جوہری ہتھیاروں کے خلاف دفاع کا یوروپی نظام کیسے کام کرتا ہے؟

0

واشنگٹن (ایجنسیاں) : ایٹمی ہتھیار ماضی میں سرد جنگ کی علامت تھے لیکن یوکرین کے خلاف جنگ میں روسی صدر پوتن کی دھمکیوں کے بعد ان کے بارے میں اب عوامی سطح پر گفتگو کی جانے لگی ہے۔ جوہری ہتھیاروں کے خلاف دفاع کا یورپی نظام کیسے کام کرتا ہے؟روس کے پاس 6300 سے زائد نیوکلیئر وارہیڈز موجود ہیں اور یہ دنیا بھر میں جوہری ہتھیاروں کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔ اس کے برعکس امریکہ کے پاس تقریباً 5800 نیوکلیئر وارہیڈز ہیں اور یہ ملک ناٹو میں جوہری ہتھیاروں کے سب سے بڑے ذخیرے کا مالک ہے۔ مغربی دفاعی تنظیم ناٹو میں امریکہ کے اتحادی ممالک میں سے فرانس کے پاس تقریباً 300 اور برطانیہ کے پاس بھی تقریباً 215 ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ ان ہتھیاروں کی اصل تعداد غیر واضح اس لیے ہے کہ ایٹمی طاقتیں کہلانے والے ممالک اپنے اپنے جوہری پروگراموں اور ایسے ہتھیاروں سے متعلق معلومات خفیہ رکھتے ہیں۔امریکہ جب اپنے بارے میں جوہری ہتھیاروں سے حملے کے خلاف دفاعی ڈھال کا ذکر کرتا ہے، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ یورپ کے خلاف ایسا کوئی فوجی حملہ بھی خود بخود رک جائے گا۔ ’دفاعی ڈھال‘ سے مراد اکثر یہ لی جاتی ہے کہ دشمن کم از کم ناٹو کے رکن کسی بھی ملک پر جوہری ہتھیاروں سے تو حملہ نہیں کرے گا، کیونکہ ایسی صورت میں اسے اپنے خلاف ایٹمی ہتھیاروں سے جوابی حملے کے لیے بھی تیار رہنا ہو گا۔ایسے کسی عسکری جواب کا فیصلہ ناٹو کی رکن تینوں جوہری طاقتیں کر سکتی ہیں اور عملاً ایسا جواب دے بھی سکتی ہیں۔ امریکہ، فرانس اور برطانیہ، ان تینوں ممالک کے پاس اسٹریٹیجک نوعیت کے جوہری ہتھیار موجود ہیں، جو بوقت ضرورت ایٹمی آبدوزوں کے ذریعے بھی دشمن کے خلاف استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ناٹو کی رکن تینوں ایٹمی طاقتیں آپس میں بھی جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے دشمن کو ڈرا کر رکھنے اور بہت محتاط رہنے پر مجبور کرنے کے لیے مختلف طرح کی سوچ پر عمل پیرا ہیں۔ یورپ میں فرانس اور برطانیہ اس بات کے قائل ہیں کہ دشمن کو ایسے کسی محتاط رویے کا حامل بنائے رکھنے کے لیے کم سے کم جوہری صلاحیت ہی کافی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ جوہری ہتھیاروں سے لڑی جانے والی کوئی بھی جنگ کئی روز تک جاری رہنے والی تو کبھی نہیں ہو گی۔ پیرس اور لندن کے لیے بس اتنی جوہری صلاحیت ہی کافی ہے کہ بوقت ضرورت دشمن کو جواب دیا جا سکے۔اس کے برعکس امریکہ اس بات کا قائل ہے کہ وسیع تر تیاریوں کے ساتھ دشمن کو جوہری ہتھیاروں کے ذریعے بہت ڈرا کر رکھا اور انتہائی محتاط رہنے پر مجبور کیا جائے۔ اس کے لیے چھوٹے جوہری ہتھیاروں کو بھی کافی اہمیت دی جاتی ہے۔ اس کے پس پردہ امریکی فوجی منصوبہ سازوں کی یہ سوچ ہے کہ اگر کبھی کوئی ایٹمی جنگ ہوئی بھی، تو وہ ‘محدود‘ ہی ہو گی۔سپری کے مطابق 6,375 جوہری ہتھیاروں کے ساتھ روس سب سے آگے ہے۔ روس نے 1,570 جوہری ہتھیار نصب بھی کر رکھے ہیں۔ سابق سوویت یونین نے اپنی طرف سے پہلی بار ایٹمی دھماکہ 1949ء میں کیا تھا۔ 2015 میں روس کے پاس آٹھ ہزار جوہری ہتھیار تھے، جن میں سے متروک ہتھیار ختم کر دیے گئے۔
سپری کا یہ بھی کہنا ہے کہ روس اور امریکا جدید اور مہنگے جوہری ہتھیار تیار کر رہے ہیں۔
بین الاقوامی قانون کے تناظر میں قابل غور بات یہ بھی ہے کہ دنیا میں کسی ایک بھی ایٹمی ہتھیار کے استعمال کے عام شہریوں پر بھی خوفناک اثرات مرتب ہوں گے اور یہ
بات بین الاقوامی قانون کی بہت بڑی خلاف ورزی ہو گی۔ مخصوص حالات میں کسی محدود ایٹمی جنگ کا ایک ممکنہ منظر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی بہت بڑے کھلے
سمندر میں کسی جنگی بحری جہاز کو محدود جوہری حملے کا نشانہ بنایا جائے۔
جرمنی میں تقریبا? 35 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں جن کی اکثریت ملک کے مغرب اور جنوب میں ہے۔ لیکن اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس 75 سالہ پرانے تعلق
میں تبدیلیاں لانے کے خواہشمند ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے جرمنی سے بارہ ہزار امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا۔ فوج کی واپسی کا یہ عمل امریکا اور جرمنی
کے مابین فوجی اتحاد کے لیے ایک بہت بڑا امتحان ثابت ہو سکتا ہے۔ نیٹو نے اپنی طرف سے جوہری ہتھیاروں کے ممکنہ استعمال کے لیے باقاعدہ رہنما ضابطے بھی طے کر رکھے ہیں لیکن ان ضابطوں کی تفصیلات کبھی جاری نہیں کی جاتیں۔ نیٹو کی طرف سے خود کو ہمیشہ ہی ایک جوہری دفاعی اتحاد بھی کہا جاتا ہے، لیکن اس اتحاد کا کوئی باقاعدہ اعلان شدہ رہنما جوہری منشور نہیں ہے۔ جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا حتمی فیصلہ، اختیار کس کے پاس؟

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS