نئی دہلی (بی بی سی):وزیر اعظم نریندرا مودی نے اس ماہ کے آغاز میں یہ وعدہ کیا تھا کہ انڈیا کے شہروں کو آلودہ کرنے والی کچرے کی پہاڑیوں کو جلد ہی’ویسٹ ٹریٹمنٹس پلانٹس‘میں بدل دیا جائے گا۔
مصنفہ ثومیا رائے مغربی ساحلی شہر ممبئی سے ملک کے سب سے پرانے اور سب سے بڑے کوڑے کے پہاڑ کے بارے میں بتا رہی ہیں جو 18 منزل تک اونچا ہے۔
ہر صبح فرح شیخ ممبئی میں ایک صدی پرانے کچرے کے پہاڑ پر کھڑے ہو کر کچرے سے بھرے ٹرکوں کی آمد کا انتظار کر رہی ہوتی ہے۔ کوڑا اٹھانے والی 19 برس کی فرح، دینور کے مضافاتی علاقوں میں واقع ان کچرے کے ڈھیروں سے اپنے کام کی چیزیں تلاش کرنے کا کام طویل عرصے سے کر رہی ہیں۔اس گند میں سے وہ عوماً پلاسٹک کی بوتلیں، شیشے اور تاریں اٹھاتی ہیں تا کہ وہ پھر وہ انھیں شہر کی ویسٹ مارکیٹ میں فروخت کر سکیں۔ زیادہ تر فرح کو ٹوٹے پھوٹے موبائل فونز کی تلاش رہتی ہے۔
ہر چند ہفتوں کے بعد فرح کو کوڑے کے ڈھیر میں سے ایک ناکارہ موبائل فون مل جاتا ہے۔ وہ پھر اپنی معمولی بچت سے اس کی مرمت کراتی ہیں۔ جب ایسا ناکارہ فون دوبارہ کام شروع کر دیتا ہے تو پھر وہ شام کو ایسے فون پر فلمیں، ویڈیو گیمز چلاتے، ٹیکسٹ پیغامات بھیجنے اور دوستوں کو فون کرتے دکھائی دیتی ہیں۔
جب کچھ دنوں اور ہفتوں کے بعد دوبارہ فون بند ہو جاتا ہے تو پھر ایسے میں فرح کا دوسروں سے رابطہ منقطع ہو جاتا ہے۔ وہ دن بھر اپنے کام پر نکل جاتی ہیں، شہر کے کوڑے سے چیزیں اٹھا کر دوبارہ فروخت کرتی ہیں اور دوبارہ کسی فون کی تلاش شروع کر دیتی ہیں جس کی مرمت کرا کے وہ دوبارہ استعمال میں لا سکیں۔
ایک کروڑ ساٹھ لاکھ ٹن کچرے سے دینور کی کوڑے کی پہاڑیاں معرض وجود میں آئی ہیں، جن میں سے آٹھ پہاڑیاں 300 ایکڑ رقبے پر پھیلی ہوئی ہیں جو انڈیا کی سب سے بڑی اور پرانی کچرے کی پہاڑیاں ہیں۔ ان کوڑے کی پہاڑیوں کی اونچائی 120 فٹ تک بنتی ہے۔ اگر ایک طرف ان پہاڑیوں کا بیرونی کنارا سمندر سے ملتا ہے تو ان کچرے کی پہاڑیوں پر لوگوں نے کچی آبادیاں بھی تعمیر کر رکھی ہیں۔اس کچرے سے میتھین، ہائیڈروجن سلفائیڈ اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسی خطرناک گیسوں کا اخراج ہوتا ہے۔ سنہ 2016 میں ان پہاڑیوں میں آگ بھڑک اٹھی جو کئی ماہ تک نہ بجھائی جا سکی، جس سے پھر ممبئی کے زیادہ تر حصوں میں دھند پھیل گئی تھی۔ انڈیا کے آلودگی پر قابو پانے والے ادارے کی سنہ 2011 کی رپورٹ کے مطابق ان کچرے کے ڈھیروں پر آگ جہاں 11 فیصد تک زہریلے مادوں کو جنم دیتی ہے وہیں یہ شہر میں آلودگی کا بڑا سبب بنتی ہے۔
دلی کے ایک تھنک ٹینک کی سنہ 2020 کی ایک تحقیق کے مطابق سینٹر فار سائنس اینڈ انوائرنمنٹ (سی ایس ای) نے ایسی کچرے کی 3159 پہاڑیوں کا پتا چلایا ہے، جہاں انڈیا بھر سے 800 ملین ٹن تک کچرا جمع کر کے لایا گیا ہے۔
اگرچہ ممبئی کی ایک عدالت میں 26 برس سے دینور کے کورے کے پہاڑوں کو ختم کرنے سے متعلق ایک مقدمہ زیر سماعت ہے مگر اب بھی یہاں کچرا پھینکا جا رہا ہے۔
انڈیا کے کوڑے کے یہ پہاڑ طویل عرصے سے حکام اور سیاستدانوں کی پریشانی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ انڈیا کے وزیر اعظم نریندرا مودی نے یکم اکتوبر کو قومی صفائی پروگرام کے لیے 13 بلین ڈالر کے فنڈ کا اعلان کیا۔ اس پروگرام کے تحت متعدد سیویج ٹریٹمنٹ پلانٹس نصب کیے جانے ہیں اور رفتہ رفتہ دینور کی طرح کھلی جگہوں سے کچرے کے ڈھیروں کو پلانٹس میں بدل دینا ہے۔
تاہم ماہرین ابھی اس حوالے سے شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں۔ سی ایس ای میں ڈپٹی پروگرام مینیجر سدھارتھ گھینشم سنگھ کا کہنا ہے کہ اگرچہ ایسا چھوٹے شہروں میں کیا گیا ہے تاہم اتنے بڑے پیمانے پر کوڑے کے پہاڑوں کو ایسے سیویج پلانٹس سے بدل دینا ایک بہت مشکل کام ہے۔ کچرے میں کمی لانے کے لیے سرگرم اتحاد گلوبل الائنس فار انسینیٹر الٹرنیٹوز کے کنٹری کوآرڈینیٹر دھرمیش شاہ کا کہنا ہے کہ اب یہ ایک قسم کا اعتراف ہے کہ یہ ایک بڑا مسئلہ ہے مگر ہم نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ اگر ہم نے ممبئی یا دلی جیسے بڑے شہروں میں رہنا ہے تو یہ کچرے کے پہاڑوں کے ساتھ بھی گزارا کرنا ہو گا۔‘
سنہ 2000 سے انڈیا کی متعدد حکومتوں نے اس کچرے کو ٹھکانے لگانے سے متعلق قانون سازی کی ہے۔ تاہم متعدد ریاستوں میں ان قواعد پر جزوی طور پر ہی عملدرآمد ہو سکا ہے اور اب بھی اس کوڑے کو صیحح طریقے سے پراسس کرنے کے لیے مناسب تعداد میں سیویج ٹریٹمنٹ پلانٹس موجود نہیں ہیں۔ممبئی جیسے شہر میں جو نہ صرف انڈیا کا تجارتی اور تفریحی مرکز ہے بلکہ یہاں 20 ملین لوگ آباد ہیں مگر حکومت صرف ایک ہی پلانٹ یہاں نصب کر سکی ہے۔ اب حکومت کے ایسے ارادے ہیں کہ دینور میں کچرے سے انرجی پیدا کرنے کے لیے پلانٹ لگائے جائیں گے۔
وزیر اعظم مودی کا کہنا ہے کہ انھیں امید ہے کہ اس پلان سے ملازمت کے نئے مواقع پیدا کیے جا سکیں گے۔ تاہم یہ پلان فرح کی طرح کچرے سے چیزیں اٹھانے والوں کے لیے پریشانی کا باعث ہے جن کا زندگی بھر یہی گزر بسر رہا ہے۔
سنہ 2016 میں ان کچرے کے پہاڑوں میں آگ لگنے کے بعد اب ان کے لیے ان علاقوں تک رسائی مشکل ہو کر رہ گئی ہے۔ میونسپل کے حکام نے ان علاقوں کے لیے سکیورٹی میں اضافہ کر دیا ہے تا کہ یہاں کوڑا اکھٹا کرنے والے نہ پہنچ سکیں اور وہ یہاں آگ نہ سلگا سکیں۔۔۔ آگ کے شعلے عام کچرے کو جلا دیتے ہیں اور لوہا رہ جاتا ہے جسے مہنگے داموں فروخت کیا جا سکتا ہے۔
یہاں کوڑا اٹھانے والوں کو اکثر مار پڑ جاتی ہے۔ انھیں حراست میں لیا جاتا ہے اور پھر دوبارہ گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ مگر ان میں سے کچھ محافظوں کو رشوت دیتے ہیں یا پھر دن کو ان محافظوں کی گشت سے قبل ہی مطلوبہ جگہ تک پہنچ جاتے ہیں۔
اب شہر میں ہی کچرے سے کام کی چیزیں علیحدہ کر دی جاتی ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ اب دینور تک ایسے کچرے کی ترسیل کم کر دی گئی ہے جہاں پھر کوڑا چننے والے جا کر اپنے مطلب کی اشیا تلاش کر سکیں۔ اب کئی ماہ سے فرح کے پاس فون نہیں ہے۔ اسے دینور کے کچرے کے پہاڑوں تک رسائی حاصل کرنے کے لیے محافظوں کو 50 روپے بطور رشوت دینے پڑتے ہیں۔ اب ان پیسوں کو پورا کرنے کے لیے فرح اس کچرے سے بھی اشیا تلاش کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہیں جو گذشتہ برس شہر کے ہسپتالوں کے کورونا وائرس وارڈوں سے یہاں پہنچنا شروع ہوا ہے۔
تاہم فرح کے خاندان والوں نے انھیں مضر کچرے سے اشیا اٹھانے سے منع کیا ہے۔ اب وہ ایک مشکل سے دوچار ہیں، کچرا اٹھانے والوں کو احتیاطی تدابیر کے ساتھ وہاں سے دوبارہ فروخت کے لیے پلاسٹک اٹھاتا دیکھتی ہیں۔شہر سے نیا کچرا دینور کے کوڑے کے پہاڑوں پر لایا جا رہا ہے، جہاں یہ پہاڑ اس کچرے کو بھی اپنے دامن میں لے لیتے ہیں اور کچرے سے دوبارہ قابل فروخت چیزیں تلاش کرنے والے بھی اپنا مشن کئی برسوں سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
فرح کہتی ہیں کہ ’اگر بیماری نے نہیں تو بھوک ہمیں مار دے گی۔‘ثومیا رائے ممبئی میں مقیم صحافی اور مصنفہ ہیں۔ ان کی تازہ شائع ہونے والی کتاب کا نام ’ماؤنٹین ٹیلز: لو اینڈ لاس ان دی میونسپلٹی آف کاسٹ اوے بلانگنگ‘ ہے۔