محمد فاروق اعظمی
کسی شاعر نے کہا ہے
کا غذ کی یہ مہک‘یہ نشہ روٹھنے کو ہے
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی
ممکن ہے بہت سے لوگ اس سے اتفاق نہ کریں،شاعر کی بے معنی خیال آرائی اور مبالغہ قرار دیں۔اس کی رد میں دنیا بھر سے مثالیں ڈھونڈ کر لائیں اوربتائیں کہ کہاں کتنی کتابیں چھپ رہی ہیں، بیچی، خریدی اور پڑھی جارہی ہیں۔لیکن کتابوں کو اگر زبان کے مطابق زمرہ بند کرلیا جائے تو اردو کتابوں کی خرید و فروخت اور پڑھنے کے رجحانات کا یہ شعر حقیقی عکاس ہے۔اردو کتابیں فروخت اور پڑھے جانے کے لحاظ سے ہندوستان کی کم ترین زبانوں میں سے ایک ہے۔ رواں مہینہ میں اردو کے دو کتاب میلے منعقد کیے گئے۔ایک عروس البلاد ممبئی میں جسے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے منعقد کیاتھا اور دوسرا شہر نشاط کولکاتا میں مغربی بنگال اردو اکادمی کے زیرا ہتمام منعقد کیاگیا تھا۔ ان دونوں کتاب میلوں میںکتابوں کی فروخت کے جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں، وہ اردو کا نعرہ لگانے والوں کی منافقت کا کھلا اظہار ہیں۔ ان میلوں کے انعقاد میں منتظمین نے نہ تو کوئی کمی کی اور نہ کسی حکومت نے اردو والوں کو کتابوں کی خریداری سے روکنے کی سازش رچی تھی۔ نہ ہی کہیں زعفرانی احتجاج ہوا کہ اردو کتاب میلہ میں جانے والوں کا حقہ پانی بند کردیاجائے گا۔
اس کے برعکس دونوں ہی اداروں نے انتہائی خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ کتاب میلہ منعقد کیا۔تشہیر کا بھرپوراہتمام کیا، اخباروں میں اشتہارات دیے،جگہ جگہ نمایاں مقام پر پوسٹر، بینر اور فلیگ لگائے،میلہ آنے والوں کیلئے دلچسپی کے درجنوں پروگرام اور تقریبات کا انعقاد کیا۔ مسابقہ، مقابلہ، مشاعرہ، فوڈ اسٹال حتیٰ کہ وقتی آرام گاہ تک کا انتظام کیاگیا تھا۔ بک اسٹالوںپر علم و ادب، فلسفہ، دینیات ہر طرح کی کتابوں کا ذخیرہ تھا،لیکن اس کے باوجود اردو والوں نے وہ دلچسپی نہیں دکھائی جس کا وہ عام دنوں میں ڈھنڈورہ پیٹتے نظرآتے ہیں۔
ممبئی کتاب میلہ میں شائقین کی کم تعداد کا یہ جواز دیا جارہا ہے کہ مقام انعقاد تک اردو والوں کاآنا جانامشکل تھا،اس لیے وہاں کتابوں کے شائقین کی بھیڑ کم ہوئی۔ لیکن شہر نشاط کولکاتا میں لگنے والے اردو کتاب میلہ کے منتظمین اور مغربی بنگال اردو اکادمی کے ارباب حل و عقد نے توعین اردو بستی میں میلہ منعقد کیا۔حاجی محمد محسن اسکوائر کے نام سے معروف گول تالاب کا علاقہ چہار جانب سے اردوبولنے والوں سے بھرا پڑا ہے۔ شہر کے بیچوں بیچ واقع اس مقام انعقاد تک شہر کے تمام کونوں ہی نہیں بلکہ مضافات، اضلاع اور دورافتادہ مقامات سے بھی آمد و رفت کے معقول اور مناسب ذرائع ہیں۔ اس کے باوجود اردو والوں کی وہ تعداد شامل نہیں ہوئی جس کادعویٰ مغربی بنگال کے اہل اردو کرتے نظرآتے ہیں۔
وہیں شہر سے دور نوآباد علاقہ میں منعقد ہونے والے کولکاتابین الاقوامی کتاب میلہ میں29لاکھ افراد شریک ہوئے اور 28کروڑ روپے کی کتابیں فروخت ہوئیں۔ کولکاتا کے کوروناموئی علاقہ میں منعقد ہونے والے اس بین الاقوامی کتاب میلہ کے بنگلہ کتابوں کے اسٹال کے باہرہر وقت لمبی لمبی قطار نظرآئی۔ لوگ گھنٹوں انتظار میں کھڑے اپنی باری پر اسٹال کے اندر جاتے اورا پنی پسند کی کتابیں خریدتے ہوئے نظر آئے۔ اسی بین الاقوامی کتاب میلہ میں لگائے گئے اردوکے چند بک اسٹالوں پر ہمہ وقت ’ ہو‘ کا عالم نظرآتاتھا۔حتیٰ کہ وہ اردو بک اسٹال جو نصف رعایت پر کتابیں فروخت کررہے تھے، وہاں بھی اردو والے شاذ و نادر ہی جاتے ہوئے نظر آئے۔ کتابوں کا بیش بہا ذخیرہ موجود ہونے کے باوجود سناٹا نوحہ خواں تھا۔
اگر انٹرنیٹ اور موبائل کی وجہ سے کتابیں پڑھنے کا رجحان کم ہواہوتا تو پھر بنگلہ اور دوسری زبان کی کتابوں کے ساتھ بھی وہی معاملہ نظرآتا جو اردو کتابوں کے ساتھ ہے،مگرایسا نہیں ہے۔یہ صرف اردووالوں کی منافقت ہے جو اردو کے نام پر ہنگامہ اور سیاست کرکے روزی روٹی کا انتظام کرتے ہیں مگر اردوکتابوں کی خریداری اور اردو کتاب پڑھنے میں انہیں اپنی ہتک نظرآتی ہے۔
کتابوں سے اردو والوں کی یہ عدم دلچسپی کیوں ہے ؟ مغربی بنگال کے تناظر میں یہ سوال زیادہ اہم ہوجاتا ہے کہ یہاں اردو دوسری سرکاری زبان ہے۔یہاں ہندوستان کی سب سے سرگرم اور فعا ل اردو اکادمی موجود ہے جو مسلسل کتابوں کی اشاعت، مشاعرے، سمینار، سمپوزیم، مذاکرہ، کلیدی خطبات اور معروف و مقدر اردو شخصیات کے حوالے سے صدی تقریبات کا بھی انعقاد کرتی رہتی ہے۔ریاستی حکومت کے تمام تر ’تعصب ‘کے باوجود آج بھی مغربی بنگال میں اردو میڈیم اسکول قائم ہیں، پرائمری اورثانوی اسکولوں کی ایک معقول تعداد ہے۔اسامی کی کمی بیشی اپنی جگہ، مگر اردو کے نام پر ہی نوکری حاصل کرنے والے اساتذہ موجود ہیں۔ کالجوںاور یونیورسٹیوں میں اردو کے شعبے قائم اور سرگرم ہیں۔ یونیورسٹیوں کے ساتھ ساتھ درجنوں کالج میں تو پوسٹ گریجویٹ تک کی سطح پر اردو پڑھائی جارہی ہے۔مدرسوں کی بھی ایک بھاری تعداد ہے جہاں اردو بحیثیت زبان اور ذریعہ تعلیم پڑھائی جاتی ہے۔ جہاں کے طلبا کو بتایا جاتا ہے کہ کتب بینی ہے سیر اپنی، کتابیں ہیں چمن اپنا۔یہ مغربی بنگال ہی ہے جہاں کے ایک باسی مولانا آزاد بھی تھے جن کے نزدیک عیش زندگی کا سب سے بہترین تصور کتب بینی تھا۔اور کہا کرتے تھے ’’میں آپ کو بتلاؤں میرے تخیل میں عیش زندگی کا سب سے بہترین تصور کیا ہوسکتا ہے؟جاڑے کا موسم ہو اور جاڑا بھی قریب قریب درجہ انجماد کا، رات کا وقت ہو،آتش دان سے اونچے اونچے شعلے بھڑک رہے ہوں اور میں کمرے کی ساری مسندیں چھوڑ کر اس کے قریب بیٹھا ہوں اور پڑھنے یا لکھنے میں مشغول ہوں‘‘اب یہی وہی مغربی بنگال ہے جہاں کے اردو کتاب میلہ اور اردو لائبریریوں میں سناٹانوحہ خواں نظرآتا ہے۔ یہ وہی مغربی بنگال ہے جہاں اردو کی تحریک چلانے والے کئی گروہ سرگرم ہیںجو وقفے وقفے سے اردو کے حق کی لڑائی کا نعرہ بلند کرتے ہیں۔مگرجب اردو کتابوں کی خریداری کامعاملہ آتا ہے تو تمام ’ اردو دوست اور اردو نواز ‘ منظر سے غائب ہوجاتے ہیں۔
اگر مغربی بنگال اردو اکادمی کے 10دنوں کے کتاب میلہ میں کتابوں کی کل فروخت کی رقم پانچ ہندسوںتک بھی نہ پہنچے تو اس صورتحال کو کھلی منافقت کہاجاتا ہے جو مغربی بنگال کے اہل اردو کررہے ہیں۔اس منافقت کی وجہ سے ہی اہل اردو پستی اور ذلت میں گرتے جارہے ہیں۔یونانی ڈرامہ نگار پوری ہیڈس نے کبھی کہا تھا کہ جو نوجوان مطالعہ سے گریز کرے وہ ماضی سے بے خبر اور مستقبل کیلئے مردہ ہوتا ہے۔ کتابوں سے دلچسپی ختم کرکے مغربی بنگال کے اہل اردو اپنے مستقبل کیلئے مردہ اور سیاسی پارٹیوں کے غلام ہوچکے ہیں۔ مطالعہ اور کتب بینی نہ ہونے کی وجہ سے نہ ان میں تخلیقی صلاحیتیں ابھررہی ہیں، نہ ان کے اندر احساس ذمہ داری، مروت، اخلاق اور بہترکردار پیدا ہورہا ہے۔اپنے غیر تعمیری رویہ کی وجہ سے مہذب سماج کیلئے بھی ’بوجھ‘ بنتے جارہے ہیں۔
یہ مغربی بنگال اردو اکادمی کا ہی ظرف ہے کہ وہ اردو اردو کی صدائیں لگا رہی ہے۔ کتابیں، مخطوطات، مونوگراف چھاپ رہی ہے، سمینار، سمپوزیم، مشاعرہ منعقد کرکے اردو تہذیب و ثقافت کو زندہ رکھنے کا سامان کررہی ہے اور ہر سال کتاب میلہ منعقد کرکے اردو والوں کوموقع دے رہی ہے کہ اگر انہیں اردو سے محبت ہے، وہ اردوہ کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو آئیں اردو کتابیں خریدیں، پڑھیںاورا نسان بنیں۔
اردو کے سچے عاشق کا حوصلہ لیے کچے گھڑے کے سہارے دریا پار اترنے کی کوشش کرنے والی مغربی بنگال اردو اکادمی کے وائس چیئرمین راجیہ سبھا ممبر محمد ندیم الحق اور ان کی ٹیم سکریٹری محترمہ نزہت زینب، سید محمد شہاب الدین حیدر، ڈاکٹردبیر احمد، ڈاکٹر غلام سرور،ڈاکٹرعمر غزالی، ڈاکٹر امتیازوحید، شوکت علی اور دیگر قابل صد مبارک باد ہیں۔
[email protected]