حالیہ انتخابی نتائج کے اثرات و مضمرات

0

صبیح احمد

الیکشن میں ہار اور جیت کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ایک فریق کی جیت ہوتی ہے اور دیگر فریقوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہی جمہوریت کی شان ہے۔ حالیہ اسمبلی انتخابات میں بھی اسی اصول کی بنیاد پر نتیجہ سامنے آیا جس میں بی جے پی کو جیت نصیب ہوئی اور سماجوادی پارٹی سمیت دیگرسیاسی جماعتوں کو شکست کا منھ دیکھنا پڑا۔ بہرحال اس الیکشن میں یہ بات واضح طور پر سامنے آئی کہ نظریاتی طور پر سیاست نے ایک نئی کروٹ لی ہے۔ کسی کے لیے بھی اب اس حقیقت سے انکار مشکل ہے کہی جے پی کی یہ شاندار جیت اس نظریاتی سیاست کا ہی نتیجہ ہے جس میں مذہب کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا گیا اور انہیں اس کا پھل بھی ملا۔ لوگ طرح طرح کے اندازے اور قیاس لگا رہے ہیں کہ برسراقتدار پارٹی اور وزیراعلیٰ کی فلاں فلاں حکمت عملیوں و ترقیاتی کاموںاور اپوزیشن کی جانب سے حسب توقع حکومت کی ناکامیوں کو اجاگر نہ کرپانے کی وجہ سے یوگی آدتیہ ناتھ نے یہ تاریخی کامیابی حاصل کی ہے۔ بلا شبہ اپوزیشن پارٹیوں نے حتی المقدور کوشش کی اور حکمراں جماعت کے خلاف جمہوری طریقے سے بھر پور انتخابی مہم چلائی۔ لیکن اپوزیشن کی ان تمام کوششوں پر بھگوا سیاست حاوی ہو گئی۔
بی جے پی کی جیت کی کئی وجوہات ہیں جن میں سب سے بڑی وجہ اس کی نظریاتی یعنی ہندوتو کی سیاست ہے۔ کچھ لوگوں کا اب یہ بھی کہنا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے اس سیاست کو براہ راست چیلنج نہیں کیا۔ اگر چیلنج کیا ہوتا تو آج نتائج دوسرے ہوتے۔ یہ کہنا مکمل طور پر درست نہیں لگتا۔ دراصل بی جے پی نے بڑی چالاکی سے اپوزیشن کی تمام کوششوں کو ناکام بنادیا۔ بھگوا بریگیڈ نے بظاہر یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ ’وکاس‘ اور عوامی فلاح بہبود کے نا م پر ووٹ مانگ رہے ہیں اور اپوزیشن پارٹیاں اس کے جال میں پھنس کر ان کے اس دعوے کو ناکام کرنے میں پوری طرح سے لگ گئیں جبکہ بی جے پی اندرونی طور پر ووٹروں کے سامنے ہندوتو کے ایشو کو مضبوطی سے پیش کرنے میں مصروف رہی۔ آخرکار بی جے پی نے 25 سال سے قائم یہ طلسم بھی توڑ دیا کہ وہاں سے کوئی جماعت لگاتار دوسری مرتبہ نہیں جیت سکتی۔ اترپردیش میں بی جے پی کی اس فتح کا سہرا کیسری لباس پہننے والے سخت گیر ہندو مذہبی رہنما یوگی آدتیہ ناتھ کے سر ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ کو یہ فتح اس کے باوجود ملی کہ ان کے حق میں کوئی انتخابی مہم نہیں نظر آ رہی تھی۔ 5 سال برسر اقتدار رہنے کے باوجود ان کے خلاف مبینہ طور پر بی جے پی کے اندر اور باہر مہم بھی چلائی جا رہی تھی۔ یوگی آدتیہ ناتھ ایک انتہائی متنازع شخصیت تصور کیے جاتے ہیں۔ ان سے بیک وقت نفرت اور محبت کی جاتی ہے۔ ان کے پیروکار انہیں ایک مقدس شخصیت مانتے ہیں لیکن ان کے ناقدین سمجھتے ہیں وہ ایک انتہائی تقسیم کرنے والے اور گندی زبان استعمال کرنے والے سیاستداں ہیں جو اکثر اپنی ریلیوں کے دوران مسلم مخالف جذبات بھڑکاتے ہیں۔
اپنی سیاسی اہمیت کے باوجود اتر پردیش ملک کی سب سے بدحال ریاستوں میں سے ایک ہے۔ پچھلے کچھ برسوں میں اس کی معیشت گری ہے، بے روز گاری بڑھی ہے، ضروری اشیائے خوردونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور خواتین کے خلاف بہیمانہ جرائم کی وجہ سے ریاست لگاتار شہ سرخیوں میں رہی ہے۔ گزشتہ سال کووڈ 19- سے بچاؤ کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات اور علاج کی سہولیات میں ناقص انتظام کی وجہ سے بھی ریاست خبروں میں رہی تھی، جہاں ہزاروں افراد علاج کی سہولت، آکسیجن وغیرہ نہ ملنے کے باعث ہلاک ہوئے اور جہاں دن رات چتائیں جلتی رہیں اور ہندوستان کا مقدس دریا گنگا لاشوں سے بھر گیا۔ لیکن شہریوں کے احتجاج اور مایوسی کے باوجود بی جے پی نے اس اہم ریاست میں زبردست کامیابی حاصل کی ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ اپنے ووٹروں کو یہ بات سمجھانے میں کامیاب رہے ہیں کہ ان کے دور اقتدار میں ریاست نے ترقی کی ہے، ’چاہے وہ آدھے سچ اور جھوٹے دعوؤں پر ہی منحصر ہو۔‘ پروپیگنڈہ میں بی جے پی کو کوئی نہیں ہرا سکتا۔ پارٹی نے یوگی آدتیہ ناتھ کی ’کامیابیوں‘ کی تشہیر کے لیے اربوں روپے خرچ کیے، اگرچہ ان میں سے بہت سے پروجیکٹ صرف کاغذوں میں ہیں۔ انہوں نے ماضی کی حکومتوں کے پروجیکٹس کو بھی مبینہ طور پر اپنا کہہ کر پیش کیا، جیسا کہ لکھنؤ میٹرو، خواتین کی ہیلپ لائن، ایک ایکسپریس وے اور کرکٹ اسٹیڈیم۔ بی جے پی نے یہ بھی بیانیہ قائم کیا ہے کہ صرف وہی امن و امان قائم کر سکتی ہے اور خواتین کو تحفظ فراہم کر سکتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ آدتیہ ناتھ کی جیت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ ووٹروں کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
اب اہم سوال یہ ہے کہ کیا ان انتخابی نتائج کے قومی سیاست پر اثرات مرتب ہوں گے اور کیا اب بی جے پی کے لیے 2024 کا پارلیمانی الیکشن جیتنا آسان ہو جائے گا؟ کیا سیمی فائنل جیتنے والی جماعت فائنل بھی جیتنے جا رہی ہے یا اس وقت تک حالات کچھ اور رخ اختیار کر سکتے ہیں؟ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ موجودہ نتائج قومی سیاست اور عوامی زندگی پر بہت خطرناک اثرات مرتب کریں گے۔ یوگی حکومت نے قانون کی حکمرانی کی جگہ پر بلڈوزر کی حکمرانی کا تصور پیش کیا ہے جسے اس الیکشن نے جواز فراہم کر دیا۔ عدلیہ ہو یا دوسرے آئینی ادارے سب کے لیے یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ اب ان اداروں کو ایسی حکومت کا سامنا ہوگا جو قانون کی جگہ پر بلڈوزر کا استعمال کرتی ہے۔ یہ انتہائی تشویش کی بات ہے۔ ان انتخابی نتائج کے اثرات کسی نہ کسی صورت میں 2024 کے پارلیمانی انتخابات پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔ ان نتائج سے بی جے پی اور اس کے کارکنوں کے حوصلے بلند ہو گئے ہیں۔ اب بی جے پی کو اپنی جارحانہ پالیسیوں کو نافذ کرنے میں مزید مدد ملے گی۔ اگلے پارلیمانی انتخابات سے قبل مزید کئی ریاستوں کے انتہائی اہم انتخابات ہونے والے ہیں جن میں اسی سال کے اواخر میں گجرات اسمبلی او راگلے سال کے مارچ میں کرناٹک اسمبلی کا الیکشن بھی شامل ہے۔ ان ریاستوں کے انتخابی نتائج کا بھی آئندہ پارلیمانی انتخابات پر اثر پڑ سکتا ہے۔
بہرحال بی جے پی نے یوپی میں بازی مار لی ہے اور اس کا سہرہ ،خواہ کوئی چاہے یا نہ چاہے، بہرحال وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ کے سر جاتا ہے۔ پہلی مدت کار کے آغاز سے ہی یوگی آدتیہ ناتھ کو ’بی جے پی کا کل‘ کہا جاتا رہا ہے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ وہ اس کے مزید قریب پہنچ چکے ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS