امام علی مقصود فلاحی
موجودہ دور میں ہر شخص خواہ وہ امیر ہو یا غریب، مسلم ہو ہندو، سکھ ہو یا عیسائی ہرشخص پریشان ہے، کیونکہ ملکی معیشت بدحال ہو چکی ہے، کار خانے اور کمپنی سارے خسارے میں پڑے ہیں، مزید براں لاک ڈاؤن کا سلسلہ تھوڑا بہت چالو ہے، لوگوں کو ایک جگہ سے دوسرے جگہ جانے میں بھی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، لوگ مارے مارے پھر رہے ہیں۔ اس ملک میں خاص طور سے لوگوں کا شمار تین طبقوں میں ہوتا ہے۔ پہلا طبقہ وہ ہے جسکا شمار خاص طور سے غریبوں میں ہوتا ہے۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جسکا شمار خاص طور پر امیروں میں ہوتا ہے۔ اور تیسرا طبقہ وہ ہے جسکا شمار نہ زیادہ غریبوں میں ہوتا ہے نہ ہی زیادہ امیروں میں ہوتا ہے بلکہ یہ وہ طبقہ ہوتا ہے جسکا تعلق اوسط لوگوں سے ہوتا ہے۔ اب اگر پہلے طبقے کو دیکھا جائے تو وہ تو بالکل بدحال ہوچکا ہے، کیونکہ اسکے پاس نہ تو کمانے کا کوئی خاص ذریعہ ہے، نہ رہنے کی کوئی خاص جگہ، انکو جہاں جو مل جاتا ہے وہاں وہ کرتا ہے،جیسے اگر اسکو کہیں مزدوری کا موقع مل جائے تو وہ کرلیتا ہے، یا چھوٹے پیمانے پر کھیتی باڑی کرکے اپنا گھر چلاتا ہے، اسکے باوجود ہر چیز میں ٹیکس دیتا ہے، ایک تو اسکی معاشی حالت بہتر نہیں، تھوڑا موڑا کماتا ہے، اسمیں بھی سرکار اس سے ہر چیز میں ٹیکس لیتی ہے۔
اسی طرح وہ طبقہ جسکا شمار اوسط درجہ کے لوگوں میں ہوتا ہے، جو نہ زیادہ غریب ہوتا ہے نہ زیادہ امیر بلکہ جو درمیان میں ہے وہ بھی پریشانیوں کا سامنا کرتا ہے، وہ اس وجہ سے کہ اسکے پاس پیسہ تو ہے لیکن اس میں ٹیکس کا بوجھ بھی شامل ہے، ہر چیز میں ٹیکس دے رہا ہے، اسکی کمائی کا سوا حصہ ٹیکس میں جا رہا ہے تو آدھا حصہ کھانے پینے میں جارہا ہے اور کچھ حصہ دوا داروں میں لگ رہا ہے جسکی وجہ سے اسکے پاس بینک بیلنس نہیں ہو پارہا ہے، بچوں کی زندگی کو خوشگوار نہیں بنا پا رہا ہے۔
لیکن وہ طبقہ جسکا شمار خاص طور سے امیروں میں ہوتا ہے، جو پڑے پیمانے پر بزنس کرتا ہے، اسکا تو کوئی گھاٹا نہیں ،جیسے اڈانی اور امبانی کا حال ہے، جتنا وہ ٹیکس دیتے ہیں اس سے کہیں زیادہ اپنے پاس رکھتے ہیں۔
خلاصہ کلام یہ نکلا کہ لوگوں کی پریشانیوں میں کچھ نہ کچھ ٹیکس کا بھی دخل ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ ٹیکس کیا ھے؟ تو اسکا جواب یہ ہے کہ ٹیکس وہ رقم ہے جسکا تعلق عوامی آمدنی سے ہوتا ہے، یا یوں کہہ لیں کہ ٹیکس وہ چیز ہے جس کے ذریعے زیادہ تر عوامی آمدنی حاصل کی جاتی ہے۔ جسکا مقصد ملک کے اکانومی کو بڑھانا ہے اور اسی کے ذریعے ملک کے عام شہریوں اور ملک کے دیگر کاموں کو بہتر بنانا ہے۔
ٹیکس کی قسمیں: ٹیکس کی دو قسمیں ہیں _
(١) براہ راست ٹیکس۔ (٢) بالواسطہ ٹیکس۔
براہ راست ٹیکس، وہ ٹیکس ہے جسکا اطلاق ٹیکس دہندگان کی قوت خرید پر منحصر ہوتا ہے، یا یوں کہہ لیجئے کہ وہ ٹیکس جو خالص کسی ایک شخص پر عائد ہوتا ہے اور وہ فرد بذات خود اور براہ راست اس ٹیکس کو سرکار کے حوالے کرتا ہے۔ اس ٹیکس کی کچھ مثالیں انکم ٹیکس ، کارپوریشن ٹیکس یا پروپرٹی ٹیکس وغیرہ ہیں۔ بالواسطہ ٹیکس، وہ ٹیکس ہے جو خاص طور پر کسی ایک شخص پر لاگو نہیں ہوتا ہے، یعنی کہ یہ ٹیکس براہ راست وہی شخص نہیں ادا کرتا جس پر ٹیکس لگایا گیا ہے بلکہ اس ٹیکس میں ہر شخص شامل ہوتا ہے چاہے وہ امیر ہو یا غریب ہو۔ اسکی سب سے اچھی مثال ہے “جی ایس ٹی” ۔
فرض کرلیں کہ اگر سرکار نے دودھ پر جی ایس ٹی بڑھا دیا تو ظاہر ہے کہ جو دودھ بیچنے والے اور جو دودھ کی کمپنیاں ہیں وہ بھی دودھ کی قیمت بڑھا دے گی۔ اسکے بعد جب ہم دودھ خریدنے جائیں گے تو کچھ روپے مزید ادا کرنے پڑیں گے، اور وہ روپے ہم دودھ والے کو دیں گے یا اس کمپنی کو دیں گے جہاں سے دودھ لا رہے ہیں، پھر ان ہی زائد پیسوں کو وہ دودھ بنانے والی کمپنی سرکار کو دے گی۔ تو اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہم جی ایس ٹی ادا کر رہے ہیں، اور کچھ پیسے زیادہ ادا کر رہے ہیں اور انہی پیسوں کو وہ دودھ سپلائر سرکار کو بشکل جی ایس ٹی ادا کر رہا ہے۔ تو یہ بالواسطہ ٹیکس ہوا جو ہم بذات خود نہیں ادا کر رہے ہیں، بلکہ بذریعہ جی ایس ٹی ادا کررہے ہیں۔
اب اگر ان دونوں ٹیکسس کو مد نظر رکھتے ہوئے عوام کے احوال کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ شخص جو غریب ہے وہ مزید غربت کا شکار ہو رہا ہے، وہ اس طرح کہ ایک تو اسکے پاس کمانے کھانے کو پیسے نہیں ہیں، لیکن جب وہ کوئی چیز خریدتا ہے تو اس پر اس سے ٹیکس بشکل جی ایس ٹی لیا جاتا ہے، جس سے اسکا نقصان ہی ہوتا ہے، جس سے ٹیکس کا مقصد بھی فوت ہوجاتا ہے۔
اسی طرح وہ طبقہ جسکا شمار اوسط لوگوں میں ہوتا ہے ہے وہ بھی کنگال ہوجاتا ہے، وہ اس طرح کہ اسکے کچھ پیسے انکم ٹیکس میں چلے جاتے ہیں، کچھ پیسے پراپرٹی ٹیکس میں چلے جاتے ہیں، کچھ پیسے کارپوریشن ٹیکس میں چلے جاتے ہیں، کچھ پیسے زندگی کی ضروریات میں صرف ہوجاتے ہیں، اور کچھ رقم دوا داروں میں خرچ ہو جاتے ہیں، جسکی وجہ سے پھر وہ اپنے پیسوں کو چھپاکر رکھنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں، جنہیں سرکار بلیک منی کا نام دیتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بعض ماہر معاشیات کا خیال یہ ہے کہ ملک کی معیشت کو بڑھانے کے لئے ضروری ہے کہ ٹیکس کو ختم کردیا جائے۔ جیسا کہ ماہر معاشیات سبرامنیم سوامی کا کہنا ہے کہ ملکی معیشت کو آگے بڑھانے کے لیے انکم ٹیکس ختم کرنا پڑے گا۔
لیکن پھر سوال یہ ہوتا ہے کہ ٹیکس کو ختم کرنے سے ملکی معیشت کیسے آگے بڑھے گی؟
تو اسکا جواب یہ ہے کہ جب ٹیکس کو ختم کردیا جائے گا تو لوگ ان ہی پیسوں کو اپنے اوپر خرج کریں گے، جسکی وجہ سے وہ پیسہ اکانومی میں زیادہ گردش کرے گی، اور یہ بات ظاہر ہے کہ جب اکانومی میں پیسے کا سرکیولیشن زیادہ ہوگا تو ملکی معیشت میں بھی ترقی ہوگی۔
دوسری بات یہ ہے کہ وہ لوگ جو اپنے پیسوں کو چھپا کر رکھا کرتے تھے، انکم ٹیکس ختم کرنے کی وجہ سے انکا بلیک منی بھی اب وائٹ منی بن جائے گا، پھر وہ اپنے ان ہی پیسوں کو کھلم کھلا استعمال کریں گے، جسکی وجہ سے اکانومی میں ان پیسوں کا گردش بھی ہوگا، علاوہ ازیں وہ لوگ اپنے ان پیسوں کو بینک میں جمع بھی کروائیں گے جسکی وجہ سے بینک سے سودی رقم بھی کم یا ختم ہو سکتے ہیں اور لوگوں کو بینک سے ادھار لینے میں بھی کوئی دشواری نہ ہوگی۔
تیسری بات یہ ہے کہ سرکار جو پیسہ خرچ کر رہی ہے انکم ٹیکس وصول کرنے میں ، انکم ٹیکس وصول کرنے کے لئے جو ویب سائٹ اور کاغذات مہیاء کرانے میں جو پیسہ خرچ ہوتا ہے وہ بھی بچے گا، اسی طرح انکم ٹیکس آفیسر پر جو پیسہ لگایا جاتا ہے وہ پیسہ بھی بچ جائے گا۔ اب سرکار یہاں پر یہ سوال کھڑا کر سکتی ہے کہ ہمارا جو پیسہ خرچ ہورہا ہے اس پیسے کی بھرپائی کیسے ہو گی؟ تو اسکا جواب بھی یہ دیا جاتا ہے کہ جب انکم ٹیکس کو ختم کردیا جائے گا تو خودبخود ملکی معیشت بہتر ہو جائے گی اور جب ملکی معیشت بہتر ہو جائے گی تو وہیں سے دوسرے ذرائع بھی سرگرم ہوں گے جیسے جی ایس ٹی وغیرہ جس کے ذریعے سرکار کا جو پیسہ خرچ ہوا ہے اسکی بھرپائی آسانی سے ہو جائے گی۔
اسی لئے عقل یہ کہتی ہے کہ اگر ملک سے انکم ٹیکس کو ختم کردیا جائے تو ملکی معیشت میں ترقی ہو سکتی ہے۔
متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد۔