ہم اگر عشق نہ کرتے تو حکومت کرتے

0

زین شمسی
سیاست کا سماج سے اسی طرح کا باہمی رشتہ ہے جیسا سماج کا تعلیم سے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے سماج کا بڑا طبقہ تعلیم سے بہرہ ور نہیں ہے اور ہماری سیاست سماج سے بیگانہ ہے۔ سیاست کا سماج سے صرف ووٹ کا رشتہ ہے۔ اس کی فلاح و بہبود کی صرف اتنی ہی فکر ہے کہ کسی منصوبہ یا اسکیم میں لیڈروں کا مفاد پوشیدہ ہوگا تبھی وہ اسکیم یا پروجیکٹ عوامی ہوگا ورنہ وہ فائلوں کے نیچے دب کر دم توڑ چکا ہوگا۔ سرکاری اثاثوں کا نجی کرن اس کی زندہ مثال ہے۔ سرکاری اسکول، سرکاری ٹرانسپورٹ، سرکاری بینکاری، سرکاری اسپتال، سرکاری ذرائع ابلاغ اور دیگر سرکاری وسائل کی نجکاری یہ ثابت کر چکی ہے کہ سرکاری اداروں سے حاصل کیا گیا پیسہ سرکار کے خزانہ میں جاتا ہے اور پرائیویٹ اداروں سے حاصل کیے گئے پیسوں سے لیڈروں کی منھ بھرائی ہوتی ہے۔ مطلب یہ کہ جسے ہم اور آپ اپنی بھلائی کے لیے منتخب کرتے ہیں وہ اپنی بھلائی بغیر کسی محنت کے کر جاتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ آپ ان سے حساب مانگیں وہ آپ کو ورغلانے، گمراہ کرنے اور کنفیوز کرنے کے لیے نیا حربہ، نیا ہتھیار، نیا شوشہ چھوڑنا شروع کر دیتے ہیں تاکہ ان کی کمیوں اور خامیوں پر کوئی سوال کھڑا نہ ہوسکے۔
ایسا صرف اس لیے ہوتا ہے کہ عوام بیدار نہیں ہیں۔ انہیں اب تک یہ سمجھ میں نہیں آسکا ہے کہ جسے آپ منتخب کرتے ہیں وہ آپ کا ہی ہر سہولت اور حقوق سے محروم کرنے کے لیے انتخاب کر رہے ہیں۔
جمہوریت میں یہ ضروری ہے کہ سیاست سماج کے تابع ہو۔ سیاست سماج کی گرفت میں رہے۔ سیاست سماج پر غالب نہ آئے۔ اگر ایسا ہوا ہے، ہورہا ہے یا ہونے والا ہے تب یہ سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ سیاست سماج کو تاناشاہی کی طرف لے جارہی ہے جو ایک جمہوری حکومت کے لیے خطرہ بن جائے گی۔ ہمارا معاشرہ چونکہ تعلیم یافتہ معاشرہ نہیں ہے، اس لیے اسے گمراہ کرنا آسان ہے۔ اس کے پاس محدود وسائل ہیں اور اسی محدود وسائل کے ذریعہ اس کے رہنما اس کا برین واش کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
عوام چھوٹی چھوٹی مصیبتوں میں گھرے ہیں۔ اس کا مداوا وہ چھوٹے چھوٹے وسائل سے کرتے ہیں۔ پڑوسیوں کی مدد سے، رشتہ داروں کی حمایت سے، اپنے جاننے والوں کے تعاون سے، سماجی بندھنوں میں بندھے لوگ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، ایک دوسرے کے کام آتے ہیں۔ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شامل ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں میں بڑی بڑی خوشیاں تلاش کرتے ہیں۔ ملک کی بیشتر آبادی اپنے مسائل کا حل باہمی اشتراک سے نکالتی ہے۔ ایسے میں اگر نفرت کا بم ان کے گھروندے کو مسمار کر دے تو وہ مزید پریشانیوں میں مبتلا ہو جائیں گے۔ سماج کا شیرازہ بکھرے گا تو ملک کی کمر ٹوٹ جائے گی۔ حالیہ سیاسی ماحول نے ایسا ہی معاشرہ تشکیل دینے کی پہل کی ہے جس کے نتیجہ میں فضا آلودہ ہو گئی ہے۔ ملک کے عوام اپنے ہی ملک کے عوام کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگے ہیں۔ بھروسہ ٹوٹ رہا ہے۔ اعتماد میں کمی آ رہی ہے۔ ملک کے اندر ملک بنتا جارہا ہے۔ اس میں عوام کا بدترین نقصان ہے جبکہ لیڈروں کا بیشمار فائدہ۔
اس بات کو ملک کی اکثریت کو سمجھنا ہے کہ اقلیت سے پریم ان کے لیے مفید ہے یا انہیں نفرت کا ہمسایہ بنانا ہے۔ اقلیت کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے اس کے ہاتھ میں صرف ووٹ ہے جس کا استعمال وہ ملک کی امن پسند جماعتوں کے لیے کرتی رہی ہے تاہم وہاں سے بھی اسے وہ صلہ نہیں ملا جس کی وہ حق دار تھی۔ بھارت کی تشکیل و تعبیر میں بھلے ہی ملک کی سب سے بڑی اقلیت کا ہاتھ ہونا تسلیم نہ بھی کیا جائے تو یہ تو تسلیم کرنا ہی ہوگا کہ بھارت کی تکثیریت کی دھجیاں اڑانے میں مسلمانوں کا کوئی رول نہیں ہے۔
گیند اب پوری طرح اکثریت کے پالے میں ہے کہ وہ ملک کی دَشا و دِشا طے کرے، ہم اقلیت منتظر ہیں کہ ملک کی ترقی و بہبودگی کے لیے جس نے بھی قدم آگے بڑھایا ہم ان کے ساتھ ہوجائیں گے۔ ہمیں سیاست کے آباد خرابے سے کوئی مطلب نہیں ہمیں معاشرہ کے خرابے کی فکر ہے۔ ہم عشق کرنے والے لوگ ہیں، ہمیں نفرت سے نفرت ہے۔ ہم محبت سے نفرت کرتے تو پھر حکومت کرتے۔
تاریخ ہمیں بہت کچھ سکھاتی ہے اور جو ہم نہیں سیکھ پاتے ہیں، اسے بعد میں وقت پڑنے پر سمجھاتی بھی ہے۔ ترقی کی دوڑ میں ہم نے ابھی بہت کچھ کھو دیا ہے اور اسی طرح مزید وہ سب کھو دیں گے جو باقی بچا ہوا ہے۔ ہندو اکثریت اس بات کو جلد سمجھ لے تو بہتر ہے کہ ان کے بچے گمراہی کی راہ پر نکلیں گے تو مجرم ہی بنیں گے۔ بھارت کی آتما ادھیاتمک رہی ہے۔ ساری دنیا میں بھارت مہاتماگاندھی اور مہاتما بدھ کے سہارے مہان بنا ہے۔ یہاں کا صبر و استقلال ، یہاں کی روحانیت سے ہی دنیا کی توجہ بھارت کی طرف مرکوز ہوئی اور ہماری شناخت بنی۔ اگر بھارت جارح رخ اپناتا ہے تو نہ صرف اس کا قدیم ڈھانچہ ڈانواڈول ہوگا بلکہ اس کے بے حد خراب نتائج سامنے آئیں گے۔ اب ہر جگہ یہی دیکھنے کو مل رہا ہے کہ نوجوان نسل خواہ وہ بڑے بڑے اداروں کی تعلیم یافتہ ہو ، نفرت کی کھیتی میں بلی بائی، سلی ڈیلس جیسے جرم کا ارتکاب کر رہی ہے۔ حکومتیں آتی ہیں، تھوڑی دیر ٹھہرتی ہیں، پھر ختم ہو جاتی ہیں، لیکن سماجی ڈھانچہ منہدم ہوتا ہے تو پھر اسے اپنا وقار قائم کرنے میں صدیاں گزر جاتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ سیاست کے اس کھیل کو سماج سے جتنا دور کر دیا جائے، بہتر ہے۔ نام نہاد قومی میڈیا، دھرم سنسد، قومی رہنمائوں کی اقلیت مخالف شعلہ بیانی بھولے بھالے عوام کے ذہن کو منتشر کر رہی ہے اور وہ اپنی بنیادی ضرورتوں اور حقوق سے بیگانہ ہوتے جا رہے ہیں۔ انہیں تعلیم، بے روزگاری اور مہنگائی کی فکر نہ ہو کر ایک ایسی فکر ستا رہی ہے جس میں کوئی سچائی نہیں ہے سیاسی مفادپرستی ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS