ہندوستان میںجی20-کی کامیابی کے بعدوزیراعظم نریندر مودی اظہارفخر کرتے ہوئے خوش کلامی کے جوہر دکھا نے کے ساتھ ساتھ خواب فروشی کا سلسلہ بھی شروع کرچکے ہیں۔ دعویٰ کررہے ہیں کہ آج ان کے عہدحکومت میں ہندوستان، دنیا کی قیادت کا بار اٹھائے ہوئے ترقی اور خوشحالی کے ایسے راستہ پر گامزن ہے جہاں ہر قدم پر لالہ و گل بکھرے ہوئے ہیں۔ دنیا ان کے نقش پا ڈھونڈ رہی ہے اور ہر ملک کی خواہش ہے کہ وہ تدبیر حکمرانی اورا مور ریاست میں مودی جی سے استفادہ کرے۔ممکن ہے ان کی یہ خودستائی، خوش کلامی اور خواب فروشی بہتوں کو پسندآئے اور اسے الہامی صداقت سمجھ کراس پر ایمان بھی لے آئیںاور اپنے اپنے آرزوئوں کے بتکدے میں وزیراعظم نریندر مودی کو صنم کی طرح استادہ کرکے ان کی پرستش بھی شرو ع کردیں۔
لیکن سنگلاخ اور برہنہ حقیقت یہ ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی اور بھارتیہ جنتاپارٹی کی رائج الوقت سیاست نے ہندوستان کی تہذیب و ثقافت کاگریبان چاک کرکے اسے عالمی برادری میں سامان رسوائی بنا ڈالا ہے۔بے سمت خارجہ پالیسی سے لے کر ہندوستان کا داخلی انتشار ، زہرناک فرقہ واریت، غلیظ و متعفن جوہڑ میں تبدیل ہوتا ایوان قانون سازدنیا بھر کے چوپالوں میں آج بحث کا موضوع ہے۔ اقلیتیں غیرمحفوظ ہیںاور نسل کشی کی دہلیز پر انہیں لا کھڑا کیا گیا ہے، سماجی انصاف ناپیدہوچکاہے ، عدل و انصاف کو مزاحمتوں کا سامنا ہے، حکمرانوں کے سامنے قانون بونا ہوچکا ہے ، ثقافتی اور مذہبی تنوع کا احترام اٹھ چکا ہے۔جو چیز پھل پھول اور انڈے بچے دے رہی ہے، وہ ہے نفرت انگیزی،فرقہ واریت ، مذہبی عدم برداشت اور تصادم۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا ہے جب ہندوستان کے کسی نہ کسی کونے سے ہماری تہذیبی اور ثقافتی روایتوںکانوحہ سناتاکوئی واقعہ سامنے نہ آتا ہو۔
ایسے ہی واقعات کا مرقع لیے ایک رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کے معاملے میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوا ہے حتیٰ کہ پارلیمنٹ تک میں مسلمان رکن نفرت انگیزی، زبانی تشدد ، فحش کلامی اور گالی گلوچ سے محفوظ نہیں ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی کے واقعات عام اور معمول کا حصہ بنتے جارہے ہیں۔ جیسے ہی لوک سبھا یا اسمبلی انتخابات قریب آتے ہیں، ملک بھر میں یا انتخابی ریاستوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کے معاملات میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے تاکہ ہندوؤں اور مسلمانوں کو پولرائز کرکے آسانی سے انتخابات جیتا جا سکے۔ جب پولرائزیشن ہوتا ہے تو اس کا فائدہ صرف بی جے پی کو ملتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
کیا ہندوستان میں اقلیتوں کے بنیادی حقوق ختم ہو رہے ہیں؟ : عبدالماجد نظامی
ہندوستان میں فرقہ واریت پر نظر رکھنے والی تنظیم ’ہندوتوا واچ‘ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ 2023 کے پہلے چھ مہینوں میں نفرت انگیز تقاریر کے 255 کیس درج کیے گئے ہیں۔ جنوری اور جون کے درمیان نفرت انگیز تقاریر کے ریکارڈ کیے گئے واقعات میں سے 70 فیصد ان ریاستوں میں ہوئے جہاں 2023 یا 2024 میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ نفرت انگیز تقریر کے سب سے زیادہ کیس مہاراشٹر، کرناٹک، مدھیہ پردیش، راجستھان اور گجرات میں دیکھے گئے۔ ان میں مہاراشٹر سرفہرست ہے، جہاں 29 فیصد کیس درج ہوئے ہیں۔زیادہ تر معاملات میں مسلمانوں کے سماجی و اقتصادی بائیکاٹ اور ان کے خلاف تشدد پر اکسانے کی بات کی گئی۔ ان نفرت آمیز مکالموں میں اکثر ایسی باتیں کہی گئیں جن کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں تھی اور یہ سازشی تھیوریوں سے متاثر تھیں۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 80 فیصد کیس ان ریاستوں میں پیش آئے جہاں وزیراعظم نریندر مودی کی بی جے پی اقتدار میں ہے۔ ’ہندوتوا واچ‘ نے کہا کہ اس نے ہندو قوم پرست تنظیموں کی آن لائن سرگرمیوں کی نگرانی کی، سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی نفرت انگیز تقریر پر مشتمل ویڈیوز کی تصدیق کی اور میڈیا میں رپورٹ ہونے والے کیسز کی بنیادپر یہ اعداد و شمار مجتمع کیے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
جب ہم سب ایک قوم ہیں تو تفرقہ کیوں؟
’ہندوتوا واچ‘ کی یہ رپورٹ اپنی اصل میں اہل وطن کیلئے کوئی انکشاف بھلے ہی نہ ہو لیکن اس رپورٹ میں عالمی برادری کے سامنے ہماری رسوائی کا سامان وافر ہے۔ ایک جانب وزیراعظم نریندر مودی دنیا بھر کی قیادت کا بار اٹھانے اور دنیا کی رہنمائی کا خواب دکھارہے ہیں تو دوسری جانب ان کی ’مدبرانہ اوردانشمندانہ قیادت‘ کا براہ راست فیض اٹھارہے ہندوستان کے اندر مسلمانوں بلکہ انسانیت کے خلاف ہونے والے جرائم کی تفصیلات مع ثبوت و شواہد ہیں۔ممکن ہے کہ مرکزی حکومت یا اسیران مودی اس رپورٹ کی صداقت سے انکار کردیں لیکن ان کے انکار سے حقیقت بہرحال نہیں بدلے گی۔ 2024 عام انتخاب سے پہلے فرقہ وارانہ منافرت اورمسلمانوں و اقلیتوں کے خلاف تشدد کے اس سے بھی زیادہ واقعات ہونے کے خدشات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔اگر ایسا ہوا تو بقول شاعر
بند دریا سے بھی برداشت کہاں تک ہوگا
اب کے سیلاب جو آیا تو بھیانک ہوگا
عالمی برادری میں ہندوستان کی نیک نامی کا پاس رکھنے کیلئے ضرور ی ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی خودکاشتہ خواب فروشی میں عوام کو مگن رکھنے کے بجائے صورتحال کا ادراک اور مداوا کریں۔ بصورت دیگر یہ خدشہ ہے کہ سیلاب کی منہ زور لہریں ہندوستان کے اتحاد و سالمیت کی دیوار میں بھی رخنہ ڈال سکتی ہیں۔
[email protected]