لیڈروں کی بد زبانی کو کیسے روکا جائے؟

0

ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک

سپریم کورٹ نے اس معاملے پر اپنا فیصلہ سنا دیا ہے کہ کوئی وزیر اگر قابل اعتراض بیان دیتا ہے تو کیا اس کے لیے اس کی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ یہ مسئلہ اس لیے اٹھا تھا کہ اعظم خان نامی اترپردیش کے وزیر نے2016 میں ایک آبروریزی کے معاملہ میں انتہائی قابل اعتراض بیان دیا تھا۔ سپریم کورٹ کے پانچ ججوں میں سے چار کی رائے تھی کہ ہر وزیر اپنے بیان کے لیے خود ذمہ دار ہے۔ اس کے لیے اس کی حکومت کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ اس رائے سے الگ ہٹ کر جسٹس بی وی ناگ رتن کا کہنا تھا کہ اگر اس وزیر کا بیان کسی سرکاری پالیسی کے معاملے میں ہو تو اس کی ذمہ داری حکومت پر ڈالی جانی چاہیے۔ باقی چار ججوں کا کہنا تھا کہ آئین کہتا ہے کہ ملک میں سب کو اظہار رائے کی آزادی ہے۔ اس آزادی کا جو بھی غلط استعمال کرے گا، اسے سزا ملے گی۔ ایسی صورتحال میں الگ سے کوئی قانون نافذ کرنا تو اظہار رائے کی آزادی کی خلاف ورزی ہو گی۔ آئین کے آرٹیکل 19(2)میں اظہار رائے کی آزادی پر جتنی بھی حدیں رکھی گئی ہیں، وہ کافی ہیں۔
چاروں ججوں کی رائے کافی معقول معلوم ہوتی ہے لیکن جج ناگ رتن کی تشویش بھی قابل توجہ ہے۔ آخر وزیر کے بیان کی تشہیر اس لیے کی جاتی ہے کہ وہ وزیر ہے۔ وہ حکومت کی نمائندگی کرتا ہے لیکن اس کے ذاتی بیانات کے لیے حکومت کو ذمہ دار کیسے ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ فیصلہ کرنا بھی آسان نہیں ہے کہ اس کا کون سا بیان ذاتی ہے اور کون سا اس کی حکومت سے متعلق ہے۔ میرے خیال میں اس معاملے میں جیسا قانون ابھی دستیاب ہے، وہ کافی ہے۔ قانون کی نئی سختیاں نافذ کرنے سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ ہمارے وزراء اور لیڈر اپنے اوپر کچھ تحمل کا مظاہرہ کریں۔ ان کی کابینہ اور ان کی پارٹی انہیں ’مریادا‘ میں رہنا سکھائے۔
افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ پارٹی اور حکومت کے اعلیٰ ترین رہنما بھی الٹے سیدھے بیانات دینے سے باز نہیں آتے۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز بھی ان زہریلے چٹ پٹے بیانات کو اچھالنے میں لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اگر ہماری خبر رساں ایجنسیاںاپنی ’لکشمن ریکھائیں‘کھینچ دیں تو اس طرح کے زہریلے، تلخ اور گھٹیا بیانات پر کسی کی توجہ مرکوز نہیں ہوگی۔ جو لیڈر ایسے بیانات دینے کے عادی ہیں، ان کی پارٹیاں ان پر سخت پابندیاں بھی لگا سکتی ہیں، انہیں سزا بھی دے سکتی ہیں۔ اگر ہمارا میڈیا اور پارٹیاںعزم کر لیں تو وہ لیڈروں کی اس بدزبانی کو کافی حد تک روک سکتی ہیں۔ عدالتوں کی مدد سے انہیں روکنے سے یہ بہت بہتر طریقہ ہے۔
(مضمون نگار ہندوستان کی خارجہ پالیسی کونسل کے چیئرمین ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS