محمد حنیف خان
صحت انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ہے،اگر صحت نہیں ہے تو دنیا کی ساری نعمتیں ہیچ ہیں،لیکن اگر صحت اچھی ہے تو عسرت کے ساتھ بھی انسان پرسکون زندگی گزار سکتا ہے۔اس وقت ہندوستان میں صحت اورصحت خدمات ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔طعمومات و ماکولات کے رویوں نے انسان کو بیماریوں کی آماجگاہ بنا دیا ہے۔ہر شخص کسی نہ کسی بیماری کی زد میں ہے۔شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جس میں لوگ بیمار نہ ہوں، یہ سب جدید رویوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ایسے میں اگر حکومت انسانی صحت کے شعبہ میں کوئی قدم اٹھاتی ہے تو اس کی تعریف کی جانی چاہیے۔مرکزی حکومت نے ’آیوشمان بھارت‘ کے تحت ’ڈیجیٹل ہیلتھ کارڈ ‘ کا آغاز کیا ہے،جو پوری طرح سے عوام کے ہاتھ میں ہوگا وہ خود اپنا کارڈ بنا سکتے ہیں، اس میں اپنی بنیادی معلومات کے بعد بیماریوں،جانچ اور دواؤں کی تفصیلات درج کرسکتے ہیں، آدھار کارڈ کی طرح 14اعداد کا نمبر کسی بھی ڈاکٹر کے سامنے یہ تفصیلات آن اسکرین کردے گا،جس سے مریضوں کو پرچہ اور جانچیں ساتھ میں لے جانے اور ان کے گم ہوجانے کے خوف سے نجات مل جائے گی۔اس کارڈ کے بارے میں وزیراعظم نریندر مودی کا کہنا ہے کہ گزشتہ سات برس میں صحت کے شعبہ میں جو کام ہوئے ہیں، ان میں یہ ایک ایسا کام ہے جو اس شعبے کو نئے دور میں داخل کر رہا ہے،وہ اسے انقلاب سے تعبیر کرتے ہیں۔ممکن ہے ایسا ہو لیکن اس بارے میں ابھی کسی طرح کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا ہے۔
ڈیجیٹل ہیلتھ کارڈ کے آغاز سے ایک بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس سے بیماروں کو ان کی بیماریوں سے نجات مل جائے گی؟ یا ان کو علاج و معالجہ کے شعبے میں اس سے آسانیاں فراہم ہوجائیں گی؟ جس سے وہ بیماریوں سے لڑنے کے اہل ہوجائیں گے؟یا اس سے کتنی سہولت ملے گی؟تو اس کے جواب میں یہ وضاحت ضرور ی ہے کہ علاج و معالجہ کے شعبے میں صرف پرچہ اور جانچ کے بوجھ اور ان کے گم ہوجانے کے خوف سے نجات ملے گی۔یہ راحت دوسری پریشانیوں کے مقابلے صفر کی حیثیت رکھتی ہے لیکن اس کے مضرات اس سے بھی زیادہ بڑھ کر ہیں۔ایک ایسا ڈیٹا جس میںانسان کی بنیادی معلومات کے ساتھ ہی صحت سے متعلق اطلاعات یہاں تک کہ بیماریوں کے نام،جانچ اور دوا وغیرہ تک کا ذکر ہووہ اگر ہیکروں کے ہاتھ لگ گیا تو کیا ہوگا؟اس کے عواقب کتنے مضر ہوں گے،اس ڈیٹا کا وہ کہاں اور کس طرح استعمال کریں گے،کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ماہرین نے ابھی سے اس جانب اشارہ کر دیا ہے۔ ڈیجیٹل ہیلتھ کارڈ میںآن لائن ترمیم بھی کی جاسکتی ہے، ایسے میں اگر کسی نے بیماریوں میں ترمیم کردی تو کیا ہوگا، ڈاکٹر تو ہیلتھ کارڈ میں درج معلومات کے مطابق ہی علاج کرے گا،ایسے میں بیماری اور علاج سب تبدیل ہوجائے گا جو انسان کی زندگی کے لیے بھی خطرناک ہو سکتا ہے۔یہ اس کا ایک ایسا مضر پہلو ہے جس پر سب سے زیادہ دھیان دینے کی ضرورت ہے۔
’ڈیجیٹل بھارت‘کی طرف حکومت کا یہ ایک اہم قدم ضرور ہے لیکن ہر چیزصرف ڈیجیٹل کردینے سے عوام کے مسائل حل نہیں ہوتے ہیں۔اس وقت ملک میں علاج و معالجہ سب سے مہنگا اور مشکل ہے،اس پر وقتاً فوقتاً مختلف علاقوں میں بیماریوں کا قہر مستزاد ہے۔جس طرح سے حال ہی میں اترپردیش کے فیروز آباد اور اس پورے علاقے میں بخار سے اموات ہوئی ہیں،حکومت کو ان کی جانب اس کارڈ سے پہلے ا ور زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔علاج جتنا مہنگا ہو گیا ہے،اس کو سستا کرنے کی ضرورت ہے۔آج ملک کے حالات یہ ہو گئے ہیں کہ لوگ علاج سے پریشان ہو کر اپنے گھر اور جائداروں سے محروم ہو رہے ہیں۔انسان زندہ رہنے کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہو جاتا ہے جبکہ دوسری طرف دوا ساز کمپنیاں موٹا منافع حاصل کرنے سے باز نہیں آتی ہیں،جس دوا پر دو سو روپے پرنٹ ہے،اس کی قیمت محض دس سے بیس روپے ہے لیکن میڈیکل اسٹور پرمریض کو وہی دوا 199روپے میں ملنا مشکل ہے۔اس کا مشاہدہ کسی بھی اسپتال کے باہر میڈیکل اسٹوروس پر کیا جا سکتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ حکومت اس سے نابلد ہے،اس کو سب معلوم ہے کہ عوام بیماریوں اور علاج کی مہنگائی سے پریشان ہے لیکن وہ اس محاذ پر کچھ کرنے کے بجائے ڈیجیٹلائزیشن کے محاذ پر کا م کررہی ہے اور اپنی پیٹھ تھپتھپا ر ہی ہے۔
خلا میں تیر چلانے سے ہدف پر نشانہ نہیں لگتا ہے،اس کے لیے ضروری ہے کہ سامنے کوئی ہدف ہو۔علاج کے نام پر لوٹ کھسوٹ کی گرم بازاری میں ’ڈیجیٹل ہیلتھ کارڈ ‘‘کی وہ اہمیت نہیں بچتی ہے جو ہونی چاہیے یہ اس وقت بہتر ثابت ہو سکتا تھاجب علاج سستا ہوتا اور ہندوستان دیہی علاقوں کے بجائے شہروں میں بستا ہوتا،جہاں ہر اسپتال ڈیجیٹلائزڈ ہوتا۔آج بھی ناخواندگی کا گراف اپنی اعلیٰ سطح پر ہے، لوگ بھوکے سونے پر مجبور ہیں،ایسے میں اس طرح کے کارڈ کے استعمال کا کیا مطلب رہ جاتاہے؟ اس کارڈ کا فائدہ الیٹ طبقے کو مل سکتا ہے، شہروں میں وہ افراد اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں جن کو علاج پر ہونے والے اخراجات کی فکر نہیں ہوتی لیکن وہ افراد اس سے کیسے مستفید ہوسکتے ہیں،جو غربت کی وجہ سے عطائی ڈاکٹروں سے علاج کروانے کے لیے مجبور ہیں،جو آج بھی مریضوں کو پڑیا بنا کر دیتے ہیں۔ملک کا صحت ڈھانچہ زمینی سطح پر کس طرح چرمرایا ہوا ہے،اس کا اندازہ اسپتالوں کے باہر پڑے مریضوں سے لگایا جا سکتا ہے۔
صحت کا شعبہ ایک ایسی انڈسٹری کی شکل اختیار کرچکا ہے جس میں ترقی کے بے پایاں امکانات روشن ہیں۔اس شعبے میں وہ لوگ کام کر رہے ہیں جن کے پاس پیسہ ہے۔وہ دو طرح سے مریضوں کو اپنا شکار بناتے ہیں،اول خدمات کے نام پر موٹی فیس وصول کرتے ہیں،دوسرے مہنگی دواؤ ں میں وہ مریضوں کی جیب کاٹتے ہیں۔حکومت کو اس جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ سرمایہ کار افراد مریض اور ڈاکٹر دونوں کا استحصال نہ کرسکیں۔دواساز کمپنیاں لوگوں کو اپنا گھر بار فروخت کرنے پر مجبور نہ کریں۔ صحت کے شعبہ میں اس سے بہتر کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ہے۔
عوام کی حکومت سے یہ امید ہوتی ہے کہ وہ ایسا نظام تیار کرے جس سے اس کی زندگی آسان ہوجا ئے،اس کو اس طرح کی آسانیوں کی ضرورت زندگی کے برے دنوں میں ہوتی ہے،انسان کی زندگی کے سب سے تکلیف دہ لمحات بیماری کے ایام ہوتے ہیں،جس قدر بیماری موذی اور مہلک ہوتی ہے اسی طرح انسان کا دکھ اور تکلیف ہوتی ہے۔ اب اگر حکومت عوام کی بیماری سے لڑنے میں مدد کرتی ہے تو یقینا اس کی خواہشات کے مطابق ہوگا لیکن اگر ان ایام میں حکومت کا نظام اس کا ساتھ نہ دے تو اس کا نالاں ہونا ضروری ہے۔اس وقت اگر سروے کر لیا جائے تو شاید ہی کوئی انسان ہو جو سرکار کے صحت نظام سے خوش مل سکے، جس کی سب سے بڑی وجہ سرکاری اسپتالوں میں وضع نظام کے مطابق عمل نہ ہونا ہے۔اسی لیے سرکاری اسپتالوں میں یا تو غربا پہنچتے ہیں جن کے پاس ان کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا یا پھر وہ افراد جن کی سماجی حیثیت ایسی ہوتی ہے کہ وہ اسپتال انتظامیہ کو بہتر سہولیات کے لیے مجبور کر سکتے ہیں۔ حکومت اگر واقعی صحت کے شعبہ میں انقلاب لانا چاہتی ہے اور وہ اس بات کی خواہاں ہے کہ اس کے شہری صحت مند رہیں،ان کو کسی طرح کی دشواری نہ ہو تو اس کو سب سے پہلے سی ایچ سی اور پی ایچ سی کا نظام مضبوط کرنا ہوگا، خود اپنے سینٹروں کو ڈیجیٹلائزڈ کرنا ہوگا۔ان سینٹروں کو صرف اے این ایم کے سہارے چھوڑنے کے بجائے ان پر اچھے ڈاکٹروں کی تعیناتی کرنی ہوگی۔حکومت کہہ سکتی ہے کہ اس نے ایسے ہی ڈاکٹروں کی تعیناتی کر رکھی ہے لیکن پھر اس کو یہ بھی جواب دینا ہو گا کہ اگر ایسا ہے تو لوگ سرکاری اسپتالوں کے بجائے پرائیویٹ اسپتالوں کو ترجیح کیوں دیتے ہیں؟ بات در اصل یہ ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں عوام کو بہتر علاج نہیں مل پاتا ہے جس کی وجہ سے وہ پرائیویٹ اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں لیکن یہاں ایسے افراد موجود ہوتے ہیں جو علاج کے نام پر لوٹ کھسوٹ مچائے ہوئے ہیں۔صحت کا شعبہ ایک ایسی انڈسٹری کی شکل اختیار کرچکا ہے جس میں ترقی کے بے پایاں امکانات روشن ہیں۔اس شعبے میں وہ لوگ کام کر رہے ہیں جن کے پاس پیسہ ہے۔وہ دو طرح سے مریضوں کو اپنا شکار بناتے ہیں،اول خدمات کے نام پر موٹی فیس وصول کرتے ہیں،دوسرے مہنگی دواؤ ں میں وہ مریضوں کی جیب کاٹتے ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ وہ صرف مریضوں کا ہی استحصال کرتے ہیں، ایسے افراد ڈاکٹروں کا بھی استحصال کرتے ہیں۔اگر کوئی ایسا ڈاکٹر ہے جس کا خود اپنا اسپتال نہیں ہے تو وہ اسی طرح کے اسپتالوں میں کام کرتا ہے،جہاں اس کو کم تنخواہ یا کم فیس دی جاتی ہے مگر مریض سے موٹی فیس وصول کی جاتی ہے۔حکومت کو اس جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ سرمایہ کار افراد مریض اور ڈاکٹر دونوں کا استحصال نہ کرسکیں۔دواساز کمپنیاں لوگوں کو اپنا گھر بار فروخت کرنے پر مجبور نہ کریں۔ صحت کے شعبہ میں اس سے بہتر کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی ہے، باقی رہی بات کارڈ کی تو ہندوستان کے وہ عوام جو دکھ درد کا بوجھ منوں اپنے سینے پر اٹھائے ہوئے ہیں وہ ڈاکٹر کا پرچہ اور جانچیں لے کر بھی اسپتال جا سکتے ہیں۔
[email protected]