وبھوتی نارائن رائے
اعداد و شمار کے بارے میں اتفاق رائے ہے کہ وہ ہمیشہ یا پورا سچ نہیں بولتے اور ان میں تیار کرنے والوں کی ذاتی پسند اور ناپسند کی جھلک ہمیشہ نظر آتی رہتی ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اعداد و شمار کا کوئی متبادل نہیں ہے، بالخصوص ہندوستان جیسے ایک متنوع معاشرہ میں، جہاں پالیسی سازوں کے پاس مذاہب، ذاتوں، زبانوں اور مختلف قومیت میں تقسیم معاشروں کے لیے اسکیمیں بناتے وقت ان کے علاوہ کوئی دوسری بہتر بنیاد نہ ہو۔
نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو(این سی آر بی) کی سال2020کی رپورٹ شائع ہوکر آگئی ہے۔ ملک کی مختلف ریاستوں میں جرائم کی صورت حال سمجھنے کے لیے کسی بھی متجسس تحقیق کار کے لیے بیورو کی رپورٹس ایک ریپارچر پوائنٹ کی طرح ہوتی ہیں۔یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ 1986میں قائم نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو کا کام صرف ریاستوں سے حاصل جرائم کے اعداد و شمار مرتب کرکے شائع کردینا ہے۔ اس میں اتنی دانشورانہ صلاحیت نہیں ہے کہ ان کا معاشرتی سطح پر مطالعہ (sociological studies)کرکے وہ جرائم کے کم ہونے یا بڑھنے کے رجحانات کی شناخت کرسکے۔ اس کام کو تو دوسرے تحقیقی اداروں کو ہی کرنا ہوگا اور یقینی طور پر بیورو کے مرتب اعدادو شماران کے لیے قیمتی ثابت ہوتے ہیں۔اعداد و شمار سے کسی نتیجہ پر پہنچتے وقت یہ ضرور یاد رکھنا ہوگا کہ سبھی ریاستی حکومتوں کی طرف سے کوشش ہوتی ہے کہ جرائم کو کم کرکے دکھایا جائے۔ استثنیٰ کے طور پر بھی ایسی ریاستیں تلاش کرنا مشکل ہوگا، جو ان اعداد و شمار کے ذرائع پولیس تھانوں میں صدفیصد مجرمانہ معاملات درج کرانے پر زور دیتی ہوں۔ اترپردیش جیسی ریاستوں میں تو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ آدھے سے بھی کم معاملات میں ایف آئی آر درج ہوتی ہیں۔
بہرحال، بیورو کی یہ رپورٹ سال 2020کی ہے، جب کووڈ وبا کے سبب ملک کا زیادہ تر حصہ بند تھا۔ سڑکوں پر کم لوگ نکلتے تھے اور زیادہ تر کارخانوں، دفاتر یا تعلیمی اداروں میں تالے لٹکے ہوئے تھے۔ ایسے میں یہ فطری ہی ہے کہ گھروں کے باہر ہونے والے جرائم میں کمی آئی اور چہار دیواریوں کے اندر گھریلو تشدد یا جنسی ہراسانی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہوگا۔ افسردہ کردینے والا تشدد یا خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہی ہوگا، لیکن لیک سے ہٹ کر سوچنے کی دانشورانہ صلاحیت سے محروم بیورو نے جرائم کے روایتی خانوں میں ان کے لیے گنجائش نہیں رکھی ہے، اس لیے ان پر بات چیت نہیں ہوسکتی۔ اس کے باوجود اس رپورٹ سے ہم عصر معاشرہ کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
کووڈ وبا اور نتیجتاً لاک ڈاؤن کے سبب خواتین، بچوں و سینئر شہریوں کے خلاف جرائم میں کمی آئی ہے، ایسا بیورو کا ماننا ہے، لیکن یہ دیگر معاشرتی ذرائع کے نتائج سے مختلف ہے۔ تمام یونیورسٹیز اور تحقیقی اداروں کی زمینی ریسرچ بتاتی ہیں کہ بڑے پیمانہ پر روزگار جانے، آمدنی میں کٹوتی اور زندگی میں مختلف طرح کی غیریقینی صورتحال سے پیدا ہونے والی کشیدگی نے درمیانی عمر کے ممبران کی زندگی ایک خاص طرح کے ذہنی دباؤ سے بھردی ہے اور یہ گھریلو تشدد کے طور پر ظاہر ہوئی ہے۔ بہت سے سروے اور تحقیق نے اس کی تصدیق کی ہے۔ ایسے میں بیورو کے اعداد و شمار حیران کرتے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہ قابل اعتماد ہیں۔ اسی طرح سے تعلیمی اداروں کے بند ہونے کے سبب گھروں میں مقید بچے بھی چڑچڑے ہوئے ہیں اور ان کے سلوک میں بھی نوٹس کی جاسکنے والی تبدیلی آئی ہوگی، جن کو پکڑنے میں نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو کے اعداد و شمار مدد نہیں کرتے۔ حالاں کہ یہ سمجھ میں آتا ہے کہ چوری، نقب زنی، راہ زنی اور ڈکیتی جیسے معاملات میں کووڈ دور میں کمی آئی ہے۔
درج فہرست ذاتوں کے خلاف ہونے والی زیادتیوں کے معاملات میں 9.4فیصد اور درج فہرست قبائل کے ذریعہ درج مقدمات میں 9.3فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ سمجھ آنے والی صورت حال ہے، کیوں کہ کووڈ کے لاک ڈاؤن سے عموماً دیہی ہندوستان، جہاں زیادہ تر درج فہرست ذاتوں یا جنگلوں کے نزدیک رہائشی علاقے، جہاں درج فہرست قبائل رہتے ہیں، غیرمتاثر رہے۔ ان علاقوں میں زندگی چلتی رہی، اس لیے اتنا اضافہ نارمل کہا جائے گا۔
وبا کے دوران عوام کو ملے تلخ تجربات پر گیت گائے گئے، کہانیاں لکھی گئیں، فلمیں بنیں اور ان سب کے باوجود بیورو کی رپورٹ اگر بدعنوانی کے معاملات کم دکھا رہی ہے تو واضح ہے کہ اسے گہرائی سے پرکھنے کی ضرورت ہے۔ پورا امکان ہے کہ بہت کم معاملات تھانوں میں لکھے گئے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بہت سے معاملات میں متاثرین پولیس کے پاس نہ گئے ہوں۔ لوگوں کو امید نہیں رہتی کہ ان کی شکایتیں درج ہوں گی یا وہ سرکاری مشینری سے ایسے ہی سلوک کی امید کرتے ہوں اور جب تک کوئی بڑا حادثہ پیش نہ آئے، وہ تھانہ-کچہری کے چکر میں نہیں پڑنا چاہتے۔
لیکن ان اعدادوشمار میں دو شعبے دلچسپ ہیں۔ اس دوران سرکاری احکامات کی خلاف ورزی کے معاملات میں اضافہ ہوا۔ یہ فطری ہی ہے کہ کووڈ کے دور کی ہدایات، ہمیشہ ماسک پہننے یا معاشرتی دوری بنائے رکھنے کے حکم پر عمل کرنا ہندوستانی عوام کے لیے ثقافتی جھٹکے کی طرح تھا اور اس تعلق سے بڑی تعداد میں مقدمے قائم ہوئے۔ دوسرا شعبہ بدعنوانی سے منسلک ہے، جہاں جرائم کم ہوئے بتائے گئے۔ یہ کیسے ہوا؟ شہریوں کے عام رابطہ میں آنے والے سرکاری دفاتر عام طور پر بند رہے، اس لیے فطری طور پر رابطہ میں کم شہری آئے اور نتیجتاً ان کے ہراساں کرنے کے واقعات بھی کم ہوئے، لیکن اس ایک شعبہ کا کیا ہوا، جس کا ایک بڑی آبادی سے وبا کے دوران واسطہ پڑا۔ یہ شعبہ صحت تھا۔
عموماً عام دنوں میں آبادی کے چھوٹے حصہ سے سرکاری ہیلتھ سروسز کا رابطہ ہوتا ہے اور ان کا تجربہ کوئی بہت اچھا نہیں ہوتا، لیکن اس مرتبہ تو وبا کے سبب بڑی تعداد میں لوگوں کو سرکاری اسپتالوں کا رُخ کرنا پڑا اور بڑے پیمانے پر انہیں ایسے تجربات سے گزرنا پڑا جو مروجہ قوانین کے تحت بھی بدعنوانی کے دائرہ میں آتے ہیں اور ان معاملات میں مقدمات درج ہونے چاہیے تھے۔ پورے ملک کے اخبار ایسی خبروں سے بھرے پڑے تھے، جن میں مریضوں یا تیمارداروں کے ساتھ بدسلوکی، دواؤں اور دیگر سہولتوں کے لیے غیرقانونی وصولی یا پھر سرکاری سسٹم کی نااہلی کے قصے بیان کیے گئے تھے۔
وبا کے دوران عوام کو ملے تلخ تجربات پر گیت گائے گئے، کہانیاں لکھی گئیں، فلمیں بنیں اور ان سب کے باوجود بیورو کی رپورٹ اگر بدعنوانی کے معاملات کم دکھا رہی ہے تو واضح ہے کہ اسے گہرائی سے پرکھنے کی ضرورت ہے۔ پورا امکان ہے کہ بہت کم معاملات تھانوں میں لکھے گئے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بہت سے معاملات میں متاثرین پولیس کے پاس نہ گئے ہوں۔ لوگوں کو امید نہیں رہتی کہ ان کی شکایتیں درج ہوں گی یا وہ سرکاری مشینری سے ایسے ہی سلوک کی امید کرتے ہوں اور جب تک کوئی بڑا حادثہ پیش نہ آئے، وہ تھانہ-کچہری کے چکر میں نہیں پڑنا چاہتے۔ کچھ بھی ہو، بدعنوانی کے معاملات میں گراوٹ ہمارے معاشرتی ڈھانچہ پر ایک تبصرہ کی طرح تو ہے ہی۔
(مضمون نگار سابق آئی پی ایس افسر ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)