’راشٹر کی دھوری‘ سے بے اعتنائی آخر کب تک؟

0

صبیح احمد

ہندوستان قدیم زمانے سے ہی ایک زراعت پر منحصر ملک رہا ہے۔ لیکن اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ خودکشی کرنے والے کسانوں کی تعداد بھی ہندوستان میں ہی درج کی جاتی ہے۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہم ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود آج بھی اس مسئلہ کے حل تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔ سب سے زیادہ کسانوں کی خودکشی مہاراشٹر میں ہوتی ہے۔ اس کے بعد یہ معاملے کرناٹک، مدھیہ پردیش، آندھرا پردیش اور چھتیس گڑھ جیسی کئی دیگر ریاستوں میں درج کیے جاتے ہیں۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق مہاراشٹر کے مراٹھواڑا علاقے میں 2022 میں 1,023 کسانوں نے خود کشی کی جبکہ گزشتہ سال 887 کسانوں نے خود کشی کی تھی۔یہ واقعات کم ہونے کے بجائے روز بروز بڑھتے ہی جا رہے ہیں جو انتہائی تشویش ناک ہے۔ بلا شبہ کسان ’راشٹر کی دھوری‘ ہیں۔ اگر یہ ’دھوری‘ (ایکسل) ہی کمزور پڑے جائے تو پھر راشٹر ’رام بھروسے۔‘ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے قائدین کو آزادی کی 7-8 دہائیوں بعد بھی صرف اور صرف سیاست و اقتدار کی فکر ستاتی ہے، ملک کو آگے بڑھانے والی گاڑی کی ’دھوری‘ کی کوئی فکرنہیں۔ آج اکیسویں صدی میں بھی اپنی بدحالی اور کسمپرسی کی وجہ سے کسانوں کی خود کشی کے واقعات تھمنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ اس طرح کے واقعات اکثر و بیشتر اخبارات کی سرخیاں بنتی رہتی ہیں جو ہندوستان جیسے زراعت پر مبنی ملک کے لیے باعث شرم ہے۔
گزشتہ کچھ برسوں میں کسانوں کی خود کشی ایک بڑا مسئلہ کے طور پر ابھری ہے۔ ہندوستان میں کسانوں کی خودکشی کی صورتحال 1990 کے بعد پیدا ہوئی ہے جس میں سالانہ 10 ہزار سے زائد کسانوں کے ذریعہ خود کشی کیے جانے کی رپورٹ درج کی گئی ہے۔ 1995 سے 2011 کے درمیان 17 سال میں 7 لاکھ، 50 ہزار، 860 کسانوں نے خود کشی کی۔ ہندوستان میں امیر اور ترقی یافتہ صوبہ کہے جانے والے مہاراشٹر میں اب تک خودکشی کے اعداد و شمار 50 ہزار سے اوپر پہنچ چکے ہیں۔ شروع میں کسانوں کی خود کشی کی خبریں مہاراشٹر سے آئیں۔ پہلے تو لگا کہ زیادہ تر خود کشی مہاراشٹر کے ودربھ علاقہ کے کپاس پیداکرنے والے کسانوں نے کی ہے لیکن مہاراشٹر کے ریاستی کرائم اکاؤنٹنگ دفتر سے حاصل شدہ اعداد و شمار کو دیکھنے سے واضح ہو ا کہ پورے مہاراشٹر میں کپاس سمیت دیگر نقد فصلیں پیدا کرنے والے کسانوں کی خودکشی کی شرح بہت زیادہ ہے۔ خود کشی کرنے والے صرف چھوٹی جوت والے کسان ہی نہیں تھے بلکہ درمیانے اور بڑے جوتوں والے کسان بھی شامل تھے۔ ریاستی حکومتوں نے اس مسئلہ پر غور کرنے کے لیے بہت سی جانچ کمیٹیاں بنائیں۔ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے ودربھ کے کسانوں کی مدد کے لیے ریاستی حکومت کو 110 ارب روپے کی گرانٹ کا اعلان کیا لیکن یہ مسئلہ صرف مہاراشٹر تک ہی محدود نہیں تھا۔ بعد میں زراعتی بحران کی وجہ سے کرناٹک، کیرالہ، آندھرا پردیش، پنجاب، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں بھی کسانوں کی خود کشی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس لحاظ سے 2009 اب تک کا بدترین سال تھا جب ہندوستان کے قومی کرائم اکاؤنٹنگ آفس نے سب سے زیادہ 17,368 کسانوں کی خود کشی کی رپورٹیں درج کیں۔ سب سے زیادہ خود کشی کے واقعات مہاراشٹر، کرناٹک، آندھرا پردیش، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں ہوئے تھے۔
آخر یہ نوبت کیوں آتی ہے؟ جو کسان پورے ملک کا پیٹ بھرتے ہیں اور گرمی کی بدن جلانے والی دھوپ، جاڑے کی ہڈی کپانے والی سردی اور برسات کی موسلا دھار بارش کی پروا کیے بغیر اپنا خون پسینہ ایک کر کے ہم وطن شہریوں کے کھانے پینے کا انتظام کرتے ہیں، آخر وہ کون سی بات ہے جو انہیں خود کشی پر مجبور کر دیتی ہے؟ ہندوستان کے زیادہ تر چھوٹے کسان قرض لے کر کاشتکاری کرتے ہیں۔ قرض واپس کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ فصل اچھی ہو ۔ ہمارے ملک میں سینچائی کی سہولت بہت کم کسانوں کو دستیاب ہے۔ زیادہ تر کسان کھیتی کے لیے بارش پر انحصار کرتے ہیں۔ اب ایسے میں اگر مانسون ٹھیک سے نہ برسے تو فصل مکمل طور پر برباد ہو جاتی ہے۔ سال بھر کھانے کے لیے بھی کچھ نہیں رہتا، قرض ادا کرنے کا بوجھ الگ۔ مانسون کی ناکامی، خشک سالی، مہنگائی میں اضافہ، قرض کا ضرورت سے زیادہ بوجھ وغیرہ جیسی صورتحال کسانوں کے لیے مسائل کی ایک سائیکل کا آغاز کرتی ہے۔ ایسے حالات میں وہ بینکوں، مہاجنوں، بچولیوں وغیرہ کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔ کئی کسان قرض کے دباؤ کو برداشت نہیں کر پاتے اور خودکشی کر لیتے ہیں۔
ملک کے تقریباً 6لاکھ گائوں میں رہنے والے 56 ملین کسانوں کو درپیش اصل مسئلہ یہ ہے کہ کسانوں کے مکمل طور پر مانسون پر انحصار کو ختم کرنے کے لیے ابھی تک کچھ بھی نہیں کیا گیا ہے جو ان کی آمدنی پر راست طور پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یعنی ہمارے یہاں ابھی تک سینچائی تک کا معقول انتظام نہیں ہو پایا ہے جو کاشتکاری کے لیے بنیادی ضرورت ہے۔ اناج کی پیداوار کا مکمل طور پر انحصار موسم پر ہوتا ہے۔ اگر بارش وقت پر اور حسب ضرورت ہوئی تو فصل اچھی ہوتی ہے لیکن اگر اس کے برعکس موسم نے اپنا مزاج دکھایا تو کھیتی پر اس کا راست اثر پڑتا ہے۔ یہ ایک الگ مسئلہ ہے کہ فصل اگانے کیلئے کسانوں کی جو لاگت ہوتی ہے اس حساب سے انہیں اس کی قیمت بھی نہیں مل پاتی۔ اس کے بعد کسانوں کی ناراضگی اور مایوسی مختلف ریلیوں اور مظاہروں کے طور پر دیکھنے کو ملتی ہے اور جب اس سے بھی بات نہیں بنتی ہے تو پھر ان کے چاروں طرف اندھیرا چھانے لگتا ہے۔ کسانوں کے لیے کھیتی کا خرچ مسلسل بڑھ رہا ہے لیکن اس کے مقابلے کسان کی آمدنی کم ہوتی جارہی ہے۔ چھوٹے کسان اقتصادی تنگ حالی کی صورت میں قرض کے شیطانی چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔ کسانوں کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرنے والے گروپوں کا کہنا ہے کہ اناج کی حقیقی قیمتیں کسانوں کو نہیں ملتیں اور انہیں جی ایم کمپنیوں سے کافی مہنگے بیج اور کھاد خریدنے پڑتے ہیں۔ جی ایم بیج خریدنے میں کئی کسان بڑے قرض میں ڈوب جاتے ہیں۔ جب فصل کی صحیح قیمت نہیں ملتی ہے تو انہیں واحد راستہ خود کشی کا نظر آتا ہے۔ کسان کی خود کشی کے بعد پورے خاندان پر اس کا اثر پڑتا ہے۔ بچوںکا اسکول چھوٹ جاتا ہے۔ وہ کھیتی باڑی کے کاموں میں ہاتھ بٹانے لگتے ہیں۔ کنبہ کو قرض کی وراثت ملتی ہے اور اس بات کا خدشہ بڑھ جاتا ہے کہ اضافی خاندانی دباؤ کے درمیان کنبہ کے کچھ اور رکن کہیں خودکشی نہ کر بیٹھیں۔
فصل بیمہ اس مسئلہ کا ایک حل ہو سکتا ہے لیکن اس حوالے سے صورتحال یہ ہے کہ ایسوچیم کے ایک مطالعہ کے مطابق 80 فیصد کسانوں کو اس کے بارے میں کوئی علم ہی نہیں ہے۔انشورنس کمپنیاں بھی صرف انہی کسانوں کو فوکس کرتی ہیں جو پریمیم کی ادائیگی کے لیے تیار ہوتے ہیں یا ان کسانوں پر جو قرض لینے اور لازمی فصل بیمہ کرانے کو راضی ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ جو کسان موسم انشورنس کراتے بھی ہیں،انہیں کوئی فائدہ نہیں مل پاتا۔ یہ انشورنس علاقہ کے حساب سے کیا جاتا ہے، اس لیے بھاری بارش سے اگر کچھ ایکڑ فصل تباہ ہوتی ہے تو انشورنس کمپنی صرف ایک متناسب بربادی کا معاوضہ ہی ادا کرتی ہے۔ کسی واحد کسان کی تباہی و بربادی کا معاوضہ نہیں دیتی، خواہ اس کسان کی ساری فصل ہی کیوں نہ تباہ ہو گئی ہو۔ کسان ہمارے ’ان داتا‘ ہیں یعنی ہماریـ غذائی ضرورتوں کو پوری کرتے ہیں۔ ان کی خودکشی پوری قوم کے لیے شرم کی بات ہے۔ ہندوستان جیسے زراعت پر مبنی ملک میں اگر کسانوں کی ایسی حالت ہو تو ہماری ترقی اور ترقی کی ساری باتیں، ہماری ساری حصولیابیاں بے معنی ہیں۔ ’راشٹر کی دھوری‘ سے بے اعتنائی آخر کب تک؟
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS