پروفیسرعتیق احمدفاروقی
عدالت عظمیٰ کے ذریعے ہلدوانی میں ریلوے کی زمین پر غیرقانونی بستیوں کو ہٹانے پر جو عارضی روک لگائی گئی وہ انسانیت کے ناطے تو مناسب ہے لیکن اِسی کے ساتھ اس بات پر بھی غور کیاجانا چاہیے کہ کیا سرکاری یا غیرسرکاری زمینوں پر غیرقانونی طریقے سے قبضہ کرکے اُس پر رہنا یا کوئی روزگار کرنا مناسب ہے ؟ ہلدوانی میں ریل پٹریوں کے کنارے دہائیوں قبل غیرقانونی تعمیر شروع ہوئی تھی ۔ رفتہ رفتہ وہاں بستیاں بس گئیں اورکچے گھروں کی جگہ پکے مکانات بن گئے ۔جب ریلوے نے اپنے توسیعی منصوبہ پر کام شروع کیاتو یہ پتہ چلاکہ اس کی 29ایکڑزمین پر قبضہ ہوچکاہے۔ بالآخر معاملہ عدالت عالیہ میں پہنچا ۔ اُس نے یہ پایاکہ ریلوے کی زمین پر قبضہ کیاگیاہے اس لئے اسے خالی کرایاجاناچاہیے ۔ اس کے خلاف یہ معاملہ عدالت عظمیٰ میں پہنچا اوراس نے فی الحال انہدامی کارروائی پر روک لگادی ہے۔ دراصل ہلدوانی جیسے حالات پورے ملک میں ہیں ۔ یہاں تک کہ دہلی اورممبئی جیسے بڑے شہر بھی ناجائز قبضوں سے خالی نہیں ہیں۔ اب سوال پیدا ہوتاہے کہ اس معاملے نے اتنا طول کیوں پکڑلیا؟اس کے دوسبب ہیں :اوّل جن بستیوں پر یہ قانونی کارروائی ہورہی تھی وہاں پر مسلمانوں کی اکثریت ہے اوراس ناطے وہ اپنے کو مظلوم کی حیثیت سے پیش کررہے ہیں۔ دوئم،یہ کام ایسے موقع پر ہورہاہے جب پورے ملک میں انتخابات کا ماحول ہے اورحکمراں جماعت بھی اس کا سیاسی فائدہ اٹھاناچاہتی ہے۔ اگراس طرح کی کارروائی انصاف کے دائرے میں بناکسی ذات ومذہب کی تفریق کے ہوں توکسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔
اعدادوشمار کے مطابق ملک میں ریلوے کی دوہزار ایکڑ زمین پر ناجائز قبضہ ہے ۔ سب سے زیادہ 375؍ ایکڑغیرقانونی قبضہ اترریلوے کی زمین پر ہے۔ غیرقانونی قبضہ کا ایک بڑا سبب آبادی کا دیہی علاقوں سے شہروں کی جانب ہجرت ہے ۔ اس سبب ملک کے سبھی حصوں میں غیرقانونی بستیوں کی تعمیر ہورہی ہے ۔ یہ سلسلہ دہائیوں سے چلاآرہاہے۔ کبھی کبھار غیرقانونی قبضہ ہٹانے کے علاوہ حکومتیں بھی غیرقانونی تعمیر سے اپنی آنکھیں بندرکھتی ہیں۔ کبھی کبھی ایسا لگتاہے کہ اپنے ملک میں سرکاری زمینوں پر قبضہ کی کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ کسی بھی زمین پر قبضہ کوئی پانچ سات غریب خاندان ملکر نہیں کرتے بلکہ بہت ہی منصوبہ بندطریقہ سے مقامی لیڈران اور میونسپل کارپوریشن کے افسران کی ملی بھگت سے زمینوں پر قبضے کرائے جاتے ہیں۔ اس میں ہرسیاسی جماعت کا ہاتھ رہتاہے کیونکہ انہیں غیرقانونی بستیوں میں ووٹ بینک دکھتاہے ۔ووٹ بینک کی سیاست کے سبب ہی ایسی بستیاں مستقل شکل اختیار کرلیتی ہیں۔ چونکہ زیادہ ترووٹ غیرقانونی کالونیوں سے پڑتے ہیں اس لئے انہیں سرپرستی فراہم کرنے کیلئے ہرپارٹی تیار ہوجاتی ہے ۔ وہ ان کالونیوں رہنے والوں کو یقین دہانی کراتے رہتے ہیں کہ تمہارا کوئی بال بھی بانکہ نہیں کرسکتا۔
اِن کالونیوں کی توسیع کے ساتھ ہی انہیں ہٹانامشکل ہوجا تا ہے۔ بعد میں جب حکومت محسوس کرتی ہے کہ انہیں ہٹانا ناممکن ہے توہ انہیں ضروری دستاویز فراہم کرکے جائز قرار دے دیتی ہے ۔ دہلی تک میں ایسا ہوتاہے۔ غیرقانونی سے قانونی بنائی گئی کالونیوں میں تھوڑا بنیادی ڈھانچہ تیار کیاجاتاہے لیکن عام طور پر وہ شہری سہولتوں اوربنیادی ڈھانچے کے فقدان سے مقابلہ ہی کرتی رہتی ہے۔ غیرقانونی کالونیوں میں ہونے والی زیادہ تعمیر غیرمعیاری سطح کی ہوتی ہے ۔ ان کالونیوں میں آبادی بے حد گھنی ہونے کے سبب وہاں سلیقے سے نہ تو ترقی کے کام ہوپاتے ہیں اورنہ ہی صاف صفائی کاکام۔ اِسی سبب وہاں کا ماحول صحت افزانہیں رہتا۔ حالانکہ ان کالونیوں میں رہنے والے زیادہ تر لوگ شہری سہولتوں کی حالت سے ناخوش رہتے ہیں ، پر جب انہیں رہائش کیلئے جگہ فراہم کی جاتی ہے تووہ وہاں سے جانے سے کتراتے ہیں۔ ویسے تو ہرغیرقانونی کالونی شہری ترقی کیلئے مسئلہ بنتی ہے لیکن وہ اکثرشہری تبدیلی کیلئے ضروری بنیادی ڈھانچے کی تعمیرمیں رکاوٹ بھی بن جاتے ہیں۔ہلدوانی کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ غیرقانونی قبضہ کے سبب ریلوے کی توسیع نہیں ہوپارہی ہے۔
ملک کے زیادہ ترمیونسپل کارپوریشن میں لوگ چن کر آتے ہیںاور وہ شہری تبدیلی کے معیار کے تئیں ناواقف ہی ہوتے ہیں ۔ اُن کی پوری سیاست صرف غیرقانونی کالونیوں میں رہنے والوں کو سرپرستی فراہم کرنے اوراُن کے ووٹ حاصل کرنے پر مرکوز رہتی ہے۔اِسی سبب میونسپل کارپوریشن اچھی حکمرانی کے نظریے سے روزبروز کمزور ہوتی جارہی ہے۔زیادہ ترشہروں میں میونسپل کارپوریشن پورا ہاؤس ٹیکس وصولنے میں بھی ناکام ہے اوروہ بھی تب جب وہ کافی کم ہے۔ پنچایتیں اورمیونسپل کارپوریشن جمہوریت کی ایک مضبوط کڑی ہیں ، لیکن اُن کی تشکیل اوران کا طرز عمل اس طرح نہیں ہوتاجیسے ہوناچاہیے۔ ایسا شاید اس لئے ہوتاہے کیونکہ آئین سازوں نے عوام کو جمہوریت کا بنیادی سبق پڑھانے والی ان اکائیوں پر حسب ضرورت توجہ نہیں دی ۔ جب تک ان دونوں اکائیوں کو کارگزار اورجواب دہ نہیں بنایاجاتا ، تب تک نہ تو مضافات کی حالت سدھرنے والی ہے اورنہ ہی شہروں کی ، کیونکہ ان کے زیادہ ترملازمین نااہل ہوتے ہیںاوربدعنوانی میں مبتلارہتے ہیں ۔ اسی سبب عوام کیلئے بنائے جانے والے منصوبوں کا عمل درآمد صحیح طرح نہیں ہوتا۔ مناسب یہ ہوگاکہ پنچایتوں اورمیونسپل کارپوریشن کے نمائندوں کے انتخابات کے طریقہ عمل کے ساتھ اُن کے کام کرنے کے طریقوں میں بھی تبدیلی لائی جائے۔
ہمیں یہ خواب خوب دکھایاجاتاہے کہ ہندوستان جلدہی ایک ترقی یافتہ ملک بنے گا۔ یہ بھی بتایاجاتاہے کہ ترقی کا راستہ شہروں سے ہوکر جاتاہے لیکن ایسا ہوتانہیں دکھتا۔ کسی ملک کے شہرہی اس کی بین الاقوامی شبیہ ظاہر کرتے ہیں لیکن ہمارے شہروں کی حالت دیکھ کر کوئی بھی سمجھ سکتاہے کہ ہم نئے اورپرانے شہروں کی ترقی کیلئے ضروری اقدام کو نظرانداز کرتے ہیں ۔ ہم اپنے شہر کی صاف صفائی کرنے کیلئے بھی بیدا رنہیں ہیںاورعوامی ملکیت وسہولتوں کا بیجااستعمال کرتے ہیں۔ ہمارے شہروں کی زیادہ ترآبادی غیرقانونی کالونیوں میں رہنا اپنا حق سمجھتی ہے۔ ان حالات کو بدلنا ہوگا نہیں توآگے چل کر ملک دوحصوں میں تقسیم ہوجائے گا:ایک وہ جہاں بہتر طریقے سے ترقی ہوئی ہے اوردوسرا وہ جہاں زیادہ تر آبادی غیرمنصوبہ بند ترقی کے چلتے خراب حالت میں رہی ہوگی۔ اس سے ایک خلیج سی بنے گی اور غیرقانونی کالونیوںمیں رہنے والے خود کو ٹھگاسا محسوس کریںگے۔ یہ ٹھیک ہے کہ عدالت عظمیٰ نے ہلدوانی میں ہزاروں لوگوں کو بے گھرہونے سے بچالیا لیکن اگرناجائز قبضہ کرنے والوںکو ریلوے کی زمین سے ہٹایانہیں گیاتوشہری ترقی میں مزید رکاوٹ پیداہوگی۔ یہی نہیں ہمارے شہروں کی حالت اوربھی بدتر ہوجائے گی۔
[email protected]
ناجائز قبضہ اور غیر منظم تعمیر و ترقی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS