلاں ابن فلاں کی طرف سے، پھر تھوڑا آگے بڑھ کر امیر المؤمنین حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓکو سلام عرض کرے پھر وہاں کھڑے کھڑے جتنی دعائیں مانگ سکتا ہے مانگے پھر وہاں سے نکل کر جنت البقیع جائے بزرگواروں اور حضورؐ کے دوستوں کی زیارت کرے اور جب مدینہ سے واپس ہونے لگے تو حضورؐ کی زیارت کرکے لوٹے۔
ان ساری باتوں سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ حج اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک ہے، اور اس کا ادا کرنا استطاعت ہونے کی حالت میں فرض ہے۔ وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ حج دراصل اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ اور حج کے اوقات وایام سراپا عبادت اور دعا کے لیے وقف ہیں۔ ویسے توجہ سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ دین اسلام سراپا دعا ہے۔ کیوں کہ اسلام میں سونے، جاگنے، ہنسنے، رونے، کھانے پینے، ملنے، جداہونے کوئی چیز تلاش کرنے کسی سے کچھ لینے کسی کو کچھ دینے۔ فطری جذبات کے غلبے مثلاً غصّہ، نفرت، صدمہ، ہرموقع کے لیے دعائیں ہیں۔ گھر سے نکلنے، گھر میں داخل ہونے دوستوں سے ملنے، دوستوں سے جدا ہونے، کوئی بھی ایسا موقع نہیں ہے جس کے لیے مخصوص دعائیں نہیں ہیں۔
اللہ کا کتنا بڑا کرم ہے کہ اس نے ہمیں دین وایمان کی دولت سے مالامال کیا اور ایسے مذہب میں داخل کیا جو سراپا رحمت اور دعا ہے۔ اللہ ہم سب کو دین کی سچی سمجھ اور اس کے فرائض وواجبات اور سنتوں کی تکمیل کی توفیق عطا کرے۔ آمین
٭ ٭ ٭ ٭ ٭
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS