کورونا کے علاج کے نام پر انڈین عوام کتنے قرض میں ڈوب گئی

0

منرل واٹر کے کاروبار سے منسلک میانک کو اپنی بیوی کا پرائیویٹ ہسپتال میں علاج کرانے کے لیے چار لاکھ روپے ادھار لینا پڑے۔ انھوں نے ڈیڑھ لاکھ مالیت کے زیورات گروی رکھے تھے اور بقیہ ڈھائی لاکھ روپے مقامی ساہوکاروں سے زیادہ شرح سود پر ادھار لیے تھے۔ اس کے لیے انھیں چھ ہزار روپے ماہانہ سود ادا کرنا پڑا۔ اس سب کے بعد بھی وہ اپنی بیوی کو نہ بچا سکے۔ میانک اکیلے نہیں ہیں۔ اس طرح کی بہت سی دل دہلا دینے والی کہانیاں کورونا کی تبدیلی کے دوران ہمارے سامنے دیکھی گئیں۔ آپ کے پڑوس میں بہت سے لوگ ایسے ہوں گے جنھوں نے اپنے خاندان کے افراد کو کورونا کی بیماری سے بچانے کے لیے سود پر رقم ادھار لی ہو اور ان میں سے کچھ اب بھی مقروض ہو سکتے ہیں۔ نوکری پیشہ افراد نے اپنے خاندان کو کورونا سے بچانے کے لیے کتنا قرض لیا، اس بارے میں کوئی حتمی ڈیٹا موجود نہیں۔ لیکن ماہرین کے اندازے
انڈیا، کوروناے مطابق یہ تعداد لاکھوں کروڑوں روپے میں ہوسکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق ایسا پرائیویٹ ہسپتالوں کی جانب سے کورونا کے علاج کے نام پر من مانی رقم وصول کرنے کی وجہ سے ممکن ہوا ہے اور اس کی ذمہ دار وبائی مرض سے نمٹنے میں حکومت کی ناکامی بھی ہے۔ تاہم دوسری طرف مرکزی اور مختلف ریاستی حکومتوں کا دعویٰ ہے کہ لاکھوں لوگوں کو مفت طبّی سہولیات فراہم کی گئیں۔ تاہم کورونا انفیکشن کے دوران انڈیا کے مختلف قومی بینکوں کی جانب سے علاج کے لیے قرض دینے کی کئی سکیمیں بھی شروع کی گئیں۔ بی بی سی گجراتی نے اس بارے میں معلومات کے حق کے تحت درخواست دی تھی جس کے جواب میں کئی چونکا دینے والی معلومات سامنے آئیں۔ رائٹ آف انفارمیشن کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق صرف مئی 2021 سے اگست 2021 تک 2,38,369 لوگوں نے اپنے یا اپنے خاندان کے افراد کے علاج کے لیے کل 41,96,48,84,307 روپے کا قرض حاصل کیا۔ یہ رقم کتنی بڑی ہے؟ یہ تعداد گجرات جیسی ترقی یافتہ ریاست کے صحت کے کل بجٹ کا تقریباً 30 فیصد ہے۔ اور یہ رقم عام لوگوں نے صرف تین ماہ میں قومی بینکوں سے قرض کی صورت میں لی۔ بی بی سی گجراتی نے کورونا کے انتظام کے حوالے سے حکومت کی کارکردگی اور عام لوگوں کی حالت کو سمجھنے کے لیے کچھ ماہرین سے بھی بات کی۔ سٹیٹ بینک آف انڈیا سب سے بڑا قرض دینے والا بن گیا۔
اپریل سے جون 2021 تک کا عرصہ انڈیا کے ہر شہری کو طویل عرصے تک ایک ڈراؤنے خواب کے طور پر یاد رہے گا۔ اس دوران ملک میں کورونا کی دوسری لہر کا پھیلاؤ دیکھا گیا اور ملک بھر میں لاکھوں افراد کی موت ہو گئی۔ شمشان گھاٹوں، نئے ہسپتالوں کے باہر لاشوں کی قطاریں، اپنے پیاروں کو کھونے والوں کی چیخ و پکار اس قدر بڑھ گئی کہ دنیا بھر میں اس کا چرچا ہونے لگا۔ اس دوران بہت سے لوگ اپنے گھر والوں کے علاج کے لیے قرض لے کر پیسے لینے پر مجبور ہوئے۔ پیسے کی کمی کے پیش نظر کئی قومی بینکوں نے کورونا کے علاج کے لیے قرضے دینا شروع کر دیے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس سکیم کے تحت مختلف قومی بینکوں نے انکم ٹیکس دہندگان، پیشہ ور افراد، ملازمت کے متلاشیوں اور پنشنرز کو کورونا کے علاج کے لیے 25 ہزار سے پانچ لاکھ روپے تک کے قرضے دینا شروع کر دیے۔ اس رقم پر سود کی شرح 8.5 فیصد سے 9.5 فیصد سالانہ رکھی گئی۔ لیکن ملک کے کئی حصوں میں، بہت سے لوگوں نے اپنے یا اپنے خاندان کے علاج کے لیے نجی قرض دہندگان سے بھی قرض لیا ہے۔ اس سے متعلق بہت سی خبریں کئی اخبارات میں شائع ہوئیں اور سوشل میڈیا پر وائرل بھی ہوئیں۔
’حکومت کو مالی نقصان کی تلافی کے لیے آگے آنا چاہیے‘بی بی سی نے کچھ ماہرین سے یہ جاننے کے لیے رابطہ کیا کہ حکومت کی جانب سے مفت صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے دعوے کے پیش نظر اتنے لوگوں کو کورونا کے علاج کے لیے قرض لینے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ کیا یہ اعداد و شمار حکومت کی ناکامی کی عکاسی نہیں کرتے؟
انڈین انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر دلیپ ماولنکر کا کہنا ہے کہ کورونا سے لڑنے کے لیے صرف تین ماہ میں لوگوں نے جو قرض لیا ہے وہ چونکا دینے والا ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ یہ میسر اعداد و شمار میں موجود قرض ہے، حقیقت میں یہ اعداد و شمار اس سے کئی گنا زیادہ ہوسکتے ہیں۔
ڈاکٹر ماولنکر کہتے ہیں کہ ‘یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ بہت سارے لوگوں نے غیر ضروری طور پر خرچ کیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ اعداد و شمار حکومتی نظام صحت پر لوگوں کے عدم اعتماد کی کہانی بیان کرتے ہیں۔‘انھوں نے کہا کہ ’حکومت کو اس وقت کے مسئلے سے سبق لینا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ مستقبل میں ایسا دوبارہ نہ ہو۔‘ ساتھ ہی ماہر اقتصادیات اندرا ہروے کے مطابق یہ اعداد و شمار حکومت کی ناکامی کو ظاہر کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’عوام کو صحت کی سہولیات فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، یہ اعداد و شمار ثابت کرتے ہیں کہ حکومت بری طرح ناکام ہو چکی ہے، حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی ترجیحات پر نظر رکھے اور اپنی ترجیحات کا درست تعین کرے۔‘ اندرا ہیروے کہتی ہیں کہ لوگوں کے اخراجات ادا کرنے کے لیے ایک نظام ہونا چاہیے اور حکومت کو مالی نقصان کی تلافی کے لیے آگے آنا چاہیے۔ ساتھ ہی، نجی ہسپتالوں میں علاج کے اخراجات کی حد مقرر کرنے کی ضرورت ہے۔‘ وہ کہتی ہیں کہ وبا کے دور میں لوگوں سے من مانی طور پر رقم نہیں لی جانی چاہیے۔ حکومت کو اسے چیک کرنے اور اسے صحیح طریقے سے چلانے کا انتظام کرنا چاہیے تھا، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ مودی حکومت کی نیشنل ہیلتھ اتھارٹی کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق جولائی 2021 تک ’آیوشمان بھارت‘ کے تحت ملک بھر میں سات لاکھ سے زیادہ لوگوں کا علاج کیا گیا۔ ریاستی اور مرکزی حکومت کے وزرا نے دعویٰ کیا کہ حکومت اس دوران اپنی پوری کوشش کر رہی ہے۔ اس دوران ہزاروں مریض آکسیجن کی کمی اور علاج کی کمی کے باعث موت کے منھ میں چلے گئے۔ تاہم، کچھ سماجی کارکنوں نے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو گنگا میں تیرتی ہوئی لاشوں اور گنگا کے کنارے دفن ہونے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے صورتحال کی سنگینی سے آگاہ کرنے کی کوشش کی۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS