خواجہ عبدالمنتقم
دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخا ب‘ آج اسی شہر میں خواتین کے سا تھ جو وحشیانہ سلوک ہو رہا ہے اور جس طرح ان کا استحصال کیا جارہا ہے، وہ گزشتہ کسی بھی صدی اور کسی بھی دور حکومت میں نہیں ہوا۔ ہم نے گجرات میں بلقیس بانو اوردہلی میں نربھیا کے سا تھ ظالمانہ سلوک اور ملک کے دیگر حصوں میں اسی نوعیت کے واقعات سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور ایسا لگتا ہے کہ ہمارے معاشرہ میں کچھ لوگ مکمل طور پر بے حس ہو چکے ہیں۔آج ہر ماں کو یہ فکر ہے کہ ا س کی بچی باہر جانے کے بعد بخیر واپس آئے گی یا نہیں۔اگرچہ اس طرح کے واقعات ملک کے مختلف حصوں میں وقتاً فوقتاً پیش آتے رہے ہیں مگر جب ملک کے دارالخلافہ میں پیش آئیں یعنی مرکزی حکومت کی آنکھ کے نیچے، تو نظام نظم و نسق پر انگلی اٹھنا لازمی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی اپنی سوچ میں تبدیلی لانی ہوگی اور اس صنف نازک کی نزاکت کا ناجائز فائدہ اٹھانے کے بجائے اس کی ہر شعبۂ حیات میں حفاظت کے لیے یہ سوچ کر آگے آناہوگا کہ آج جو کچھ ’ الف‘کے ساتھ ہورہا ہے وہ کل ’ب‘ کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔یہ مانا کہ نظم و نسق قائم رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے مگر اس کے ساتھ عوام کا تعاون بھی ضروری ہے۔
آئیے اب انجلی کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی بات کرتے ہیں۔انجلی کی کہانی ایسی لاتعداد غریب خواتین کی ناقابل بیان استحصال کی کہانیوں میںسے ایک ہے جو اپنے بچوں، ماں باپ اور بہن بھائیوں کا پیٹ پالنے کے لیے نا موافق حالات اور نا موافق اوقات کار میں کام کرنے کے لیے مجبور ہیں۔یہ مانا کہ انہیں بھی اپنی حفاظت کے معاملے میں احتیاط برتنی چاہیے مگر وہ بھی انسان ہیں اور ان سے بھی کوئی لغزش ہو سکتی ہے اور کبھی کبھی وہ لوگ جن پر انہیں مکمل بھروسہ ہوتا ہے، وہ بھی اعتماد شکنی کے مرتکب ہوجاتے ہیں۔ اس بات کا غالب امکان ہے کہ اس کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہو۔ بہرحال جب تک تمام شواہد سامنے نہیں آجاتے اور ملزمین، مجرم ثابت نہیں ہو جاتے تب تک کوئی بھی حتمی رائے قائم کرنا نہ تو قرین مصلحت ہے اور نہ قانونی اعتبار سے صحیح۔ کسی گاڑی کے نیچے ذرا سا پتھر بھی آ جائے تو اس کا پتہ لگ جاتا ہے، البتہ جس طرح انجلی کو کئی کلو میٹر تک ظالمانہ طریقہ سے کھینچا گیا، اس کا گاڑی میں سوار لوگوں کو علم نہ ہو، ایسا سوچنا بھی بعید از قیاس ہوگا۔اسی طرح پولیس کی جانب سے ایک منصف کا رول ادا کرتے ہوئے یہ فیصلہ دے دینا کہ یہ معاملہ محض ایک بڑے حادثے کے سوا کچھ بھی نہیں اور قتل عمد کے بجائے اسے مجموعہ تعزیرات بھارت کی دفعات 279،(شارع عام پر بے احتیاطی سے گاڑی چلانا) 304 الف(غفلت سے ہلاک کرنا)اور دفعہ120B(سازش مجرمانہ )کامعاملہ بتا دینا کم از کم ہمارے جیسے قانون کے طالب علم کو تومنظور نہیں۔ کچھ توہے جس کی پردہ داری ہے۔ ان دفعات اور کچھ دیگر متعلقہ دفعات کی عبارات درج ذیل ہیں:
304الف- جو کوئی کسی ایسے غفلت کے فعل سے جو قتل انسان مستلزم سزا کی حد تک نہ پہنچتا ہو، کسی شخص کو ہلاک کردے، اسے دونوں میں سے کسی بھی قسم کی دو سال تک کی قید یا جرمانے کی سزا یا دونوں سزائیں دی جائیںگی۔
-279جو کوئی اتنی بے احتیاطی یا غفلت سے شارع عام پرکوئی گاڑی چلائے یاگھوڑ اسواری کرنے سے انسانی زندگی کو خطرہ لاحق ہو یا کسی دیگر شخص کو ضرر یا چوٹ پہنچنے کا امکان ہو، اسے دونوں میں سے کسی بھی قسم کی چھ ماہ تک کی سزائے قید یا ایک ہزار روپے تک کے جرمانے کی سزا یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔
120ب۔ (1)جو کئی ایسے جرم کے ارتکاب کی سازش مجرمانہ میں فریق ہو، جس کے لیے سزائے موت، عمر قید یا دو سال یازائد کی قید بامشقت دی جاسکتی ہو، اسے جب ایسی سازش کی سزا کے لیے اس مجموعے میںکوئی صریح تو ضیع نہ کی گئی ہو، اسی طریقے سے سزا دی جائے گی گویا کہ اس نے ایسے جرم کی اعانت کی ہو۔
(2)جو کوئی متذکرہ بالاطریقہ سے قابل سزا جرم کے ارتکاب کی سازش مجرمانہ کے سوا کسی سازش مجرمانہ میں فریق ہو تو اسے دونوں میں سے کسی بھی قسم کی اس مدت کی سزائے قید جو چھ ماہ سے زائد نہ ہو یا سزائے جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔
ان تینوں دفعات پر محض نظر طائرانہ ڈالنے اور ان میں مجوزہ سزا کی قلیل مدت کے پیش نظر بہ آسانی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پولیس نے اس پورے معاملہ کو محض ایک حادثہ قرار دیا ہے جبکہ اس واقعہ کی نوعیت سے یہ قیاس ضرور لگایا جاسکتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ معاملہ دفعہ 300 کے تحت قتل عمد کا ہو جس کی سزا دفعہ 02کے تحت سزائے موت یا عمرقید ہے اور مرتکب سزائے جرمانہ کا بھی مستوجب ہوگا۔ اس کے علاوہ وہ قتل انسان مستلزم سزا کا بھی مرتکب ہو سکتا ہے جس کی تفصیل دفعات 299 اور304میں دی گئی ہے۔
-299 جو کوئی کسی فعل کا ارتکاب کرکے ہلاک کرنے کی نیت سے یا ایسی جسمانی چوٹ پہنچانے کی نیت سے جس سے ہلاک ہونے کا امکان ہو یا یہ علم ہوتے ہوئے کہ اس کے ایسے فعل سے ہلاک ہونے کا امکان ہے کسی کو ہلاک کرے، وہ قتل انسان مستلزم سزا کے جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔
-304 جو کوئی قتل انسان مستلزم سزا، جو قتل عمد کی حد تک پہنچتا ہو، کا ارتکاب کرے، اسے عمرقید کی سزا یا دونوں میں سے کسی بھی قسم کی دس سال تک کی قید کی سزا دی جائے گی اور وہ جرمانہ کا بھی مستوجب ہوگا اگر ایسا فعل جس سے ہلاک کیا گیا ہو ہلاکت کرنے یا ایسی جسمانی چوٹ پہنچانے کی نیت سے کیا جائے جس سے ہلاکت کا امکان ہو،یا اسے دونوں میں سے کسی بھی قسم کی دس سال تک کی قید یا جرمانے کی سزا یا دونوں سزائیں دی جائیںگی اگر فعل یہ علم ہوتے ہوئے کیا جائے کہ اس سے ہلاکت کا امکان ہے، لیکن ہلاک کرنے یا ایسی جسمانی چوٹ پہنچانے کی نیت سے نہ کیا جائے جس سے ہلاکت کا امکان ہو۔
اب میڈیکل بورڈ کی رپورٹ سے یہ انکشاف تو ہو ہی چکا ہے کہ مقتولہ کی موت زیادہ خون بہنے سے ہوئی۔باقی پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے،اس کی بابت عدالت کے روبرو جرح اور دیگر شہادت کے پیش نظر ہی عدالت یہ فیصلہ کرے گی کہ اس معاملے کی قانونی نوعیت کیا ہے اور اسی کے مطابق سزا دے گی۔ ہو سکتا ہے کہ اس کی دوست و ہم سفر،جو موقعۂ واردات سے انجلی کو بے کسی کی حالت میں چھوڑ کر چلی گئی تھی اور پولیس کو معاملے کی اطلاع بھی نہیں دی، کے ذریعے کیے گئے انکشافات کی روشنی میں پولیس بھی ایف آئی آر میں مزید دفعات کو شامل کردے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]