ہم نہ چھوڑیں تو اسرائیل کیلئے اپنے یرغمالیوں کی بازیابی ممکن نہیں: حماس

0
ہم نہ چھوڑیں تو اسرائیل کیلئے اپنے یرغمالیوں کی بازیابی ممکن نہیں: حماس
ہم نہ چھوڑیں تو اسرائیل کیلئے اپنے یرغمالیوں کی بازیابی ممکن نہیں: حماس

غزہ/ تل ابیب (ایجنسیاں): حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ہانیہ نے زور دے کر کہا ہے کہ جب تک تمام فلسطینی قیدیوں کو اسرائیلی جیلوں سے رہا نہیں کیا جاتا اسرائیل کبھی بھی اپنے قیدیوں کو بازیاب نہیں کرسکے گا۔انہوں نے منگل کے روز قطر کے دارالحکومت دوحہ میں منعقدہ انٹرنیشنل یونین آف مسلم اسکالرز کی کانفرنس کے دوران خطاب میں مزید کہا کہ اسرائیل غزہ کی پٹی پر جاری جنگ میں قتل عام اور نسل کشی کے باوجود اپنے کسی بھی اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ انہوں نے غزہ میں جاری جنگ کو نسل کشی کی جنگ قرار دیتے ہوئے اسرائیل پر غزہ میں نہتے فلسطینیوں کے اجتماعی قتل عام کا الزام عاید کیا۔حماس کے لیڈر نے کہا کہ اسرائیل نے تین اہداف طے کیے ہیں: ’مزاحمت کا خاتمہ، قیدیوں کی بازیابی اور غزہ سے مصری سرزمین کی طرف نقل مکانی‘ اور یہ کہ وہ ان میں سے کسی کو حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ہانیہ نے اپنی تقریرمیں نشاندہی کی کہ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ غزہ کی پٹی میں ہمارے لوگوں کے خلاف امریکی اسرائیلی جارحیت ہے۔ انہوں نے غزہ میں انسانی صورتحال کو ’تباہ کن‘ قرار دیتے ہوئے صورت حال کی تمام تر ذمہ داری اسرائیل اور امریکہ پرعاید کی۔

دوسری جانب جیریمی کوربن نے برطانوی حکومت سے عالمی عدالت انصاف میں چلنے والے غزہ نسل کشی کیس کی حمایت کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق برطانوی لیبر پارٹی کے سابق رہنما جیریمی کوربن نے برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جنوبی افریقہ کی جانب سے اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں دائر نسل کشی کے مقدمے کی حمایت کرے۔کوربن نے پیر کو پارلیمنٹ میں ایک تقریر میں کہا کہ بہت سے لوگ اس بات پر بہت خوش ہیں کہ جنوبی افریقہ کی حکومت نے غزہ میں بے گناہ لوگوں کی ہلاکتوں کیلئے اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرانے کیلئے بین الاقوامی عدالت انصاف کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔انھوں نے کہا برطانوی حکومت کم از کم جنوبی افریقہ کے عمل کی حمایت تو کر سکتی ہے۔

واضح رہے کہ جنوبی افریقہ اور اسرائیل اس ہفتے جمعرات اور جمعہ کو ہیگ میں عوامی سماعتوں میں دلائل پیش کریں گے۔بولیویا، اردن، ملیشیا اور ترکی کی حکومتوں کے ساتھ ساتھ اسلامی تعاون تنظیم نے بھی جنوبی افریقہ کی اس درخواست کی حمایت کا اظہار کیا ہے، جبکہ اقوام متحدہ میں فرانس کے سفیر نے کہا ہے کہ فرانس عدالت کے فیصلے کی حمایت کرے گا۔

اس دوران اسرائیل کے مسلح افواج کے ترجمان ڈینیل ہاگاری نے کہا ہے کہ ’ہم زیر محاصرہ غزہ کی پٹی پر قبضے کیلئے ’ایک نئے اور نسبتاً کم شدید مرحلے‘میں داخل ہو گئے ہیں‘۔ ڈینیل ہاگاری نے غزہ کے بارے میں امریکی روزنامہ ’دی نیویارک ٹائمز‘کیلئے انٹرویو میں کہا ہے کہ اسرائیلی فوج نے غزہ پر قبضے کا ایک نیا اور نسبتاً کم شدید مرحلہ شروع کر دیا ہے۔ اس مرحلے میں اسرائیل کے زمینی و فضائی حملوں کی تعداد میں کمی کر دی جائے گی۔ یہ نیا مرحلہ رواں مہینے میں شروع ہو جائے گا اور اس کے ساتھ اسرائیل غزہ میں فوجیوں کی تعداد میں بتدریج کمی کرتا جائے گا۔

اسرائیلی فوج وسیع پیمانے کے حملوں کی جگہ ہدف پر چھاپے کی حکمت عملی اختیار کرے گی۔ غزہ کے شمال میں حملوں کی تعداد میں کمی آنا شروع ہو گئی ہے۔ ہم، خاص طور پر خان یونس اور غزہ کی پٹی کے وسطی شہر دیر البلخ پر توجہ مرکوز کریں گے۔ انہوں نے اسرائیل کے خلاف نسل کشی کے الزامات کو مسترد کیا اور کہا ہے کہ ہم، مہاجرین کیلئے خیموں سمیت انسانی امداد کے مزید سامان کے غزہ میں داخلے کے خواہشمند ہیں۔ہاگاری نے دعوی کیا ہے کہ ’ہم نے شہری اموات کے سدباب کیلئے ہر طرح کی حفاظتی تدابیر اختیار کی ہیں۔ اصل میں حماس نے اپنا فوجی انفرااسٹرکچر شہری علاقوں میں پھیلا کر شہریوں کی زندگی کو خطرے میں ڈالا ہے‘ جبکہ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ اسرائیل عرب تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے غزہ میں جنگ بندی ضروری ہے۔اے بی سی نیوز کے مطابق، بلنکن نے مشرق وسطی کے دورے کے دوران اسرائیل روانگی سے قبل ہوائی اڈے پر ایک بیان میں اس بات کا اظہار کیا۔بلنکن نے کہا کہ انہوں نے مشرق وسطی میں ملاقاتوں کے دوران غزہ میں بحالی امن کے سلسلے میں مدد گار بننے کی کوشش کی ہے۔امریکی وزیر خارجہ نے سعودی عرب کے دورے کے دوران عرب- اسرائیل تعلقات معمول پر لانے اور ہم آہنگی کو بڑھانے کیلئے غزہ میں جنگ بندی کی اور فلسطینی ریاست کے قیام کی ضرورت پر زور دیا تھا۔

دریں اثنا اسرائیل میں حزب اختلاف لیڈر یائر لاپد نے نیتن یاہو کو اقتدار کیلئے ناموزوں قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ وہ حکومت میں تبدیلی لائیں یا قبل از وقت انتخابات کروائیں۔ حزب اختلاف کی یاش اتید پارٹی کے لیڈر اور سابقہ وزیراعظم یائر لاپد نے ’ایکس‘ پر پوسٹ میں نیتن یاہو کو آڑے ہاتھوں لیا۔ لاپد نے جنگی کابینہ میں شامل بینی گانٹز،گادی آئسن کوت اور گیدون سعار سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ جب تک اس کابینہ میں رہیں گے، وہ اپنے فیصلوں کو یونہی جائز قرار دیتے رہیں گے۔

لاپد نے کہا کہ اسرائیل کو ایک نئی کابینہ یا نئے وزیراعظم کی ضرورت ہے، بینی گانٹز، گادی آئسن کوت اور گیدون سعار کو حکومت سے علیحدگی اختیار کرلینی چاہئے،یہ حکومت جنگی صورتحال سے نمٹنے اور حکومت کرنے میں ناکام ہے۔ حزب اختلاف کو 120رکنی پارلیمان میں 24نشستیں حاصل ہیں، جس کا ماننا ہے کہ وہ ایک متبادل حکومت کے قیام یا قبل از وقت انتخابات کیلئے تیار ہے۔دوسری جانب نیتن یاہو کی عوام میں مقبولیت بھی بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے، جن کا کہنا ہے کہ اس قسم کے مطالبات جنگ ختم ہونے کے بعد کیے جائیں تو بہتر ہوگا، لیکن ناقدین یہ مانتے ہیں نیتن یاہو اقتدار چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ غزہ میں جنگ کے دوران ایک طرف امریکی وزیر خارجہ اسرائیل کے دورے پر تل ابیب پہنچ گئے ہیں اور دوسری طرف اسرائیلی وفد یرغمالیوں کی رہائی پر مذاکرات کیلئے مصر کے دارالحکومت قاہرہ پہنچ گیا ہے۔

 مزید پڑھیں: اسرائیلی کے حملے میں حزب اللہ کے سینیئر کمانڈر ساتھی سمیت شہید

یہ بھی پڑھیں:استاد راشد خان کا طویل علالت کے بعد انتقال، ممتا بنرجی نے اہل خانہ سے ملاقات کیں

امریکی شہر ڈیلاس میں امریکی صدر کے طیارہ کی لینڈنگ سے قبل ایئرپورٹ پر بڑی تعداد میں فلسطین کے حامی جمع ہوگئے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق ایئر پورٹ پر جمع ہونے والے شہری فلسطین کے پرچم تھامے ہوئے تھے۔امریکی صدر جو بائیڈن کی آمد کے موقع پر مظاہرین نے ان کے خلاف نعرے لگائے اور جنگ بندی کرانے کا مطالبہ کیا۔ فلسطین کے حامی شہریوں نے شیم شیم کے نعرے بھی لگائے، اس دوران سیکورٹی اہلکاروں نے درجن سے زائد مظاہرین کو گرفتار کرلیا۔دریں اثنا جنوبی کیرولینا میں امریکی صدر جوبائیڈن کی تقریر کے دوران شرکا نے فلسطینیوں کے حق میں نعرے لگا دیے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS