راجیو ڈوگرا
پاکستان نے پھر سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کی اس چٹھی کا جواب بھیجا ہے جو انہوں نے پاکستان کے ’نیشنل ڈے‘ پر دستور کے مطابق لکھی تھی۔ عمران خان کے خط کی کئی باتوں کی تعریف کی جاسکتی ہے، لیکن کچھ الفاظ سے پاکستان کی منشا ظاہر ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر پہلے پیراگراف میں ہی عمران خان نے لکھا ہے کہ پاکستان یہ دن اس لیے مناتا ہے کیوں کہ اس کے بانیوں نے آزاد رہنے کے لیے ایک خودمختار ملک کا تصور کیا تھا۔ اس کے معنی ہیں کہ بنگلہ دیش کی تعمیر سے جو ’دو قومی نظریہ‘ غلط ثابت ہوا تھا، اسے پھر سے صحیح بنانے کی انہوں نے کوشش کی ہے۔ یعنی دل کی کھٹاس انہوں نے شروع میں ہی ظاہر کردی۔ اس کے علاوہ پرانا راگ الاپتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے کہ امن میں استحکام تبھی آسکتا ہے جب جموں و کشمیر کے ’تنازع‘ (اسے پاکستان پہلے ایشو مانتا تھا) کا حل ہوجائے گا۔
پاکستان کے تناطر میں ہمیں ہر ایک قدم اس لیے بھی پھونک پھونک کر اٹھانا چاہیے کیوں کہ پنڈت نہرو کا تجربہ، تاشقند معاہدہ اور شملہ سمجھوتہ جیسی تعلقات بہتر کرنے کی کوششیں بتاتی ہیں کہ پاکستان اپنی بیمار منشا کبھی نہیں چھوڑتا۔ ۔۔۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ہر مرتبہ یہ دیکھنا ہوگا کہ ہماری پیٹھ پر وہ کوئی وار تو نہیں کرنے جارہا، لہٰذا پاکستان کی حالیہ پہل امید جگانے کے باوجود شک پیدا کرتی ہے۔ اسی روشنی میں ہمیں آگے بڑھنا چاہیے۔
یہ الفاظ بیوروکریٹس کے ہیں یا سیاسی لیڈروں کے، یہ تو آنے والا وقت بتائے گا، لیکن اس پہل کا خیرمقدم کرتے ہوئے بھی سوال یہی ہے کہ نئی ’شروعات‘ آخر پاکستان کیوں کررہا ہے؟ گزشتہ دنوں فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی پرانی باتیں بھلاکر نئی راہ بنانے کی بات کہی تھی۔ حالاں کہ پاکستانی فوج پہلے بھی اس طرح کی پہل کرچکی ہے، لیکن اس مرتبہ کچھ خاص وجوہات ہوسکتی ہیں۔ پہلی، حالیہ برسوں میں پاکستانی فوج خود کو تاناشاہ حکمراں نہ بننے دینے کی پالیسی پر آگے بڑھی ہے، کیوں کہ اس کا ماننا ہے کہ ایسا کرنے پر سارا قصور اس کے اوپر ہی آجاتا ہے۔ یحییٰ خان، ایوب خان، ضیاء الحق یا پھر پرویز مشرف، سبھی کے دوراقتدار میں فوج اس الزام کو جھیل چکی ہے۔ مگر پردے کے پیچھے سے حکومت چلانے کا اس کا راززیادہ دنوں تک پوشیدہ نہ رہ سکا اور اب جگ ظاہر ہے کہ چھوٹے عہدے سے لے کر بڑے عہدوں تک، فوج ہی ملک چلا رہی ہے۔ اسی لیے وہاں ایک نعرہ برابر گونجتا ہے-یہ جو دہشت گردی ہے، اس کے پیچھے وردی ہے۔ اسی سوچ کو بدلنے کے لیے وہاں کی جمہوری حکومت نے یہ پیغام بھیجا ہے۔
دوسری وجہ پاکستان کی ناکام ہوتی پالیسیاں ہوسکتی ہے۔ عالم یہ ہے کہ ملک میں مہنگائی عروج پر ہے۔ چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی عام آدمی کی دسترس سے باہر ہیں۔ غریبی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ غریبوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ عالمی بینک کا اندازہ ہے کہ پاکستان پر قرض اس کی مجموعی ملکی پیداوار(جی ڈی پی) کا 94فیصد تک ہوچکا ہے۔ اتنا ہی نہیں، پہلے بڑی امداد کرنے والے امریکہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات جیسے ملک اب ایسا کرنے سے ہچکچانے لگے ہیں۔ ایسے میں امید چین سے ہے، لیکن اس کی قرض پالیسی کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ لہٰذا پاکستان خود کو چہارجانب سے گھرا ہوا محسوس کررہا ہے۔ پیسے نہ ہونے پر فوج کا بھاری بھرکم بجٹ بھی متاثر ہوسکتا ہے۔ اسی وجہ سے وہ اپنی درآمد لاگت کم کرنے کی کوشش میں ہے۔ اور یہ تبھی ممکن ہے جب پڑوسی ممالک سے اس کے اچھے تعلقات ہوں۔ ہندوستان اس معاملہ میں اس کے لیے مددگار ثابت ہوسکتا ہے، کیوں کہ یوروپ اور چین سے سامان منگوانے کے مقابلہ میں اسے ہندوستان سے درآمد کافی سستی پڑے گی۔
تیسری وجہ افغانستان ہوسکتا ہے۔ پاکستان کو علم ہے کہ امریکہ کسی بھی طرح سے یہاں سے نکلنا چاہتا ہے۔ اس کے بعد اگر افغانستان میں طالبان کی حکمرانی قائم ہوتی ہے تو آئی ایس آئی و فوج کی مدد سے پاکستان وہاں اثرانداز ہوسکتا ہے۔ مگر اس کی راہ میں دو رکاوٹیں ہیں۔ پہلی عام افغانی عوام ہندوستان کو پسند کرتے ہیں، اسی لیے کابل میں نئی دہلی کا کردار اہم رہا ہے اور دوسری وجہ افغانستان میں صرف پشتون آبادی نہیں ہے، بلکہ آدھی آبادی غیرپشتونوں کی ہے۔ ایسے میں طالبانی حکومت میں یہاں خانہ جنگی کا خطرہ بنا رہے گا۔ اسی لیے اگر پاکستان اس ملک پر اپنا کنٹرول بنانا چاہتا ہے تو اسے افغانستان کو کچھ پیسے دینے پڑیں گے اور ابھی جب خود اس کی جیب پھٹی ہوئی ہے تو وہ بھلا افغانستان کو کیا دے گا؟ نتیجتاً وہ مشرقی سرحد(ہندوستان) پر حالات نارمل بنانا چاہتا ہے، تاکہ اپنے مقاصد کو حاصل کرسکے۔
ایک دلیل یہ بھی دی جارہی ہے کہ فائنانشیل ایکشن ٹاسک فورس(ایف اے ٹی ایف) کی ’گرے لسٹ‘ سے باہر نکلنے کے لیے وہ ایسا کررہا ہے۔ بیشک یہ بھی ایک وجہ ہوسکتی ہے، لیکن اس کا بہت زیادہ فائدہ اسے نہیں ہوگا۔ ممکن ہے کہ جلد ہی وہ اس فہرست سے باہر نکل جائے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ امریکہ اس کی مدد کرنے کے لیے آگے آئے گا یا گوگل اور مرسڈیز جیسی کمپنیاں وہاں سرمایہ کاری کرنے لگیں گی۔ سبھی صنعت کار محفوظ سرمایہ کاری چاہتے ہیں اور پاکستان کی حقیقت دنیا کے سامنے ظاہر ہے کہ وہ دہشت گردی کو کھادپانی دیتا ہے۔
یہاں بڑا سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان قول و فعل میں کتنی یکسانیت دکھائے گا؟ پاکستانی میڈیا میں شائع ہونے والے ریٹائرڈ ہائی کمشنرز اور سفیروں کے مضامین میں ایک بات عام ہے کہ کشمیر کسی بھی قیمت پر پاکستان کو ہی ملنا چاہیے۔ یعنی پاکستان نے دیر سے قدم تو اٹھایا ہی ہے، مگر درست اٹھایا ہے یا نہیں، یہ ابھی نہیں کہا جاسکتا۔ ہاں، ہندوستان کو ضرور تاریخ سے سبق لے کر آگے بڑھنا چاہیے۔ ابھی سیزفائر پر قائم اتفاق رائے عارضی ہوسکتا ہے کیوں کہ پاکستان کی اندرونی حالت جیسے ہی بگڑے گی اور کشمیر پر وہ اپنا پرانا راگ الاپنے لگے گا، حالت ڈھاک کے تین پات والی ہی ہوگی۔
پاکستان کے تناطر میں ہمیں ہر ایک قدم اس لیے بھی پھونک پھونک کر اٹھانا چاہیے کیوں کہ پنڈت نہرو کا تجربہ، تاشقند معاہدہ اور شملہ سمجھوتہ جیسی تعلقات بہتر کرنے کی کوششیں بتاتی ہیں کہ پاکستان اپنی بیمار منشا کبھی نہیں چھوڑتا۔ جیسے، شملہ سمجھوتہ کے وقت اس نے اپنے جنگی قیدیوں کو واپس مانگ لیا تھا تو تاشقند میں ڈپلومیٹک طور سے اہم حاجی پیر درّہ کو۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ہر مرتبہ یہ دیکھنا ہوگا کہ ہماری پیٹھ پر وہ کوئی وار تو نہیں کرنے جارہا، لہٰذا پاکستان کی حالیہ پہل امید جگانے کے باوجود شک پیدا کرتی ہے۔ اسی روشنی میں ہمیں آگے بڑھنا چاہیے۔
(مضمون نگار سابق سفیرہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)