’بجا‘ اور ’بے جا‘ وعدوں کا تعین ہو جائے تو …!

0

صبیح احمد

آئندہ ہفتہ ہونے والے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر سیاسی پارٹیوں نے ووٹروں کو لبھانے کے لیے ’ریوڑیوں‘ کی بارش کر دی ہے۔ خاص طور پر ہماچل پردیش میں گزشتہ 2-3 دنوں میں برسراقتدار بی جے پی اور اہم اپوزیشن پارٹی کانگریس نے وعدوں کی جھڑی لگا دی ہے۔ دونوں پارٹیوں نے اپنے اپنے منشور میں ایسے ایسے اعلانات کیے ہیں کہ اگر دونوں میں سے کوئی بھی پارٹی اقتدار میں آجائے تو ریاست کے لوگوں کو اگلے 5 سال تک کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ گھر بیٹھے ان کی تمام ضروریات حکومت پوری کرتی رہے گی۔ لیکن یہ سب کو پتہ ہے کہ ان وعدوں اور اعلانات سے کیا ملنے والا ہے، لیکن پارلیمانی جمہوریت کی خوبیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سیاسی پارٹیاں اور ان کے امیدوار ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے مختلف طرح کے اعلانات اور وعدے کرتے ہیں اور جس بھی پارٹی پر اعتماد کیا جاتا ہے وہ حکومت سازی کر کے اپنے ان وعدوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ بات بتانے کی نہیں ہے کہ پارٹیاں اور امیدوار اپنے ان وعدوں کو پورا کرنے کے لیے کتنا ایماندار ہوتا ہے۔ ہر 5 سال بعد کے تجربات سے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
بہرحال جمہوری نظام حکومت میں ہر 5 سال بعد ووٹروں کو اس کا موقع ملتا ہے کہ وہ سیاسی پارٹیوں اور امیدواروں، خاص طور پر حکمراں پارٹی اور اس کے امیدواروں کا احتساب کرے اور ان سے جواب طلب کرے کہ 5 سال قبل جو وعدے اور اعلان کیے گئے تھے، ان کا کیا ہوا؟ ان میں سے کتنے وعدے پورے کیے گئے؟ اگر وہ پارٹی یا امیدوار امیدوں پر کھرا نہیں اترتا ہے تو پھر ووٹروں کے پاس اس بات کا موقع ہوتا ہے کہ وہ دوسری پارٹی اور امیدوار کو کچھ کرکے دکھانے کا موقع دیں اور پرانے لوگوں کو سبق سکھائیں۔ لیکن جمہوریت کے اس خوبصورت طریقہ کار میں سیندھ لگانے کی کوشش کی جاری ہے۔ یہ کوشش کسی اور کی طرف سے نہیں بلکہ خود الیکشن کمیشن کی جانب سے کی جا رہی ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے سیاسی پارٹیوں سے ان اخراجات کا منصوبہ مانگا جا رہے ہیں جو وہ اپنے وعدوں کی تکمیل کے لیے کرنے والے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے اس رویے پر اپوزیشن جماعتیں خاص طور پر کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتوں نے سخت اعتراض کیا ہے۔ انہوں نے تو اس حوالے سے ا لیکشن کمیشن کے دائرہ کار پر ہی سوال کھڑے کر دیے ہیں۔ جبکہ بی جے پی نے کمیشن کی حمایت کی ہے۔ کانگریس نے 2019 کے عام انتخابات کے دوران مبینہ طور پر انتخابی اصول و ضوابط اور ضابطہ ا خلاق کی خلاف ورزیوں کا حوالہ دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کو اس کی ذمہ داریوں اور دائرہ کار کی یاد دہانی کرائی ہے۔ دراصل یہ ایک ایسا معاملہ ہے جو اس وقت تک حکومت، الیکشن کمیشن اور عدالت کسی کے بھی دائرہ کار میں نہیں آتا ہے جب تک کہ اس سلسلے میں پارلیمنٹ سے کوئی باضابطہ قانون نہ پاس ہو جائے۔ اس حوالے سے قانون سازی ممکن ہے یا نہیں، اس پر بھی بہت غور و خوض کی ضرورت ہے۔ کیونکہ انتخابی تشہیر کے مواد کو کوڈیفائیڈ کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔
جہاں تک ’ریوڑی‘ کی تعریف کی بات جائے تو اس کا تعین کیسے کیا جائے،یہ ایک مسئلہ ہے۔ وعدے اور اعلانات انتخابی عمل کا ایک اہم حصہ ہوتا ہے۔ ووٹروں تک پہنچنے اور انہیں اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے سیاسی پارٹیوں کی جانب سے طرح طرح کے اعلانات اور وعدے کیے جاتے ہیں۔ جمہوریت میں اس پر قطعی روک نہیں لگائی جا سکتی۔ بہرحال ’بجا‘ اور ’بے جا‘وعدوں کا تعین ممکن ہے۔ مگر اس کے لیے فی الحال اخلاقی ذمہ داریوں کے علاوہ کوئی باضابطہ قانون یا ضابطہ نہیں ہے۔ ہر سیاسی پارٹی انتخابات کے دوران وعدہ کرتی ہے اور اگر اسے حکومت سازی کا موقع ملتا ہے تو ان وعدوں کو پورا کرنے کی کوشش بھی کرتی ہے۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر وہ وعدے پورے نہیں ہوپاتے ہیں تو اگلے الیکشن میں پھر اس پر آگے کوشش کرنے کا وعدہ کیا جا تا ہے۔ یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ کون سا وعدہ کتنا پورا ہو گا، اس لیے ’مفت ریوڑی‘ کی تعریف میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ہاں، اتنا ضرور ہے کہ جمہوری حقوق کا استعمال کرتے وقت سیاسی پارٹیوں کو اخلاقی طور پر خود اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ کس حد تک ووٹروں سے کیے گئے اپنے وعدوں کو پورا کر سکتی ہیں۔ اتنا تو پتہ چل ہی جاتا ہے کہ کون سا وعدہ پورا کرنے لائق ہے اور کون سا نہیں۔ آج کل جس طرح کے وعدے کیے جاتے ہیں، کیا ان سے عوامی فلاح و بہبود کی امید کی جا سکتی ہے؟ نوبل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات ابھجیت بنرجی کا بھی کہنا ہے کہ انتخابات سے قبل مفت سہولیات دینا غریبوں کی مدد کا بہترین طریقہ نہیں ہے اور اسے نظم و ضبط کی ضرورت ہے۔ چاول، آٹا، دال، لیپ ٹاپ، اسکوٹی، سائیکل کے وعدوں کو اگر پورا کر بھی دیا جاتا ہے تو کیا ان چیزوں سے متعلقہ حلقہ یا ریاست اور کیا ملک کی ترقی ممکن ہے۔ ملک و قوم کی ترقی کے حوالے سے سیاسی لیڈروں کی ذمہ داری کیا ہوتی ہے؟ بنیادی ڈھانچے، بجلی، سڑک، پانی، مواصلات جیسی سہولتوں سے مجموعی ترقی ممکن ہے یا دال، چاول، سائیکل جیسی ان روز مرہ کی چیزوں سے۔ اگر بنیادی ڈھانچے مضبوط ہو جائیں تو اس طرح کی ’ریوڑیوں‘ کا انتظام عام لوگ خود ہی کر لیں گے۔ سیاسی لیڈروں کو اس کا وعدہ نہیں کرنا پڑے گا۔ آخر اس طرح کی ’مفت کی ریوڑیوں‘ کا چلن کب سے اور کیسے ہوا؟ زیادہ دن نہیں، صرف ایک دہائی قبل تک اس طرح کی کوئی چیز نہیں تھی! دراصل اس انتخابی بدعت کا آغاز ’جملہ بازی‘ کے دور سے شروع ہوا۔ ’مفت کی ریوڑی‘ اور ’جملہ بازی‘ میں درحقیقت کوئی فرق نہیں ہے، دونوں ایک ہی چیز ہے۔ ’جملہ بازی‘ کر کے اقتدار پر قبضہ کرنے والے لوگوں کو ہی آج دیگر لوگوں کے وعدے اور اعلانات ’مفت کی ریوڑی‘ لگ رہے ہیں۔ خود آج بھی جملے پہ جملے پھینکے جا رہے ہیں، اور دوسرے جب انہی کی پیروی کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان پر قدغن لگانے کے نئے نئے طریقے تلاش کر رہے ہیں۔
اس صورتحال کیلئے صرف سیاستدان ہی نہیں، عام لوگ بھی اتنا ہی، بلکہ ان سے کہیں زیادہ ذمہ دار ہیں۔ ان کی مفت خوری کی عادت کی وجہ سے ہی سیاسی لیڈروں کو انہیں بے وقوف بنانے کا موقع مل جاتا ہے۔ ووٹر ان ’ریوڑیوں‘ اور ’جملوں‘ کی بنیاد پرہی ووٹ دیتے ہیں۔ انہیں شاید ’ذاتی مفاد‘ اور ’عوامی مفاد‘ میں فرق نظر نہیں آتا، یا پھر ذاتی مفاد ہی ان کی اولین ترجیح بن گئے ہیں۔ بظاہر یہ سب عوامی بیداری کی کمی کا نتیجہ معلوم ہوتاہے۔ لیکن درحقیقت ہمارا شعور بھی کرپشن کا شکا ہو گیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ پیسے لے کر ووٹ دینا اب کھلا راز بن گیا ہے۔ ایسا نہیں کہ ہمیں ’ذاتی مفاد‘ اور ’عوامی مفاد‘ میں فرق کا پتہ نہیں۔ ہم شعوری طور پر ’ذاتی مفاد‘ کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ کیونکہ ایک عام مزاج بن گیا ہے کہ ’اپنا کام بنتا، بھاڑ میں جائے جنتا۔‘
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS