حافظ کرناٹکی،شکاری پور
دنیا میں سیکڑوں مذاہب پائے جاتے ہیں ، ہر مذہب انسانیت کی سربلندی کی تعلیم دیتا ہے۔ اور ہر مذہب میں شرافت نفس کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔ مگر ان تمام مذاہب میں دین اسلام کو ہر اعتبار سے عظمت حاصل ہے۔ کیوں کہ یہ دنیا کا سب سے سچا اور مکمل دین ہے۔ یہی وہ پہلا دین حق ہے جس کی ابتدا تعلیم سے ہوئی۔ اسلام کی بنیاد جس آیت کریمہ سے پڑی یا یوں کہیں کہ حضورؐ پر جو پہلی آیت نازل ہوئی وہ تھی یعنی پڑھ اپنے رب کے نام سے یعنی ایک طرف تو پڑھنے کا حکم دیا گیا اور دوسری طرف یہ بھی بتادیا گیا کہ پڑھنا کس طرح ہے۔ یعنی اللہ کے نام کے ساتھ پڑھائی کا آغاز کرنا ہے۔ ممکن ہے کہ پڑھائی پر اس لیے بھی زوردیا گیا ہو کہ حضورؐ کی بعثت کے وقت عربوں میں تعلیم کا رواج عام نہیں تھا۔ بہت کم لوگ تھے جو پڑھنا لکھنا جانتے تھے مکہ کی آبادی کی اکثریت جاہل تھی۔ اور ہم جانتے ہیں کہ جہالت اندھیری ہوتی ہے۔ گمراہی ہوتی ہے، جبکہ علم روشنی ہوتی ہے۔ لہٰذا اسلام نے تعلیم کے ذریعہ انسانوں کو تو حید پرست، صاحب کردار، مہذب، بااخلاق، انسانیت نواز اور امن پسند بنایا۔ سچ پوچھیے تو حضورؐ نے تعلیم و تعلم پر زور دے کر ساری دنیا اور تمام بنی نوع انسان کو جہالت کے اندھیرے سے نکالنے کا ایسا کارنامہ انجام دیا جس کی مثال تاقیامت یہ دنیا پیش نہیں کر سکتی ہے۔ حضورؐ نے تعلیم کو دنیاوی اور دینی دونوں کا مرانیوں کا ذریعہ بتایا۔ جاننے والے لوگ جانتے ہیں کہ اسلام سے قبل تعلیم کا حصول عام انسانوں کے لیے ناممکن تھا۔ ہندومذہب میں تو براہمن کے علاوہ کسی کو بھی تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل نہیں تھا۔ کچھ یہی حالت یہودیت اور عیسائیت کی تھی۔ ان مذاہب کے مذہبی پیشوا اور ان کے خاص لوگوں کو ہی علم حاصل کرنے کا حق حاصل تھا۔ بقیہ لوگوں کے لیے تعلیم کا حصول کسی بھی طرح آسان اور ممکن نہیں تھا۔
بالخصوص اسلام کے علاوہ تقریباً تمام مذاہب میں عورتوں کے حقوق کی پامالی مذہبی تعلیم کی روشنی میں کی جاتی تھی۔ حضورؐ نے تعلیم پر خاص طبقہ کی اس اجارہ داری کو ختم کردیا۔ اور علم کا دروازہ سبھوں کے لیے کھول دیا اور علم کا حاصل کرنا ہر مرد اور عورت کے لیے لازمی قرار دے دیا۔ یہ اتنا بڑا انقلابی قدم تھا کہ جس نے دنیا کی تاریخ بدل دی۔ خود مسلمانوں کے یہاں اس کا یہ اثر ہوا کہ غلاموں نے بھی تعلیم حاصل کرکے علم و ادب اور فکر و فلسفہ کے میدان میں نام کمایا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم میں مختلف انداز میں علم کی اہمیت بیان فرمائی ہے۔ اور اسے حاصل کرنے کے لیے حکم دیا ہے۔ کیوں کہ علم ہی وہ روشنی ہے جس کے ذریعے سے انسان اپنے رب کو، اس کی خدائی کو، اس کی بنائی کائنات کو، اور اپنے پیدا کیے جانے کے مقاصد کو سمجھ سکتا ہے۔ زندگی کا بنیادی مقصد جاننے کے لیے علم کی روشنی بے حد ضروری ہے۔
علم کے بغیر مقصدحیات کا پانا اور رب کائنات کی عظمت سے آگاہ ہونا اور اس کی عبادت میں دل و جان سے لگ جانا آسان نہیں ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ: ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی ڈرتے ہیں۔‘‘
ظاہر ہے کہ جب تک انسان گناہ اور ثواب اور اس کے اثرات کو نہیں جان پائے گا خیر اور شر کی حقیقت اور ماہیت سے واقف نہیں ہوپائے گا تب تک وہ اپنے رب سے نہ محبت کرپائے گا اور نہ اپنے اعمال کی خرابی کے تناظر میں اپنے رب سے ڈرے گا۔ اور جو انسان خیر و شر کو ہی نہیں پہچان پائے گا وہ بھلا دوسروں کے لئے کیوں کر قابل توجہ بن سکے گا۔ اسی لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید میں تعلیم کی اہمیت پر بہت زور دیا ہے۔علم ہی وہ چیز ہے جس کے توسط سے انسان جانی پہچانی چیزوں میں انجانی حقیقت کا ادراک حاصل کرتا ہے۔ اور انجانی چیزوں میں حقیقت کی جلوہ سامانی کا نظارہ کرتا ہے۔ علم ہی کی بدولت انسان اپنی ذات اور شخصیت کے محدود دائرے سے نکل کر افراد و اقوام اور خلق خدا کی ترقی کے راز معلوم کرتا ہے اور اس کی خدمت کے لیے آمادہ و تیار ہوتا ہے۔
علم کے حوالے سے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت بار بار نقل کی جاتی ہے کہ؛’’ علم وحشت میں مونس و غمخوار ہے۔ اجنبی ماحول میں ساتھی ہے، تنہائی کا رفیق ہے، خوشحالی و تنگ دستی میں رہنماہے، اور دشمنوں کے خلاف ہتھیار ہے، اسی سے حلال و حرام کی تمیز پیداہوتی ہے، وہی عمل کا راہبر ہوتا ہے اور عمل اس کا تابع و فرمان ہوتا ہے۔ ‘‘
علم کی تلاش اور اس کے حصول میں نکلنے والا انسان اللہ کے علیم ہونے کی شہادت اور اس کے علم کے منبع ہونے کی حقیقت کا متلاشی ہوتا ہے۔ اسی لیے وہ اللہ کے راستے میں ہوتا ہے۔ اور اس کے لئے اللہ کی خاص رحمتوں اور محبتوں کا وعدہ کیا جاتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا؛ ’’جو آدمی علم حاصل کرنے کے لئے کوئی مسافت طے کرتا ہے، یا کسی راستے پر چلتا ہے تو اس کے لئے اللہ تبارک وتعالیٰ جنت کے راستے کو آسان کردیتا ہے اور جو شخص اس حاصل کئے ہوئے علم کے مطابق عمل کرنے میں سستی کرتا ہے تو اس کا نسب پیش قدمی نہیں کرتا ہے۔‘‘یعنی اسلام میں علم کے حصول پر اس لیے زور نہیں دیا جاتا ہے کہ آپ کچھ کتابیں پڑھ لیں کچھ خاص قسم کے علوم حاصل کرلیں اور اپنے علم کے رعب و دبدے کا مظاہرہ کرتے پھریں۔ بلکہ اسلام میں علم کے حصول پر اس لیے زور دیا جاتا ہے کہ بندہ علم حاصل کرے اور اس علم پر خود بھی عمل کرے اور دوسروں کو بھی اچھے اور نیک اعمال کی دعوت دے۔ جو لوگ ایسا نہیں کرتے ہیں ان کے لیے ان کا علم عذاب بن جاتا ہے اور اس سے اس کو اور اس کی نسل کو کوئی فائدہ نہیںپہونچتا ہے۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلیّ اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا؛’’علم حاصل کرو کیوں کہ اللہ کے لیے علم کا سیکھنا خشیت ہے، اسے حاصل کرنے کی کوشش کرنا عبادت ہے، اس کا مذاکرہ کرنا یعنی پڑھنا اور پڑھانا تسبیح ہے۔ علم کی تلاش جہاد ہے، نااہلوں کو علم سکھانا صدقہ اور اس کی اہلیت رکھنے والوں کو بتانا باعث اجر و ثواب ہے۔ علم حلال و حرام کا نشان ہے۔ جنت کے راستوں پر روشنی کا ستون ہے۔ علم تنہائی کا ساتھی ہے، دین کا رہنما، پردیس میں رفیق ، خلوت میں دوست اور راحت و مصیبت کا بتانیوالا ہے۔ دشمن کے مقابلے میں ہتھیار ہے، دوستوں میں زینت ہے، علم کے ذریعے خدا بعضوں کو اٹھاتا ہے اور نیکی کا ایسا امام بنادیتا ہے کہ اس کے نقش قدم پر چلاجاتا ہے۔ اس کی سیرت کو نمونہ بنادیاجاتا ہے۔ ان کے قول پر عمل کیا جاتا ہے۔ فرشتے ان کی خدمت پر راغب ہوتے ہیں۔ اپنے پروں سے انہیں چھوتے ہیں، ان کی مغفرت کے لیے ہر چیز یہاں تک کے پانی کی مچھلیاں زمین کے کیڑے مکوڑے اور خشکی کے درندو چرند دعا کرتے ہیں۔
جہل موت ہے، علم دلوں کے لیے زندگی ہے۔ تاریکی میں آنکھوں کے لیے روشنی ہے۔ علم ہی کے ذریعے بندے دنیا اور آخرت میں اعلیٰ مقام اور بلند درجات حاصل کرتے ہیں۔ علم میں غور و فکر روزے کے برابر ہے۔ علم ہی سے رشتے جڑتے ہیں، علم ہی سے حلال و حرام کی شناخت ہوتی ہے۔ علم عمل کا رہنماہے۔ اور عمل علم کا پیروہے۔ علم سے نیک بختوںکو سرفراز کیا جاتا ہے اور بدبخت اس سے محروم رہتے ہیں۔ ‘‘
یہاں پر رک کر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ گویا پوری فہرست بناکر پیش کردی گئی ہے کہ علم کے کیا کیا فائدے ہیں۔ اور یہ بھی کہ حصول علم کے لیے نکلنے والے لوگوں کی اللہ کس طرح مدد فرماتا ہے اور اس کے درجات کو بلند فرماتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس قوم کے پاس علم کا سرمایہ ہوتا ہے وہ دنیا میں حکمرانی کرتی ہے۔ اسے اللہ ایسی عزت دیتا ہے کہ ساری دنیا اس قوم کی عزت کرتی ہے۔ اور جو قوم علم سے محروم ہو جاتی ہے، وہ ذلت اور پستی میں گرفتار ہوجاتی ہے۔ جس قوم کے لوگوں کے دلوں میں علم اور علم والوں کی محبت نہیں ہوتی ہے اس قوم کا مستقبل تاریک ہوجاتا ہے۔ اس کا حال بدحالی کا شکار بن جاتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ اس کا وجود مٹ جاتا ہے۔
جو لوگ نیک دلی اور خدمت خلق کے جذبے کے ساتھ علم حاصل کرتے ہیں اور جو اپنے علم سے اپنے رب کی تعلیمات کو عام کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور جو لوگ اپنے علم کو حصول دنیا کے لیے نہیں بلکہ خدا شناسی کے لیے استعمال کرتے ہیں اللہ ان کے سینے کھول دیتے ہیں۔ اور ان کے لیے علم کا حصول کی مشکلوں کو آسان فرمادیتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم اپنے رب اور اپنے رسول کی پیروی کریں۔ ان کے حکموں پر عمل کریں۔ اور علم کے حاصل کرنے میں ہر طرح کی دشواریوں کو کامیابی کا ذریعہ سمجھیں۔ آج ہم حصول علم میں تکلیفیں اٹھائیں گے تو کل ہماری آنیوالی نسلیں علم کی روشنی سے جگمگاتے راستوں پر سفر کرکے دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل کرکے سرخ رو ہوگی۔ انشاء اللہ