ہندوستان میں جس طرح سیکولرزم پر خطرات کے بادل چھائے ہوئے ہیں، ٹھیک اسی طرح ملک کا سوشلزم بھی اب قصہ پارینہ بننے والا ہے۔ تاریخ کے بد ترین دور سے گزررہی معیشت کو سہارا دینے کیلئے حکومت ایسے فیصلے کررہی ہے جو ملک کی معاشی اور اقتصادی غلامی پر منتج ہوسکتے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ شدید ہوتانجکاری کا عمل، منافع بخش قو می اداروں سے سرمایہ کشی، مختلف شعبہ جات میں 100فیصد غیر ملکی سرمایہ کاری جیسے فیصلے ملکی معیشت کی بہتری کے بجائے ملک میں بے روزگاری، مہنگائی، بیماری اور غربت میں سنگین اضافہ کا سبب بنیں گے۔ترقی اور استحکام کے بجائے ملک اقتصادی طور پر بڑی بڑی عالمی کمپنیوں اور کارپوریشنوں کی غلامی میں چلا جائے گا۔ ٹیلی مواصلات اور آٹو موبائل کے شعبہ میں 100فیصد راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے فیصلہ پر بھی ماہرین کو یہی تحفظات ہیں اورا نہیں اس فیصلہ میں معیشت کی بحالی کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔
آٹو موبائل اور ٹیلی مواصلات کے شعبہ کا مستقبل محفوظ بنانے کا فیصلہ لیے جانے سے پیشتر حکومت نے غالباً ان شعبوں کے موجودہ حالات پر غورنہیں کیا ہے۔ایک ایسے وقت میں جب ملک بھر کی درجنوں اہم ترین ٹیلی مواصلات کمپنیاں اپنا وجود قائم نہیں رکھ پارہی ہیں تو مستقبل میں اس شعبہ کو عالمی سرمایہ کاروں اور غیر ملکی کمپنیوں کیلئے منافع بخش بنانے سے ملک کو کیا فوائد حاصل ہوں گے؟یہ وہ سوال ہے جس کا حکومت کے پالیسی اعلان میں کوئی جواب نہیں دیاگیا ہے۔
گزشتہ چند برسوں میں جس تیزی سے ٹیلی مواصلات کا شعبہ مختلف چھوٹی چھوٹی کمپنیوں سے خالی ہوا ہے، اسے دیکھتے ہوئے یہ محسوس ہورہاہے کہ جلد ہی یہ شعبہ اولیگوپولی ( یعنی متعدد چھوٹی چھوٹی کمپنیوں کی شراکت) کے بجائے ڈیوپولی ( صرف دو بڑی کمپنیوںکا اجارہ ) میں تبدیل ہوجائے گا۔ مرکزی حکومت نے ٹیلی مواصلات شعبہ کیلئے جو اعلانات کیے ہیں ان میں چار نکات انتہائی اہم ہیں، پہلا ٹیلی مواصلات کمپنیوں کی جانب سے قانونی واجبات کی ادائیگی پر چار برسوں کی رعایت یعنی کمپنیوں کو چار برسوں تک ادائیگی نہ کرنے کی مکمل چھوٹ، دوسراخودکار راستے سے 100 فیصد غیر ملکی سرمایہ کاری کی اجازت، تیسرا اسپیکٹرم شیئر کرنے کی مکمل آزادی، ایڈجسٹیڈ گراس ریونیو(اے جی آر )کی نئی شرح و تعبیر لکھتے ہوئے اس کے دائرہ سے غیر ملکی ٹیلی مواصلات کمپنیوں کو استثنیٰ دینا اور چوتھا لائسنس فیس کی ادائیگی، اسپیکٹرم یوزر چارجز اور ہر قسم کے چارجز پر جرمانہ کا ختم کرنا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہی وہ چار نکات ہیں جواس شعبہ کو ڈیوپولی کی جانب لے جائیں گے اور اسی راستہ سے ملک پرغیر ملکی سرمایہ داروں کا غلبہ قائم ہوگا۔
اس خدشہ کو اس لیے بھی تقویت ملتی ہے کہ حکومت کے اعلانات اورا قدامات میں اس سوال کا جواب نہیں دیاگیا ہے کہ ٹیلی مواصلات کے شعبہ میںفی الحال موجود ووڈافون، آئیڈیا، اورینج اور دیگرکمپنیوں کے مسائل کیسے حل ہوں گے۔یہ کمپنیاں آج بھیانک قسم کے بحران سے گزررہی ہیں۔ ریلائنس جیو ٹیلی کام کمپنی نے دھیرے دھیرے کر کے ان تمام کمپنیوں کو میدان سے نکال باہر کردیا ہے اور آج یہ اپنے وجود کی بقاکیلئے لڑرہی ہیں۔ ریلائنس جیو کوچھوڑ کر اس شعبہ میں موجودووڈا فون، آئیڈیاسیلولر، ٹاٹا انڈی کام، ایئرسیل، بی ایس این ایل، ایم ٹی این ایل جیسی تمام دیسی کمپنیوں کو آج زندہ رہنے کیلئے بھاری فنڈنگ کی ضرورت ہے۔ اس شعبہ میں اصلاحات اور تبدیلی کے اعلان میں یہ نکات اگر شامل کیے گئے ہوتے تو یہ خدشہ نہیں رہتا کہ حکومت اس شعبہ پر بھی ڈیوپولی کے راستے سرمایہ دارانہ جکڑمضبوط بناناچاہتی ہے۔
ماہرین کے خدشات سے اس لیے بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ہے کہ حکومت کے اس فیصلہ سے روزگار کے مواقع بڑھیں گے کیوں کہ اس سے پہلے جن شعبوں میں راست غیرملکی سرمایہ کاری کو یہ کہہ کر اجازت دی گئی تھی کہ ان سے روزگار کے مواقع وضع ہوں گے، وہ اپنی افادیت اب تک ثابت نہیں کرپائے ہیں۔ بے روزگاری اور مہنگائی کا طوفان مسلسل ملک کو اپنی زد میں لیے ہوئے ہے۔تھوک مہنگائی کی شرح میں اضافہ سے افراط زر میں اضافہ ہوا ہے۔ بنیادی ضرورت کی چیزیں عوام کی رسائی سے دور ہوگئی ہیں۔حکومت چاہتی تو اس صورتحال کو روک سکتی تھی لیکن اس پر کوئی توجہ دینے کے بجائے ایک بار پھر 7.6 لاکھ روزگار کا لالی پاپ دے کر ٹیلی مواصلات کے شعبہ کو غیر ملکی کمپنیوں کے حوالے کرنے کا فیصلہ کرلیاہے۔اس کے وہ نتائج جن کا حکومت نے اعلان کیا ہے وہ تو وقت آنے پر ہی ظاہر ہوں گے لیکن ماضی کے تجربات کی روشنی میں یہ خدشہ اپنی جگہ قائم ہے کہ اس سے نہ تو روزگار کے مواقع وضع ہوں گے اور نہ ہی معیشت کا بھلا ہوگا بلکہ اس سے ہندوستانی سوشلزم کے بنیادی فلسفہ کے برخلاف ملک پر غیر ملکی سرمایہ داروں کی جکڑ مضبوط ہوگی۔
[email protected]
100فیصد راست غیر ملکی سرمایہ کاری
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS