صبیح احمد
ہندوستان کی صدارت میں نئی دہلی میں پہلی بار منعقد ہونے والا جی20 سربراہ اجلاس بحسن و خوبی اختتام کو پہنچ گیا۔ ملک اور خاص طور پر قومی راجدھانی میں ایک طرح سے میلے کا سماں رہا۔ غیر ملکی مہمانوں کی بڑے پیمانے پر آمد اور ان کے پر جوش استقبال کی تیاریوں سے ماحول میں کافی رنگینی چھائی رہی۔ اجلاس کے مشترکہ اعلامیہ کے حوالے سے شکوک و شبہات ظاہر کیے جا رہے تھے، خصوصاً روس-یوکرین جنگ کے پس منظر میں طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں لیکن گروپ کے تمام ممالک کی رضامندی سے متفقہ طور پر نئی دہلی اعلامیہ بھی جاری کر دیا گیا۔ یہ ہندوستان کی روز اول سے وضع کردہ غیرجانبدار خارجہ پالیسی کی نمایاں کامیابی ہے جسے دہائیوں سے بلاتفریق سیاسی نظریہ مختلف حکومتوں نے بڑی دانشمندی سے پروان چڑھایا ہے۔
حالانکہ دنیا کا یہ اہم ترین ایونٹ کامیابی کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچا لیکن اس میں گروپ کے 2 اہم ارکان چین اور روس کے سربراہان حکومت کی عدم شرکت نے کئی طرح کے سوالوں کو جنم دیا ہے۔ حالانکہ دونوں ملکوں نے اجلاس کا بائیکاٹ نہیں کیا۔ چین کے وزیراعظم لی کیانگ کی قیادت میں چینی وفد نے اور روس کے وزیر خارجہ لاوروف کی قیادت میں روسی وفد نے شرکت کی۔ یوکرین کے ساتھ جاری جنگ کے حوالے سے روسی صدر ولادیمیر پوتن کی اس اہم اجلاس میں عدم شرکت کسی حد تک قابل فہم ہے لیکن چینی صدر ژی جن پنگ کا نئی دہلی نہ آنا کافی معنی خیز اور دور رس نتائج کا حامل ہے۔ نئی دہلی میں منعقدہ جی20 سربراہ اجلاس میں شرکت سے جن پنگ کے انکار سے ہندوستان اور چین کے درمیان پہلے سے ہی کشیدہ تعلقات پر دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ چین نے جن پنگ کی غیرموجودگی کی وضاحت پیش کرنے کو بھی مناسب نہ سمجھا۔ بہرحال چین نے عالمی اقتصادی تعاون کے جی20 کے اہداف کے لیے اپنے عزم پر زور دینے کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کے درمیان جاری کشیدگی کے باوجود اس سال کے سربراہ اجلاس کی میزبانی کے لیے ہندوستان کی حمایت پر بھی زور دیا۔ چین نے ’عالمی معیشت کی مستحکم بحالی اور پائیدار ترقی کو فروغ دینے کے لیے مثبت کردار ادا کرنے کے لیے‘ تمام فریقوں کے ساتھ کام کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی ہے۔
روسی صدر ولادیمیر پوتن بھی جی20 سربراہ اجلاس سے غیر حاضر رہے۔ حالانکہ کریملن نے واضح کر دیا تھا کہ اس معاملے پر روس اور چین کے درمیان کوئی ہم آہنگی یا تعاون نہیں ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر روس کو اجلاس میں روسی صدر کی غیر حاضری کے لیے چینی صدر کی عدم موجوگی کے حوالے سے وضاحت پیش کرنے کی ضرورت کیوں آن پڑی؟ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ ہندوستان اور چین کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے پس منظر میں چینی صدر کی یہ غیر موجودگی سامنے آئی ہے۔ لداخ کے علاقے میں دونوں ملکوں کی سرحد پر جاری تنازع 3 سال قبل فوجی ٹکرائو میں تبدیل ہو گیا جس میں 20 ہندوستانی اور 4 چینی فوجیوں کی جانیں بھی گئیں۔ تب سے دونوں ممالک نے لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر بھاری فوجی موجودگی کے ساتھ جس میں توپ خانے، ٹینک اور جنگی طیارے شامل ہیں، اپنی اپنی پوزیشنوں پر قلعہ بندی کر رکھی ہے۔ چین کے اہم جغرافیائی و سیاسی حریف امریکہ کے ساتھ ہندوستان کی بڑھتی ہوئی تزویراتی شراکت داری بھی بیجنگ کی نظروں سے اوجھل نہیں ہے۔ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے صحافیوں کو نکال دیا ہے اور تجارتی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ ہندوستان نے حال ہی میں دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والے ملک کے طور پر چین کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ٹیکنالوجی، خلائی تحقیق اور عالمی تجارت میں مسابقت نے دونوںایشیائی شیروں کو مدمقابل لا کھڑا کر دیا ہے۔
ہندوستان میں منعقدہ اجلاس میںجن پنگ کی غیر موجودگی کو سفارتی قلابازی کے طور پر دیکھاجا سکتا ہے۔ جی20 سربراہ اجلاس اقتصادی تعاون کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم ہے، جس میں وہ ممالک شامل ہیں جو عالمی جی ڈی پی کے 85 فیصد اور عالمی تجارت کے 75 فیصد سے زیادہ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہندوستان کے دیرینہ حریف پاکستان کے ساتھ چین کے گہرے تعلقات اور متنازع خطہ کشمیر پر اس کے موقف نے جغرافیائی و سیاسی منظرنامے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ جن پنگ کا نئی دہلی میں جی20 سربراہ اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ ہندوستان اور چین کے درمیان پہلے سے کشیدہ تعلقات میں پیچیدگی کی ایک اور تہہ کا اضافہ کر سکتا ہے۔ اس پیش رفت سے مستقبل قریب میں دونوں ممالک کے درمیان ہونے والی بات چیت کے رخ کا بھی تعین ہو سکتا ہے، خاص طور پر سرحدی مسائل اور عالمی اقتصادی تعاون سے متعلق مذاکرات کے حوالے سے۔ بیجنگ کے اس فیصلے نے بڑے پیمانے پر قیاس آرائیوں اور تشریحات کو دعوت دی ہے، جس میں صدر جن پنگ کے ممکنہ صحت کے مسائل اور گھریلو پریشانیوں سے لے کر میزبان ملک ہندوستان کے ساتھ سرحدی معاملے پر کشیدگی کو بھی جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے۔ لیکن بڑی طاقت کی حیثیت سے امریکہ کے ساتھ چین کی عداوت کو مدنظر رکھتے ہوئے غور کیا جائے تو جی20 میں جن پنگ کی عدم موجودگی کو موجودہ عالمی نظام حکومت اور موجودہ عالمی ڈھانچہ جسے وہ بہت زیادہ امریکی اثر و رسوخ والے کے طور پر دیکھتا ہے، کے حوالے سے ان کی مایوسی کا اشارہ بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ اس نظام کے بجائے جن پنگ ان کثیر جہتی فورمز کو ترجیح دے رہے ہیں جو دنیا پر حکمرانی کے لیے چین کے اپنے وژن سے زیادہ مطابقت رکھتے ہیں۔ جیسے کہ حال ہی میں ختم ہونے والی ’برکس‘ (BRICS) سربراہ کانفرنس اور آئندہ ’بیلٹ اینڈ روڈ فورم۔‘
اگرچہ ہندوستان کو چینی صدر ژی جن پنگ اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کے جی20 اجلاس میں شرکت نہ کرنے پر مایوسی ضرور ہوئی ہے ، لیکن ان کی غیر حاضری سے بائیڈن کو امریکہ اور ہندوستان کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔ امریکی صدر بائیڈن نے اپنے دورے کا آغاز وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ ان کی رہائش گاہ پر ایک نجی ملاقات سے کیا۔ اسے وہائٹ ہاؤس نے جی20 کے سالانہ سربراہ اجلاس سے قبل ایک دوسرے کے لیے انتہائی گرمجوشی اور اعتماد کا عکاس قرار دیا۔ اجلاس کے بعد جاری ایک بیان میں امریکہ اور ہندوستان کی متعدد شعبوں میں خاص طور پر کمپیوٹر چپس ، ٹیلی کمیونی کیشنز ، ہائر ایجو کیشن، انڈو پیسفک میں بحری جہازوں کی گزر گاہوں تک رسائی اور آب و ہوا کی تبدیلی میں کردار ادا کرنے والے کاربن کے اخراجات میں کمی کے حوالے سے شراکت داری کی از سر نو توثیق کی گئی ۔ ہندوستان، مشرق وسطیٰ اور یوروپ کو جوڑنے کے ایک بڑے انفرااسٹرکچر اور کمیونی کیشن پروجیکٹ کا بھی اعلان کیا گیا۔ بائیڈن اور مودی نے 2021 سے اب تک ایک درجن سے زیادہ بالمشافہ یا ورچوئل ملاقاتیں کی ہیں کیونکہ دونوں رہنما مشترکہ اہم خدشات کے درمیان ہند-امریکہ شراکت داری کو مضبوط بنانے کے خواہاں ہیں۔ ان خدشات میں دن بدن جارحانہ طرز اختیار کرتا ہوا چین، موسمیاتی تبدیلی، مصنوعی ذہانت، عالمی سپلائی چین اور دیگر مسائل سے پیدا ہونے والے دوسرے اہم چیلنجز شامل ہیں۔ حالانکہ بائیڈن اور مودی میں نظریاتی طو ر پر کوئی قریبی تعلق نہیں ہے لیکن دونوں رہنما ہند بحرالکاہل میں چین کی فوجی اور اقتصادی سر گرمیوں کی وجہ سے بتدریج قریب آئے ہیں۔ اب چینی صدر نے ایک اہم بین الاقوامی پلیٹ فارم سے غیر حاضر رہ کر ہندوستان اور امریکہ کو مزید قریب آنے کا ایک اور موقع فراہم کر دیا۔
[email protected]