بچوں کو کیسے سائنس کی طرف راغب کریں؟ اس سوال کی آج بہت زیادہ اہمیت ہے، کیونکہ 50 سال پہلے ہی انسان نے چاند پر قدم رکھ دیا، ’چندا مامادور کے‘ اب نہیں رہے،دوسرے سیاروں کے بارے میں بھی زیادہ سے زیادہ جاننے کی جستجو میں دنیا بھر کے سائنس داں دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ یہ وقت اسپیس سائنس، نینو ٹیکنالوجی، آرٹی فیشیل سائنس کا ہے۔ اسی مناسبت سے ہمارے بچوں کا ذہن بھی تیارہونا چاہیے۔ انہیں سائنس اور ٹیکنالوجی کی طرف بچپن سے ہی راغب ہونا چاہیے مگر وہ کیسے راغب ہوں۔ اس کے لیے والدین کو بھی کوشش کرنی ہوگی، اساتذہ اور ان لوگوں کو بھی جو چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے زیادہ سے زیادہ اچھا کریں، وہ علم کے میدان میں اسی طرح چمکیں جیسے چاند اور ستارے چمکتے ہیں۔ بچوں کی ذہن سازی کے لیے مغرب میں ادب لکھا جاتا رہا ہے، فلمیں بنائی جاتی رہی ہیں جبکہ ہمارے یہاں آج بھی ادب کو تفریح کا ہی ذیعہ سمجھا جاتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ اردو کو دوسرا اقبالؔ نہیں مل سکا جو یہ احساس دلاتا کہ ’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں‘۔ ویسے بالکل ہی مایوسی کا ماحول نہیں ہے، گزشتہ چند دہائی میں مہاراشٹر اور جنوبی ہند کی ریاستوں میں تعلیم کے شعبے میں کام ہوا ہے اور ہو رہا ہے، بچوں کو حصول علم کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے مگر یہ کوشش پورے ملک میں ہونی چاہیے۔
بچوں کا سائنسی ذہن بنے، وہ سائنس کے میدان میں شاندار کارکردگی پیش کریں، اس کے لیے بہت سے کام کیے جا سکتے ہیں۔ مثلاً: آج کی سائنسی ضرورتوں، ایجادات پر عام فہم لفظوں میں کہانیاں لکھی جائیں، دیگر زبانوں کی اچھی سائنسی کتابوں کے ترجمے کیے جائیں، سائنس پر اچھا لکھنے والوں کے مضامین کا مجموعہ شائع کیا جائے، یو ٹیوب پر بچوں کے لیے سائنسی پروگرام بنائے جائیں، سائنسی باریکیوں کو اس طرح سمجھایا جائے کہ بچے بور نہ ہوں، مثلاً: خلا میں جانے والوں کا لباس خاص طرح سے کیوں تیار کیا جاتا ہے۔ گلی، محلوں میں ایسی لائبریریاں بنائی جائیں جہاں بچوں کی دلچسپی کی سائنسی کتابیں ہوں۔ گلی، محلے کی سطح پر سائنس کے اساتذہ ہفتے، دو ہفتے میں ایک شام اطراف کے بچوں کے ساتھ وقت گزاریں، بچوں کے سوالات سنیں اور ان کا اطمینان بخش جواب دینے کی کوشش کریں۔ اساتذہ بھی بچوں سے سوال کریں تاکہ جواب دینے کے لیے بچے مطالعہ کریں۔ وہ بچوں کو بتائیں کہ انٹرنیٹ کا استعمال کیسے حصول علم کے لیے کرسکتے ہیں۔ ان کی دلچسپی کی کون کون اسی اچھی سائٹیں ہیں۔ کن ڈیجیٹل لائبریروں سے کتابیں آسانی سے ڈاؤن لوڈ کی جا سکتی ہیں۔ گرمی کی چھٹیوں میں یا کسی اور تعطیل میں محلے یا قصبے یا شہر کی سطح پر سائنس کیمپ لگایا جائے۔ وہاں ماہرین سے بچوں کو روبرو کرایا جائے۔ وقفے وقفے سے بچوں کو سائنس سینٹر لے جایا جائے، سائنس فکشن پر مبنی فلمیں دکھائیں جائیں۔ ان کھیلوں کا انعقاد کیا جائے جن سے سائنس کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ بچوں کو دلچسپ انداز میں یہ سمجھایا جائے کہ سائنس کا عام زندگی سے کیا تعلق ہے۔ بالٹی کنویں کے پانی کے اندر رہتی ہے تو کیوں بالکل ہلکی رہتی ہے اور پانی کی سطح کے باہر آتے ہی وزنی کیوں ہو جاتی ہے،ٹریکٹر کا پچھلا پہیہ زیادہ چوڑا کیوں ہوتا ہے، سرکس میں ہاتھی کے کسی عورت پر پاؤں رکھنے سے پہلے اس پر تختہ کیوں رکھ دیا جاتا ہے، پانی کے جہاز کا زیادہ حصہ پانی کے اندر کیوں ہوتا ہے، چاند کے چمکنے کی اصل وجہ کیا ہے، دھیرے دھیرے اس کی چمک کا حصہ کم اور زیادہ کیوں ہوتا رہتا ہے، ایک ہی وقت میں دنیا کے کسی ملک میں دن اور کسی ملک میں رات کیوں ہوتی ہے، کچھ بسکٹ اگر بوتل میں رکھی جائیں اور کچھ باہر ہی کھلے میں اگر چھوڑ دی جائیں تو باہر والی بسکٹ جلدی خراب کیوں ہو جاتی ہیں، دہی جمانے کے لیے دودھ میں ’جوڑن‘ یعنی تھوڑا سا دہی کیوں ڈالا جاتا ہے اور دہی کو زیادہ دیر تک چھوڑ دینے پر زیادہ کھٹا کیوں ہو جاتا ہے، ایسی بہت سی چیزوں کو سمجھاکر بچوں کو سائنس کی طرف راغب کیا جا سکتا ہے۔n
بچوں کو کیسے کریں سائنس کی طرف راغب ؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS