عام طورپر یہی کہا جاتا ہے کہ اسمبلی اوربلدیاتی انتخابات کا قومی ایشوز اورمسائل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اورنہ ہی ان میں قومی حیثیت کے حامل بڑے اورسینئر لیڈران کی کارکردگی ، شخصیت اورمقبولیت کی آزمائش ہوتی ہے ۔لیکن موجودہ دورمیں ملکی سیاست کامزاج کچھ ایسا بن گیا ہے کہ پارٹیاں مقامی قیادت کے نام پرووٹ کم اورمرکزی قیادت کے نام پرزیادہ مانگتی ہیں۔اسی طرح مقامی ایشوز پر باتیں کم اورقومی ایشوز پر زیادہ ہوتی ہیں ۔جیت کی صورت میں مرکزی قیادت کوکریڈٹ دیا جاتا ہے۔یہ اوربات ہے کہ شکست کے لئے اسے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاتا یا وہ اخلاقی طور پر اس کی ذمہ داری نہیں لیتی ۔اب تو وزیراعلی کے طورپر امیدوار کو بھی بہت کم پیش کیا جاتا ہے اوراکثر الیکشن کے بعد مرکزی قیادت تاجپوشی کافیصلہ کرتی ہے۔اس بار 5ریاستوں اترپردیش ، اتراکھنڈ، گوا، منی پور اورپنجاب میںجو اسمبلی انتخابات ہورہے ہیں ان میں بی جے پی کی ساکھ سب سے زیادہ دائو پر لگی ہوئی ہے کیونکہ اول الذکر 4 ریاستوں میں پارٹی کی حکومت ہے اورپانچویں ریاست پنجاب میں وہ پہلی بار اکالی دل سے الگ الیکشن لڑرہی ہے ۔کانگریس کے لئے بھی کوئی کم آزمائش نہیں ہے کیونکہ 2014 کے بعدسے اب تک کانگریس صرف 5ریاستوں میں سرکار بناپائی ۔ان میں بھی مدھیہ پردیش میں اقتدارمیں آکر باہر ہوگئی جبکہ گوامیں اقتدارکی دہلیز پر پہنچ کر اس سے دور ہوگئی ۔اب تو وہاں اس کے لئے وجود کا مسئلہ پیداہوگیا ہے ۔ اسمبلی انتخابات صرف بی جے پی اورکانگریس کے لئے معنی نہیں رکھتے بلکہ سماج وادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی اورعام آدمی پارٹی کے لئے بھی کافی اہم ہیں ۔کیونکہ اترپردیش اورپنجاب میں یہ پارٹیاں حکمراں جماعتوں کے لئے بڑا چیلنج بنیں گی اوران سے مقابلہ کرنا آسان نہیں ہوگا ۔
اسمبلی انتخابات کے اثرات متعلقہ ریاستوں تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ قومی سیاست پر بھی پڑیں گے ۔کیونکہ ان انتخابات کے بعد امسال جولائی میں پہلے راجیہ سبھا کی 73سیٹوںکے لئے انتخابات پھر صدارتی انتخابات ہوں گے ۔توجن ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہورہے ہیں ، ان میں سے 3ریاستوں میں راجیہ سبھا کی 19سیٹیں خالی ہوں گی جن کے لئے ووٹ نومنتخب ممبران اسمبلی ڈالیں گے۔یہی نہیں 5ریاستوں میں جو 690ممبران اسمبلی منتخب ہوں گے ، وہ صدارتی انتخابات میں بھی اہم رول اداکریں گے کیونکہ ممبران پارلیمنٹ واسمبلی مل کر الیکٹورل کالج بناتے ہیں جو صدارتی الیکشن میں ووٹ ڈالتے ہیں ۔اس لئے اسمبلی انتخابات سے صرف ریاستی حکومتوں کی تصویراور سیاسی پارٹیوں کی حالت طے نہیں ہوگی بلکہ راجیہ سبھا اورصدارتی الیکشن کی سمت بھی واضح ہوگی ۔جو مودی سرکار اوراپوزیشن پارٹیوں کے لئے کافی اہم ہوگی ۔بی جے پی کی جہاں پوری کوشش ہوگی کہ لوک سبھا کی طرح راجیہ سبھا میںبھی اس کادبدبہ قائم ہوجائے اورصدارتی الیکشن میں اس کے پسندیدہ امیدوار منتخب ہوں ۔وہیں اپوزیشن بھی ہر سطح پر بی جے پی کی گرفت کمزورکرنے کے لئے ایڑی چوٹی کازورلگائے گی ۔
اسمبلی انتخابات کے دوران مہنگائی ، بے روزگاری ، کوروناپرکھل کر سیاست ہوگی اورووٹنگ سے واضح ہو گا کہ رائے دہندگان ان ایشوز کو کتنی اہمیت دیتے ہیں۔ ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ 5ریاستوں کی 690میں سے 240سیٹیں ایسی ہیں جہاں کسان تحریک کا اثر ہے ۔پنجاب کی تمام سیٹوں پر جبکہ اترپردیش کی 110اوراتراکھنڈ کی کم ازکم 15سیٹوں پر کسانوں کا اثرہے ۔ چونکہ انتخابات سے قبل کسانوں نے لمبی تحریک چلائی ہے اوراسمبلی انتخابات کی آہٹ سنائی دیتے ہی مرکزی حکومت نے زرعی قوانین واپس لئے۔ایسے میں الیکشن کے نتائج سے پتہ چلے گا کہ کسانوں کا غصہ ٹھنڈا ہوا کہ نہیں ۔ غرضیکہ اسمبلی انتخابات سے عوام کی سوچ سامنے آئے گی اورملکی سیاست کی سمت طے ہوگی بلکہ یہ انتخابات لوک سبھا انتخابات کے لئے سیمی فائنل ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ ملک کی 25فیصدآبادی ان ہی ریاستوں سے تعلق رکھتی ہے ۔اس لئے انتخابات کو کوئی بھی نظر انداز نہیں کرسکتااوران کے دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔
[email protected]
اسمبلی انتخابات کے اثرات
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS