ڈاکٹرحافظ کرناٹکی
اللہ نے اپنے بندوں کی ہدایت کے لیے ہر زمانے میں اور ہر قوم میں انبیاء کرام کو مبعوث فرمایاتا کہ اللہ کے بندے اللہ کے بتائے راستے پر چلیں اور اپنے رب سے اپنا رشتہ مضبوط بنائے رکھیں۔ انبیاء کرام کے اس سلسلے کی آخری کڑی ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلّی اللہ علیہ وسلّم ہیں۔ حضورؐ نہ صرف یہ کہ اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں بلکہ دین اسلام کی تکمیل کا ذریعہ بھی ہیں چوں کہ حضورؐ کی بعثت کے بعد دین مکمل ہوگیا اس لیے ان کے بعد اب کسی رسول کی ضرورت نہیں رہ گئی۔
یہ اللہ کا کتنا بڑا کرم ہے کہ اس نے اپنے فضل و کرم سے آخری نبی حضرت محمدؐ کو ساری دنیا کے لیے سراپا رحمت بناکر بھیجا۔ اور ایسی سرزمین میں بھیجا جہاں شرک اور کفر کی تاریکی سب سے زیادہ گہری تھی۔اور ایسی قوم میں بھیجا جو دنیا کی جاہل قوموں میں شمار ہوتی تھی اور جسے لوگ بدوکہتے تھے۔
عرب کے لوگ جہاں اپنی بدویت کی وجہ سے غیر مہذب سمجھے جاتے تھے وہیں مکہ کی سرزمین بھی بڑی سنگلاخ تھی۔ لوگ قبائل میں بٹے ہوئے تھے، اور اپنی جھوٹی شان و شوکت کے لیے ایک دوسرے سے لڑتے رہتے تھے۔ ہم جانتے ہیں کہ عرب کے اس صحرا میں سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے نور نظر حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ حضرت ہاجرہ علیہاالسلام کو آباد کیا تھا۔ اور رخصت ہوتے وقت اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا کی تھی کہ؛’’اے رب ذوالجلال میں تیرے حکم سے اپنی بیوی ہاجرہ علیہا السلام اور اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو تیرے محترم و مقدس گھر کے قریب تیرے سہارے چھوڑ کر جارہاہوں۔ اے میرے رب لوگوں کے دلوں میں ان کے پاس آنے کی رغبت پیدافرماتا کہ یہ تیرے شکر گزار رہیں اور نماز قائم کریں اور اے میرے رب ان میں ایک پیغمبر ان ہی میں سے مبعوث فرما جو انہیں تیری آیتیں پڑھ کر سنائیں۔ انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیں اور ان کو گناہوں اور گندگیوں سے پاک کریں بے شک تو عزت و غلبہ اور حکمت والا ہے۔‘‘
یہ دعائے خلیل اور نوید مسیحا اور فضل خدا ہی کی برکت تھی کہ مکہ کے اس غیر مہذب اور بے دین معاشرے اور سماج میں ہمارے پیارے نبی حضرت محمدؐ کو اللہ نے مبعوث فرمایا۔ مکہ میں بہت سارے قبیلے تھے، ان میں ایک قبیلہ قریش تھا جو عزت و احترام کی نظروں سے دیکھا جاتا تھا۔ اسی قبیلہ کے ایک بزرگ تھے حضرت عبدالمطلب ان کے دس بیٹے تھے، ان میں سے ایک کا نام حضرت عبداللہ تھا۔ جو اپنے اخلاق و کردار کی پاکیزگی وبلندی اور دیانت داری وایمانداری کے لیے بہت محترم سمجھے جاتے تھے ان کی شادی بنوزہرہ کے سردار وہب کی نہایت نیک نفس اور ستودہ صفات بیٹی حضرت بی بی آمنہ سے ہوئی۔ حضورؐ ابھی بطن مادر میں ہی تھے کہ والدماجد کا سایہ سرسے اٹھ گیا۔ حضورؐ ابھی بطن مادر میں ہی تھے کہ والدہ ماجدہ کو ایسی نشانیوں کا پتہ چل گیا کہ جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ ہونیوالا بچہ نہایت غیر معمولی ہے۔ عبدالمطلب نے بھی ایک خواب دیکھا جسے میں نے اپنی منظوم سیرت’’ہمارے نبیؐ‘‘ میں نقل کیا ہے۔
حضورؐ کی ولادت کے وقت اور بھی کئی معجزے رونما ہوئے جن کا ذکر مختلف روایات میں کیا گیاہے۔ کہاجاتا ہے کہ فارس کے آتش کدے کی آگ اچانک بجھ گئی۔ کسریٰ کے محل کے کئی کنکرے ٹوٹ کر گر گئے۔ گویا یہ نشانیاں تھیں کہ عنقریب ظلم و جبر اور کفر و شرک پر زوال آنیوالا ہے۔ اور خدائے واحد کا نعرۂ مستانہ گونجنے والا ہے۔
بہرحال پیر کے دن صبح صادق کے وقت جب شبنم گلوں کا منہ دھلارہی تھی اور خنک ہوائیں چل رہی تھی، عرب کی جلتی فضا میں ٹھنڈک رچی بسی تھی اور پرندے اپنے رب کی حمد و ثنا میں مصروف تھے، حضورؐ کی ولادت ہوئی۔ دادا نے نہایت محبت سے اپنے لاڈلے پوتے کا نام محمدؐ رکھا اور والدہ ماجدہ نے بے پناہ شفقت کے جذبے سے سرشار ہو کر اپنے لخت جگر اور نور نظر کا نام احمد رکھا۔ یہ دونوں نام بالکل نئے تھے۔ عرب میں اس طرح کے نام نہیں رکھے جاتے تھے۔ حضورؐ عام الفیل کے سال پیدا ہوئے۔ یہ بھی ایک معجزہ ہی ہے۔ ابرہہ نام کے ایک بادشاہ نے کعبہ کو ڈھانے کا ارادہ کرلیا اور ہاتھیوں کے لشکر کے ساتھ مکہ پر حملہ آورہوا۔ مگر اللہ نے ابابیل کا لشکر بھیج کر ابرہہ کے لشکر کو تباہ کردیا۔ گویا یہ کھلا ہوا خدائی اعلان تھا کہ اب اللہ کے گھر کا محافظ آرہا ہے اس لیے اس کے گھر کو اب کوئی تباہ نہیں کر سکے گا۔ حضورؐ نے اپنی ابتدائی زندگی سے بہت سارے غموں کا سامنا کیا۔ والد کا سایہ پیدائش سے پہلے ہی سر سے اٹھ گیا۔ اس کے بعد والدہ ماجدہ کی ممتا سے بھی محروم ہوگئے۔ دادا نے محبت سے پرورش کی مگر وہ بھی بہت جلد داغ مفارقت دے گئے۔ اس کے بعد چچا ابو طالب نے کفالت کی ذمہ داری قبول کی، مگر جب حضورؐ نے خدا کے حکم سے نبوت ملنے کے بعد دین حق کی تبلیغ شروع کی تو سارا مکہ آپ ؐ کا دشمن ہوگیا اور پھر متفقہ طور پر سارے مکہ کے لوگوں نے آپؐ کو اور آپؐ کے خاندان والوں کو شعب ابی طالب میں ایک خاص طرح کی قید و بند میں ڈال دیا۔ اسی آزمائش کے زمانے میں نہایت وفادار، خدمت گزار، اور غمگسار بیوی حضرت خدیجہ ؓ کا بھی انتقال ہوگیا۔ مگر آپ نے کمال حوصلہ و ہمت کے ساتھ ہر طرح کے مصائب اور مشکلوں کا سامنا کیا۔ لوگوں کی گالیوں کے جواب میں دعائیں دیتے رہے۔ ستانے والوں کو راحت پہونچانے کی کوشش کرتے رہے۔ راہوں میں کانٹے بچھانے والوں، گردن مبارک پر اوجھ ڈالنے والوں، سرپر کوڑا کرکٹ ڈالنے والوں کے ساتھ ایسی محبت اور مروّت کا برتاؤکرتے رہے کہ لوگ اپنی حالتوں پر نادم ہوتے رہے۔ اور آپ کے اخلاق و کردار سے متأثر ہو کر ہزار طرح کی مصائب جھیل کر لوگ اسلام کے دائرے میں داخل ہوتے رہے۔
ابتدا میں اکثر غریب اور غلاموں نے اسلام کی دعوت قبول کی جنہیں اپنے ظلم کا نشانہ بنانے میں اہل مکہ نے انسانیت کی ساری حدیں توڑ دیں۔ یہاں تک کہ مکہ کے لوگوں نے کئی بار آپؐ کو نعوذ بااللہ قتل کرنے کی بھی کوشش کی مگر اللہ آپؐ کا مددگار رہا اور پھر اللہ کے حکم سے جب کہ مکہ میں مسلمانوں کے لیے کھل کر سانس لینی بھی مشکل ہوچکی تھی۔ مسلمانوں نے اور آپؐ نے مدینہ ہجرت کی۔ یہاں بھی کافروں، مشرکوں اور یہودیوں نے آپ کو اطمینان کی سانس نہیں لینے دی اور ایک کے بعد ایک فتنے مسلمانوں اور آپؐ کے خلاف اٹھتے رہے۔ آپؐ اور آپؐ کے اصحاب کرامؓ اللہ کی ذات پر بھروسہ کرکے ہر صورت حال کا نہایت صبر و تحمّل سے سامنا کرتے رہے۔ اور اللہ کے فضل سے آپؐ کو ہر سطح پر کامیابی ملتی رہی اور اللہ کا دین پھیلتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ وہ دن بھی آیا کہ جب آپؐ اور آپؐ کے اصحاب کرامؓ مکہ میں فتحیاب ہو کر داخل ہوئے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ آپؐ نے کس قدر رحمدلی، محبت، مروّت، درگزر، اور نرم دلی سے کام لیا کہ ان سبھی لوگوں کو معاف کردیا جنہوں نے براہ راست آپ کو قتل کرنے کی کوشش کی۔ آپ کے قتل کی سازش رچی۔ آپ کے محبوب چچا حضرت حمزہؓ کا مثلہ بنایا۔ آپؐ کی صاحبزادی کی موت کا سبب بنے۔ ایسی رحمدلی، عفو و درگزرکی ایسی مثال دنیا کی تاریخ میں آج تک نہیں دیکھی گئی اور نہ سنی گئی۔
یہ آپؐ کی ذات بابرکات اور صفات عظمیٰ ہی کی برکت ہے آپؐ کی حقانیت اور رفعت وعظمت کی گواہی صرف اپنوں نے نہیں غیروںنے بھی دی ہے۔ انگریز مصنف مائیکل ہارٹ نے جب اپنی مشہور زمانہ کتاب سو’’ عظیم انسان‘‘ لکھی تو اس میں سب سے پہلے آپؐ کا ذکر کیا اور دلائل سے ثابت کیا کہ کائنات میں اوّل درجے کی شخصیت اگر کوئی ہے تو وہ محمد صلّی اللہ علیہ وسلّم کی ہے۔
آپؐ کی ذات والا صفات اور اخلاق کریمانہ کایہ حال تھا کہ مکہ میں جب قحط پڑا اور اہل مکہ نے جب آپؐ سے دعا کی درخواست کی تو آپؐ نے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے تقریباً چار سال تک آپؐ کا دانہ پانی بند کررکھا تھا دعا کی اور تعاون بھی فرمایا۔ مکہ ایک تجارتی شہر تھا یہاں نجد کی طرف سے مال تجارت آیا کرتا تھا وہاں کے سردار ثمامہ بن اثال جب مشرف بہ اسلام ہوئے تو انہوں نے مکہ کی طرف غلّہ بھیجنا بند کردیا اور کہا جب تک حضورؐ کی اجازت نہ ہوگی ایک دانہ بھی مکہ نہیں جائے گا۔ آپؐ کو جب اس کا علم ہوا تو آپؐ نے ان کو ایسا کرنے سے منع کردیا اور بدستور غلّہ بھیجتے رہنے کو کہا۔
آپؐ کے انہی اخلاق کریمانہ کی وجہ سے حضرات صحابہ کرامؓ آپؐ کے دیوانے تھے اور کافر و مشرک کے دلوں میں بھی آپؐ کی عظمت کا احساس جاوداں تھا۔ عروہ بن مسعود ثقفی کوقریش مکہ نے صلح حدیبیہ سے پہلے اپنا سفیر بناکر آپؐ کی خدمت میں بھیجا۔ ان کو اچھے سے سمجھا دیا گیا تھا کہ وہاں جانے کے بعد مسلمانوں کے حالات کا باریکی سے جائزہ لے۔ مدینہ کے ماحول کو سمجھنے کی کوشش کرے اور وہاں سے آنے کے بعد وہاں کی تمام صورت حال سے قوم کو آگاہ کرے۔
ہم مسلمانوں کا یہ فرض ہے کہ اپنے دلوں میں عشق الٰہی اور عشق رسول کی آگ کو زندہ رکھیں۔ حضورؐ کی سیرت کے مطابق اپنی زندگی کوڈھالیں، ان کے اخلاق کریمانہ کو اپنائیں۔ خدا کے حکم سے سرتابی نہ کریں۔ زندگی کے ہر معاملے میں انصاف، اور میانہ روی سے کام لیں۔ حالات چاہے جتنے خراب ہوں ثابت قدمی اور خود اعتمادی سے اس کا سامنا کریں۔ ظالموں سے نہ ڈریں نہ گھبرائیں۔ کمزوروں کے ساتھ محبت اور مروّت کا برتاؤ کریں۔ حق کے راستے پر بغیر کسی خوف و ہراس کے چلیں۔ دین اسلام کی تعلیمات سے دنیا کو آگاہ کریں۔
خود کو دین اسلام کا پیروکاربنائیں۔ جھوٹے اور بے بنیاد الزامات کا دفاع وقار کے ساتھ کریں۔ غصّے میں نہ آئیں اور نہ جذبات کا شکار ہوں، مومنانہ فراست سے کام لے کر ہر مسٔلے کا حل تلاش کریں۔جہاں تک ہوسکے دین کے احکامات پر عمل کریں۔ اس کے پیغام کو دوسروں تک پہونچائیں۔ انشاء اللہ کامیابی ہمیں ہی نصیب ہوگی۔ کیوں کہ دنیا میں کوئی ایسی طاقت نہیں ہے جو محبت، مساوات، حسن سلوک، خدمت خلق، بلند اخلاقی اعلیٰ ظرفی، پاکیزہ کردار، حسن معاشرت، اور سچائی و انصاف کو ہراسکے۔ یہ سب کی سب وہ چیزیں وہ طاقتیں ہیںجو لوگوں کے دلوں کو فتح کرلیتی ہیں۔ اور یہ ساری صفات اسلام کی پسندیدہ صفات ہیں۔ ضرورت بس اس بات کی ہے کہ ہم اپنے نبیؐ کی سیرت کو اپنی عملی زندگی میں اپنالیں۔